یہ ایک ناقابل ِتردید حقیقت ہے کہ نوےسے تا دم ِ تحریر سرکاری ہسپتالوں میں تعینات طبی اور نیم طبی عملہ نے ہمیشہ جس جانفشانی ، مریض دوستی اور فرض شناسی سے ا پنی خدمات پیش کیں ، اس کے لئے یہ حضرات اجرو ثواب اور آفرین ومرحباکے مستحق ہیں ۔انہوں نے بسااوقات نا گفتہ بہ اور ہنگامی حالات کے متاثرین کو بچانے میں اپنی جان جو کھم میں ڈالنے سے بھی گریز نہ کیا اور اپنے پیشے کاتقدس قائم ودائم رکھنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر کا شاید ہی کوئی باشعور و انسان دوست شخص ہوگا جس نے مشہورومعروف ڈاکٹر عبدالاحد گور و، ڈاکٹرفاروق عشائی اور ڈاکٹر جلال وغیرہ جیسی عظیم طبی شخصیات کی بے دردانہ ہلاکتوں پر خون کے آنسو نہ بہائے ہوں۔ بہرصورت اس حقیقت کے بین بین یہ بھی ایک المیہ ہے کہ اب ہمارے یہاں اکثر سرکاری شفاخانوں کے بارے میںخال خال ہی کوئی مریض اور تیمار داراطمینان کا اظہار کرتا ہے اور اکثر لوگ شکایتیں کر تے ہیں ۔ کوئی ان طبی مراکزمیں مریضوں کے تئیںبے مروتی کی داستان سرائی کرتاہے، کسی کو بدنظمی اور فرض ناشناسی کی بدبو آتی ہے، کوئی جدید طبی سہولیات کے فقدان کارونا روتاہے ، کوئی صحت وصفائی کی ناگفتہ بہ صورت حال پر انہیں ذبح خانہ کہتاہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ ان عوامی شکایات کو نظرانداز کر نے کا مطلب یہ ہو گاکہ یاتو متعلقہ حکام ندائے خلق کو اہمیت نہیں دیتے ،یا وہ سرکاری شفاخانوں میں سدھار لانے سے قاصر ہیں ،یا خود شفاخانوں کی علالت سے ان کے نجی مفادات کی آبیاری ہوتی ہے ۔ یہ مسئلہ اتنا گھمبیر ہے کہ ’مرض بڑھتاگیا جوں جوں دوا کی‘ کے مصداق اب ان شفاخانوں کا خدا ہی حافظ ہے۔ ابھی چند سال قبل کی بات ہے کہ جی بی پنت چلڈرن ہسپتال سری نگر میں ننھے منے بچو ں کی پے دَرپے افسو س نا ک اموات کا سارا بھا نڈا سر راہ پھوڑا گیا تو پتہ چلا کہ سرکاری شفا خا نوں کی اصل رام کہا نی کیا ہے ۔ اب بھی کو ئی دن ایسا نہیں گزرتا جب شفاخانوں کو لاحق بیماریو ں کا کو ئی نہ کو ئی سر بستہ راز منظر عام پر نہ آ تا ہو ، حالانکہ آج بھی زیادہ تر ڈاکٹراور نیم طبی عملہ فرض شناس ہیں مگر کیا کیا جائے ایک گندی مچھلی سارے تالاب کو گندا کر کے چھوڑتی ہے ۔ یہ بھی ایک عام تاثر ہے کہ وادی کے شفا خا نو ں میں ما ہر ین ِامرا ض آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں، اس پر ستم یہ کہ ان میں طبی جانچ کرنے والی مشینیں اکثرناکارہ بنادی جاتی ہیں تاکہ مریض پرائیوٹ لیبارٹیوں کارُخ کریں ۔ نقلی ادویات کا چلن، دفتری اوقات میں پرائیوٹ پر یکٹس اور ناقص وغیر معیاری ادویات کے اسکنڈلز بار بار منظر عام پر آرہے ہیں ۔ ہیلتھ سیکٹر کے یہ رسوائے زمانہ امراض عام آ دمی کے لئے بجاطور اپنے منہ پر زوردارطما نچہ ہیں ۔ ان سے یہ پیغام صاف الفاظ میں عوام میں جاتا رہا ہے کہ سر کاری ہسپتال عملاً غریب مریضوں کے واسطے ’’ہا تھی کے دانت کھا نے کے اور دکھا نے کے اور ‘‘کے مصداق ہیں۔ مختصر اً وادی ٔ کشمیر کا ہیلتھ کئیر سسٹم چوپٹ ہونے کے دہانے پرکھڑاہے۔ اس سسٹم کو جنگی بنیادوں پردُرست کر نا وقت کی نا قا بل التواء ضرورت ہے۔ سرکا ری اسپتالوں کے بارے میں یہ شکایت زیادہ گشت میں ہے کہ یہاں مریضوں سے سرے سے ہمدردی ہی نہیںہوتی ۔ چنانچہ بسا اوقات اربابِ اقتدار کی ان غفلت شعاریوں کا نزلہ تیمار دار ڈاکٹروں پر اُتار کر اخلاق اور قانون کی دھجیاں اُڑانے سے بھی پس وپیش نہیں کر تے، جس سے مترشح ہوتاہے کہ مریض اور طبیب آپس میں رقیب بنے ہوئے ہیں ۔ اس عام شکایت کے تناظر میں شفاخانوں کے اندر غنڈہ گردی کو روکنے کے لئے طبی ونیم طبی عملے کا اپنے لئے سیکورٹی طلب کر نا کو ئی بلا جواز مانگ نہیں ۔ یہ نہ صرف عدل وانصاف کا تقاضا ہے بلکہ شفاخانوں میں حسن ِانتظام کا سرشتہ بھی اس صورت میں صحیح ڈگر پر آ ناممکن ہے۔ اصلاح احوال کے لئے ضروری ہے کہ سر کاری طبی ادارو ں میں پنپ رہیںاُن ساری نحوستو ں کا یکسر قلع قمع ہو جنہو ں نے برسوں سے ہیلتھ کیٔر کے سارے نظام کوبگاڑا ہے ۔ ا س ضمن میں اولین قدم یہ ہے کہ شفاخانوں کو جدید سے جدید تر طبی سہو لیات اور مشنریو ں سے لیس کیا جا ئے ، د وم سرکاری طبی مرا کز میں ڈاکٹرو ں اور نیم طبی عملے کی قلت کو دور کیا جا ئے، سوم شفاخانوں کی کارکردگی بہتر بنا نے کے واسطے مانیٹر نگ کا مو ثر اور دیانتدارانہ نظام وضع کیا جائے،چہارم سر کا ری شفا خا نو ں میں مریض دوستا نہ کلچر کو متعارف کرایا جا ئے، پنجم جو ڈاکٹر صاحبا ن اپنے پیشے سے صدق دلا نہ وفا کر تے ہیں، اُن کی عز ت افزائی کھلے دل سے کی جا ئے، ششم ڈاکٹروں کو اپنے پیشے کے تقدس اور مریضوں سے پیار کا میٹھااحسا س دل وجان میں جاگزیں کر انے کی اصلاحی مہم چلائی جائے، ہفتم تیمارداروں کو تہذ یب سے آشنا کر یا جائے، ہشتم ڈاکٹروں اور پرا میڈیکل سٹاف کو طبی مراکز میں احسا س ِتحفظ دلایا جائے۔ یہ بات بھی کسی المیے سے کم نہیں کہ نام بڑے درشن چھو ٹے کے مصداق سرکاری ہسپتا لو ں میں اکثر بیما رو ں اور تیمارداروں کو قدم قدم پر بلا وجہ اتنے سارے ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں کہ بیان سے باہر ہیں۔ یہ محض شفاخانوں کی بات نہیں بلکہ تمام سرکاری ادارو ں کا رونا ہے کہ ا ن میںورک کلچر کا فقدان ہے ، سیاسی مداخلتیں ہیں اورعدم جوابدہی کا روگ ہے، اس پر مستزاد یہ کہ بعض لو گ شفاخانے میں داخل ہوتے ہی شعوراور صبر وبرداشت کادامن بھی چھوڑجاتے ہیں۔ عام مشا ہدہ یہ بھی ہے کہ ایک بیما ر کے پیچھے جب تک درجن بھر تیماردار کسی ہسپتال کا رُخ نہ کر یں، اُس وقت تک ان کو تسلی نہیں ہو تی۔ اس انوکھے طرز عمل سے اسپتالوں میں خوا ہ مخو اہ میلے ٹھیلے کا جیسا رش جمع ہو نا قدرتی بات ہے۔ نتیجہ یہ کہ بھیڑ بھا ڑ سے علاج و معالجے میں غیر ضروری رکاوٹیں پیدا ہو تی رہتی ہیں۔ اس سلسلے میں توجہ طلب ہے کہ دور دیہا ت کے اکثر لو گو ں میںیہ نفسیا تی مسئلہ پایا جاتا ہے کہ وہ معمولی عارضے کے لئے بھی اپنے نزدیکی شفا خا نے کو نظر انداز کر کے مریض کو بڑے ہسپتا لو ں میں لا زماً پہنچا دیتے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں یہ بات ثقہ طور بیٹھی ہو تی ہے کہ بیما ر بڑے شفا خا نے میں ہی تندرست ہو سکتا ہے ،حا لانکہ ضلعی، تحصیل،بلاک اور مقامی ڈسپنسریو ں ، ہیلتھ سنٹروں میں بھی ان کے دوا دارو کی مطلوبہ سہو لیا ت دستیا ب ہو تی ہیں۔ اس وجہ سے اکثر بڑے ہسپتالوں پر مر یضو ں کا اژ دھا م بڑ ھنے سے ’الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا‘ والا معاملہ بیماروں سے پیش آ تا رہتا ہے۔ اس نفسیا ت کو فوراً سے پیشتر بدلنے کی اشد ضرور ت ہے ۔ اس ضمن میں محکمہ صحت کو ایک منظم پبلسٹی مہم چلانی چا ہیے اوراگر ضرورت پڑے تو قاعدے قانو ن بھی وضع کر نے چاہیے۔ مختصر اًیہ کہ اول شفا خانوں کے اند ر اور باہر جو بھی مسا ئل مریضو ں ، تیمار دارو ں اور طبی ونیم طبی اسٹاف کو مشترکہ طور در پیش رہتے ہیں ،ان کا ایسا تیر بہدف حل ڈھونڈ نکالا جائے تا کہ ہر شہری کے لئے صحت مند زندگی کی مشعل فروزاں رہے، دوم میڈیکل انسٹی چیوٹ صورہ کے نظم ونسق کا اصل کریکٹر محفوظ رکھاجائے۔