فارسی اور اردو میں شعر و شاعری سے متعلق ، عموماًً عربی روایات و نظریات کی ہی پیروی ہوتی رہی۔لیکن ماحول ، معاشرہاور عصری تقاضوں کے تحت نظریہ شعر میں ترمیم و اضافے بھی کئے گئے ۔ ایک عرصہ تک یہ مانا جاتارہا تھا کہ فارسی میںایران کی آخری درباری زبان ’’پہلوی ‘‘سے قبل ’شعر‘ کا وجود نہیں تھا لیکن عصر حاضر کے مستشرق ثابت کر رہے ہیں کہ قدیم فارسی ،یعنی ’گاتھا‘،اوستا،ژندکی وغیرہ زبانوں میں شعر کے نمونے موجود تھے ۔ اس لئے یہ مفروضہ درست نہیں کہ پہلوی (فارسی )زبان میں ’شعر ‘عرب اور عربی زبان کے اختلاط کے بعد پیدا ہوا ۔بہر حال فارسی میں شاعری کے آغاز و ارتقاکی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں البتہ اتنا اشارہ ضروری ہے کہ فارسی میں نظامی عروضی سمرقندی (چہار مقالہ ۔۵۲۔۵۵۱ھ)رشید الدین وطواط (حدائق السحر فی دقائق الشعر(۶۸۔۵۵۱ھ)امیر عنصر المعالی کیکاوس بن اسکندر (قابوس نامہ ۔۵۷۴ھ) ابن خلدون (مقدمہ۔ ۷۳۲۔۸۰۸ھ) اور شمس الدین محمد بن قیس ا لرازی ( المعجم فی معاییراشعار العجم)وغیرہ کے مطابق شعر کا دار و مدار مذاق سلیم اور اعلی تخلیقی و اظہاری صلاحیت پر ہوتاہے۔فقط لفظی صنعت گری یا عروضی مہارت سے شعر وجود میں نہیں آتا ۔ وہی شعر عمدہ کہلانے کا مستحق ہوگا جو معانی کے حسن و تاثیر میں اضافہ کا باعث ہو ۔ کیکائوس نے ’قابوس نامہ‘ میںشعر کی خصوصیات پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے لکھا ہے۔
’’اچھا شعر ،سادگی و دقت پسندی ،تصنع و بے تکلفی ،لطافت اور صناعت کا ایسا مرکب ہوتاہے جس میں ایک جُز کے گھٹ بڑھ جانے سے تاثیر میں فرق پیدا ہو سکتا ہے ۔‘‘
اردو میں نجم الغنی نے بھی’’بحر الفصاحت‘‘میں ’شعر سے متعلق قدامہ کی تعریف میں مقررہ اوزان کا اضافہ کرتے ہوئے لکھا ہے ،’’شعر ؛ اصطلاح میں اس کلام موزوں کا نام ہے جو اوزان مقررہ میں سے کسی وزن پر ہواور مقفی ہو اور بالقصد موزوں کیا گیا ہو ‘ ‘ (ص۔۵۰) ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ عربی اور فارسی کی طرح اردو میں بھی آج کی طرح ’شعر ‘کا تعلق ذوق سلیم اور تہذیب طبع سے تھا شعر کہنے اور سننے یا پڑھنے والا ہی بہتر جانتا تھا کہ ’شعر‘ کیا ہے؟ لیکن شاعری کی کوئی باضابطہ گرامر ، اصول و ضوابط نہ تھے اس لئے ایک عرصہ تک شعر کی کوئی واضح اور سب کے لئے قابل قبول تعریف سامنے نہیں آسکی ۔پھر جب ،انسانی ذہن،ذوق اور زمانہ کے تغیرات کے ساتھ ،شعر بھی تجزیہ و تحلیل ،افہام و تفہیم اور انکار و تسلیم کے مرحلوں سے گذرنے لگاتو یہ کہا جانے لگا کہ ’’وہ موزوں و مقفی کلام جس میں جذبات کا اظہار زبان و بیان کی حسن آفرینی کے ساتھ کیاگیا ہو عمدہ ’شعر ‘ہے۔اس سے آگے کی منزل میں ،شعر کے اعلی و عمدہ ہونے کی شرط ، تازہ کار موضوع و معنی کی ایجاد و اختراع قرار دی جانے لگی گرچہ یہ روش فارسی کے راستے سے اردو تک پہنچی لیکن اس میں شک نہیں کہ حالی ہوں کہ شبلی،مولوی عبد الرحمن ہوں کہ کلیم الدین احمد ،شمس الرحمن فاروقی ہوں کہ گوپی چند نارنگ سب نے اپنے اپنے زاوئے سے موزونیت کے ساتھ ساتھ معنی آفرینی ،جدت خیال،فطرت انسانی سے مطابقت، استقامت طبع، استعارہ سازی، تمثیل نگاری ، نکتہ رسی،بذلہ سنجی شوخئی و ظرافت، ندرت و جدت اسلوب ،نزاکت خیال ، طرفگئی بیان وغیرہ کو شعر کا معیار و میزان قرار دیا ہے۔یہی ساری خصوصیات شعر و شاعری کی گرامر کے نقطے اور دائرے ہیںاور ہر جینوین شاعر اپنی اپنی افتاد طبع، عصری صورت حال اور تخلیقی و اظہاری رویوں کے مطابق،ان ہی میں سے چند ایک یا اکثر کو اپنی شاعری میں برتتا ہے ۔ لہذا آج اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے حالات کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ، ’’شعر ؛ وہ مہذب ،بامعنی اور موزوں’کلا م‘ ہے ،جسے انسانی فطرت اور صناعتوں کے ساتھ پیش کیا گیا جائے ۔ شعر ، موضوعی و ہئیتی آزادی کے ساتھ بالا رادہ بھی ہو سکتا ہے اور بے ارادہ بھی مقفی بھی اور غیر مقفی بھی ۔ لیکن شرط یہ ہے کہ شعر میں عصری حالات، تخلیقی اور اظہاری رویوںکے مطابق،ساحری یالطف اندوزی کے ساتھ ساتھ حکمت یا بصیرت مندی کے عناصر کو بھی کمال فنی و جمالیاتی درو بست کے ساتھ برتا جائے ۔‘‘
( ختم شد )