سرینگر // ریاست میں آنے والے یاتریوں کے ساتھ ساتھ مقامی و غیر مقامی سیاحوں میں بتدریج کمی واقع ہورہی ہے ۔ریاست دنیا کی سب سے اعلیٰ سیاحتی آماجگاہ مانی جاتی تھی وہیں اس کے متعلق منفی پروپیگنڈا پھیلانے کے باعث گزشتہ کچھ برسوں سے یہ شعبہ بھی زوال پذیر ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ریاست کے جموں اور کشمیر خطہ میں یاتریوں کے ساتھ ساتھ مقامی اور غیر مقامی سیاحوں کی تعداد میں پچھلے 5برسوں سے لگاتار گراوٹ ہوئی ہے ۔وہیں خطہ لداخ میں 2017میں اکتوبر کے مہینے تک سیاحوں کی تعداد میں اضافہ ہواہے ۔ریاست کی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی مانا جانے والا یہ شعبہ حالات کی وجہ سے دم توڑ تاجارہاہے اور اس کے ساتھ ہی اس حوالے سے منفی پروپیگنڈا پھیلایاجارہاہے جس سے بیرون ریاست کے سیاحتوں میں خوف و دہشت پھیل رہی ہے ۔ اس شعبے سے منسلک ہوٹل مالکان ، شکارہ مالکان ، ٹرانسپوٹر اور دیگر لوگ بری طرح سے متاثر ہوئے ہیں ۔ریاستی محکمہ سیاحت نے سیاحوں کو وادی راغب کرنے کیلئے ہر ممکن کوششیں کیںاورمحکمہ کی کئی ایک ٹیمیں بیرون ریاست کے سیاحوں کو یہاں لانے کی کوشش میں مصروف ہیں اور اُن کیلئے ہرطرح کی سہولیات بھی بہم رکھی گئی ہیںلیکن اس کے باوجودیاتریوں ،مقامی وغیر مقامی سیاحوں کی تعداد میں پچھلے 5برسوں میں کمی رونما ہوئی ہے ۔اعدادوشمار کے مطابق جہاں سال2012میں ریاست آنے والے سیاحوں کی کل تعداد 1 کروڑ 25لاکھ 2ہزار 515 تھی وہیں یہ تعداد سال2013میں گھٹ کر 1کروڑ95ہزار620تک رہ گئی۔ اسی طرح سال2014میں 95لاکھ 25ہزار21اور سال2015میں 92لاکھ 3ہزار6سو91 رہ گئی۔ اسی طرح سال2016میں یہ تعداد گھٹ کر 84لاکھ 34ہزار402 تھی جبکہ سال2017میں اکتوبر کے مہینے تک یہ تعداد گھٹ کر 73لاکھ 9ہزار285رہ گئی ۔امرناتھ جی یاترا کیلئے کشمیر آنے والے یاتریوں کی تعداد کے متعلق ریاستی سرکار نے اقتصادی سروے رپورٹ میں عداد وشمار پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ سال2012میں یاتریوں کی تعداد 6لاکھ 21ہزار تھی وہیں سال2013میں یہ تعداد گھٹ کر 3لاکھ 53ہزار9سو 69رہ گئی۔2014میں یہ تعداد اگرچہ بڑھ کر 3لاکھ 72ہزار 909پہنچی وہیں سال2015میںیہ تعداد گر کر3لاکھ 52ہزار7 71رہ گئی ۔اعدادوشمار کے مطابق 2016میں نامساعد حالات کی وجہ سے یاتریوں کی تعداد گھٹ کر 2لاکھ 20ہزار 4سو 90رہ گئی اور اس کا اگر تناسب نکالا جائے تو سال2015کے مقابلے میں سال2016میں 62.5فیصد کی کمی یاترا میں واقع ہوئی ہے جبکہ 2017میں اس میں قدر بہتری آئی اور 2لاکھ 60ہزار 3یاتری اس ماہ کے دوران وادی آئے اور سال2016کے مقابلے میں سال2017میں تقریباًً 40ہزار اضافی یاتریوں نے یاترا کی ہے ۔جموں میں ماتا ویشنو دیوی جی کی یاترا کیلئے بھی سیاحوں کی آمد میں لگاتار گراوٹ دیکھنے کو ملی ہے۔ سال2012میں یہ تعداد1کروڑ 3لاکھ 94ہزار تھی وہیں 2013میں یہ تعداد گھٹ کر 92لاکھ 87ہزار 871تک رہ گئی۔ سال2014میں یہ تعداد 78لاکھ 3ہزار 193پہنچی وہیں سال2015میں یہ تعداد 77لاکھ 76ہزار 6سو 4رہ گئی ۔سال 2016کے نامساعد حالات کی وجہ سے یہ تعداد 68لاکھ 23ہزار 5سو 40تک آپہنچی جبکہ سال2017میں اکتوبر کے مہینے تک یہ تعداد صرف 57لاکھ 39ہزار 6سو 32تک رہ گئی ۔ریاست کے کشمیر خطہ میں مقامی اور غیر ملکی سیاحوں میں بھی مسلسل گراوٹ دیکھنے کو ملی ہے ۔سال2012میں 13لاکھ 8ہزار 765تھی، سال2013میں یہ تعداد گھٹ کر 11لاکھ 71ہزار 130رہ گئی اور سال2014میں 11لاکھ 67ہزار618۔وہیں 2015میںگر کر 9لاکھ 27ہزار 815تک آپہنچی ۔بتایا جاتا ہے کہ کشمیر میں برہان والی کی موت سے قبل ریاست سال2016میں سیاحتی شعبہ اپنے جوبن پر تھا اور اس دوران وادی میں سیاحتی کی ایک بڑی تعداد یعنی 12لاکھ 11ہزار230 آپہنچی تھی تاہم 2017میں اکتوبر کے مہینے تک یہ تعداد پھر سے گر کر 10لاکھ 50ہزار 4سو 80رہ گئی ۔لداخ خطے میں ملکی وغہر ملکی سیاحوں کی تعداد میں قدر اضافہ دیکھنے کو ملا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جہاں سال2012میں سیاحوں کی تعداد 1لاکھ 78ہزار 750تھی وہیں یہ مسلسل بڑھ کر 2017میں 2لاکھ 59ہزار170پہنچی ۔