گزشتہ دنوں وادی کے پریمم ادارے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوا جس میں ڈاکٹروں کے بارے میں مشتعل تیمارداروں نے تحقیق طلب شکایتوں کے انبار لگائے۔ اس میں دورائے نہیں کہ ہمارے سرکاری شفاخانوں کے بارے میں آئے روز ایسی حکایات وشکایات گشت کر تی رہتی ہیں جو سب کو یہی باور کراتی ہیںکہ ہمارے یہاں ہیلتھ سیکٹر کے آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔بڑی ناسپاسی ہوگی اگر یہ اعتراف نہ کیا جائے کہ حالات کی مستقل نامساعدت کے باوجود سرکاری ہسپتالوں کا طبی اور نیم طبی عملہ جس جانفشانی ، بیمار دوستی اور فرض شناسی سے ا پنی خدمات گزشتہ ۲۹؍سال سے انجام دے رہاہے ، اس کے لئے یہ سب فرداًفرداً آفرین ومرحباکے مستحق ہیں۔ واقعات گواہ ہیں کہ انہوں نے بسااوقات جان بلب مریضوں کو بچانے میں اپنی جان جو کھم میں ڈالنے سے بھی گریز نہ کیا۔یوں ہر حال میں اپنے پیشے کاتقدس قائم ودائم رکھنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ آج بھی ہم امراض قلب کے مشہورومعروف معالج ڈاکٹر عبدالاحد گور و، ڈاکٹرفاروق عشائی اور ڈاکٹر جلال جیسی عظیم طبی شخصیات کی بے دردانہ ہلاکتوں پر انگشت بدنداں ہیں ۔ اس ٹھوس حقیقت کے بین بین یہ بھی ایک المیہ ہے کہ اکثر سرکاری شفاخانوں کے بارے میںزیادہ سے زیادہ مریض اور تیمار دار عدم اطمینان کا اظہارکر تے پھرتے ہیں۔ کوئی ان طبی مراکزمیں مریضوں کے تئیںبے مروتی کی داستان سرائی کرتاہے، کسی کو ان میں بدنظمی اور فرض ناشناسی کی بدبو آتی ہے، کوئی شفاخانوں میں جدید طبی سہولیات کے فقدان کارونا روتاہے ، کوئی صحت وصفائی کی ناگفتہ بہ صورت حال پر انہیں ذبح خانہ کہتاہے۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ ان عوامی شکایات کو نظرانداز کر نے کا مطلب یہ ہو گاکہ یاتو متعلقہ حکام ندائے خلق کو اہمیت نہیں دیتے ،یا وہ سرکاری شفاخانوں میں سدھار لانے سے قاصر ہیں ،یا خود شفاخانوں کی علالت سے ان کے نجی مفادات وابستہ ہیں۔ یہ مسئلہ اتنا گھمبیر ہے کہ ’’مرض بڑھتاگیا جوں جوں دوا کی‘‘ کے مصداق اب ان شفاخانوں سے لوگ بددل بھی ہیںاورمایوس بھی۔ ابھی چند سال قبل کی بات ہے کہ جی بی پنت چلڈرن ہسپتال سری نگر میں ننھے منے بچو ں کی پے دَرپے افسو س نا ک اموات کا سارا بھا نڈا سر راہ پھوڑا گیا تو پتہ چلا کہ سرکاری شفا خا نوں میں کوئی ایک گندی مچھلی بھی سارے تالاب کو گندا کر نے کاکمال دکھاسکتی ہے۔ ایک عام تاثر یہ ہے کہ وادی کے شفا خا نو ں میں ما ہر ین ِامرا ض آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں، اس پر ستم یہ کہ ان میں طبی جانچ کرنے والی مشینیں اکثر دانستہ طورناکارہ بنادی جاتی ہیں تاکہ مریض پرائیوٹ لیبارٹیوں کارُخ کریں۔ نقلی ادویات کا چلن، دفتری اوقات میں پرائیوٹ پر یکٹس اور ناقص وغیر معیاری ادویات کے اسکنڈلز بار بار منظر عام پر آ تے رہتے ہیں۔ ہیلتھ کئیر سیکٹر کے یہ رسوائے زمانہ امراض اگر عام آدمی کو اپنے منہ پر زوردارطما نچہ لگیں تو بات قابل فہم بنتی ہے۔ شعبہ ٔ طب میں ان امراض کے تواتر سے انتظامیہ کو یہ پیغام صاف لفظوں میں ملنا چاہیے کہ ہیلتھ کئیر سسٹم کوجنگی بنیادوں پردْرست کر نا وقت کی نا قا بل التواء ضرورت ہے۔ ان ہسپتالوں کے ارباب اقتدار کے بارے میں عام الزام یہ ہے کہ ان کے یہاں مریضوں سے سرے سے ہمدردی پائی نہیںجاتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا نزلہ تیمار دار بارہا ڈاکٹروں پر اْتار کر اخلاق اور قانون کی دھجیاں اْڑانے سے بھی پس وپیش نہیں کر تے۔ اس سے محسوس ہوتاہے گویا مریض اور طبیب آپس میں رقیب بنے ہوئے ہیں۔ اس وجہ سے کبھی کبھی شفاخانوں کے اندر غنڈہ گردی کے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں جنہیں روکنے کے لئے طبی اورنیم طبی عملے کا اپنے تحفظ کے لئے سیکورٹی طلب کر نا کو ئی بلا جواز مانگ نہیں۔ یہ نہ صرف عدل وانصاف کا تقاضا ہے بلکہ شفاخانوں میں حسن ِانتظام کا سرشتہ بھی اس صورت میں صحیح ڈگر پر لا ناممکن ہوگا۔ اصلاح احوال کے لئے ضروری ہے کہ سر کاری طبی ادارو ں میں پنپ رہیں اْن ساری نحوستو ں کا یکسر قلع قمع ہو ۔ ا س ضمن میں اولین قدم یہ ہے کہ شفاخانوں کو جدید سے جدید تر طبی سہو لیات اور مشنریو ں سے لیس کیا جا ئے ، د وم سرکاری طبی مرا کز میں ڈاکٹرو ں اور نیم طبی عملے کی قلت کو ترجیحی بنیادوں پر دور کیا جا ئے، سوم شفاخانوں کی کارکردگی بہتر بنا نے کے واسطے مانیٹر نگ کا مو ثر اور دیانت دارانہ نظام وضع کیا جائے،چہارم سر کا ری شفا خا نو ں میں مریض دوستا نہ کلچر کو متعارف کرایا جا ئے، پنجم جو ڈاکٹر صاحبا ن اپنے مقدس پیشے سے صدق دلا نہ وفا کر تے ہیں، اْن کی عزت افزائی کھلے دل سے کی جا ئے، ششم ڈاکٹروں اور پر امیڈیکل سٹاف میں مریضوں کے تئیں پیار کا میٹھااحسا س دل و جان سے جگا نے کی اصلاحی مہم چلائی جائے، ہفتم تیمارداروں کو تہذ یب سے آشنا کر یا جائے، ہشتم ڈاکٹروں اور پرا میڈیکل سٹاف کے عزتِ نفس کا خاص خیال رکھا جائے۔ یہاںیہ بات بھی واضح رہے کہ جب یہ تمام سرکاری ادارو ں کا رونا ہے کہ ان میںورک کلچر کا فقدان ہے ، سیاسی مداخلتیں ہیں اورعدم جوابدہی کا روگ ہے، اس پر مستزاد یہ کہ بعض لوگ شفاخانے میں داخل ہوتے ہی شعوراور صبر وبرداشت کادامن بھی چھوڑجاتے ہیں، تو یہ مسائل پیدا ہونا قدرتی امر ہے۔ عام مشا ہدہ یہ بھی ہے کہ ایک بیما ر کے پیچھے جب تک درجن بھر تیماردار ہسپتال کا رْخ نہ کر یں، اْس وقت تک ان کو تسلی ہی نہیں ہو تی۔ اس سے اسپتالوں میں خوا ہ مخو اہ میلے ٹھیلے کا جیسا رَش ہو نالازم وملزوم ہے۔ نتیجہ یہ کہ بھیڑ بھا ڑ جمع ہونے سے علاج و معالجے میں غیر ضروری رکاوٹیں پیدا ہو تی رہتی ہیں۔ اصل یہ ہے کہ دور دیہا ت کے اکثر لو گ اپنی مخصوص نفسیا ت کے زیراثر ہر معمولی عارضے کے علاج کے لئے نزدیکی شفا خا نہ چھوڑ کر مریض کو بڑے ہسپتا لو ں میں لازماً پہنچا دیتے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں یہ بات ثقہ طور بیٹھی ہو تی ہے کہ بیما ر بڑے شفا خا نے میں ہی تندرست ہو سکتا ہے ،حا لانکہ ضلعی، تحصیل،بلاک اور مقامی ڈسپنسریو ں ، ہیلتھ سنٹروں میں بھی ان کے دوا دارو کی مطلوبہ سہو لیا ت دستیا ب ہو تی ہیں۔ اس وجہ سے اکثر بڑے ہسپتالوں پر مر یضو ں کا اڑ دھا م بڑ ھنے سے ’الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا‘ والا معاملہ بیماروں سے پیش آتا رہتا ہے۔ اس نفسیا ت کو بھی فوراً سے پیشتر بدلنے کی اشد ضرور ت ہے۔ اس ضمن میں محکمہ صحت کو ایک منظم پبلسٹی مہم چلانی چا ہیے اوراگر ضرورت پڑے توقاعدے قانو ن بھی وضع کئے جا نے چاہیے تاکہ طبی نظام لوگوں کی غفلتوں سے خودبیمار نہ پڑے۔ مختصر اًیہ کہ اول شفا خانوں کے اند ر اور باہر جو بھی مسائل مریضو ں ، تیمار دارو ں اور طبی ونیم طبی اسٹاف کو مشترکہ طور در پیش ہیں ،ان کا ایسا تیر بہدف حل ڈھونڈ نکالا جائے تا کہ ہر شہری کے لئے صحت مند زندگی کی مشعل فروزاں رہے۔