اشفاق سعید
پچھلے کئی برسوں کے تجربہ سے یہ بات سامنے آرہی ہے کہ سرحدی اور دور افتادہ علاقوں میں تب تک طبی نظام میں کوئی سدھار نہیں آسکتاجب تک نہ سرکار ملازمین کی تعیناتیوں کیلئے کوئی ٹھوس پالیسی ترتیب نہیں دی جاتی ۔ ہونا تویہ چاہئے تھا کہ ہر وہ ملازم ،جسے سرحدی علاقوں میں تعینات کیا جاتا، اُن کیلئے دو برس کا وقت مقرر کیا جاتاکہ وہ دو برس بعد ہی دوسری جگہ تعینات ہو تا جس سے محکمہ صحت کا نظام بھی بہتر ڈھنگ سے چل پاتا اور ملازمین بھی خوشی خوشی ان علاقوں میں اپنی خدمات انجام دیتے تاہم ایسا نہ ہوسکا ۔ ہم لگاتار سرحدی علاقوں میں طبی اور نیم طبی عملے کی کمی پر خبریں اور مضامین لکھتے آرہے ہیں لیکن مسئلہ جوںکا توں ہے کیونکہ اس کی بنیادی وجہ سرکار کے پاس کسی ٹھوس پا لیسی کا نہ ہونا ہے۔
کیرن اور مژھل جیسے علاقوں میں حالت انتہائی خراب ہے کیونکہ وہاں مناسب اور ضرورت کے مطابق محکمہ صحت کے پاس ڈاکٹر اور نیم طبی عملہ ہی دستیاب نہیں ہے اور سرما میں ان علاقوں میں مکین لوگوں کی حالت انتہائی خراب ہو جاتی ہے جب برف باری میں راستہ بند ہونے کے سبب یہاں کے مریض ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر دم توڈ دیتے ہیں، جبکہ کرناہ میں اکثر کسی نہ کسی بڑے ڈاکٹر کی کمی کے باعث نظام صحت مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے۔حالیہ دنوں کی اگر بات کریں تو وہاں سے ایک بے ہوشی کے ڈاکٹر کی عدم دستیابی کے نتیجے میں ہسپتال کا پورا نظام تین ماہ تک ٹھپ رہا اور وہاں کی خواتین کو علاج ومعالجہ کیلئے کپوارہ اور سرینگر کے ہسپتالوں کا رخ کرنا پڑا جہاں انہیں ہزاروں روپے ایسے وقت میں علاج ومعالجہ کیلئے خرچ کرنا پڑے جب سرکار سرحدی اور دور افتادہ علاقوں میں بہتر طبی سہولیات کے دعویٰ کرتے تھکتی نہیں ہے۔
سرحدی علاقوں میں نہ ہی کوئی بچوں کا ڈاکٹر ہے ،نہ کوئی سرجن نہ فزیشن ملتا ہے ۔ سرکار نے صرف این ایچ ایم سکیم کے تحت کچھ عملے کو وہاں تعینات رکھا ہے جو برسوں سے یہ فریاد کر رہے ہیں کہ انہیں بھی وہاں سے تبدیل کردیا جائے ۔ایسا کیوں ہو رہا ہے اس کی بنیادی وجہ سرکاری پالیسی میں سقم ہے۔ایسے ملازمین کا کہنا ہے کہ وہ برسوں سے سرحدی علاقوں میں بنیادی سہولیات کے فقدان کے باوجود اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں،لیکن اب اُن کاپیمانہ ٔ صبر آہستہ آہستہ لبریزرہا ہے۔ایسے ملازمین کے مطابق اْن سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اْن کیلئے ٹرانسفر پالیسی ترتیب دی جائے گی، لیکن موجودہ انتظامیہ بھی اس سلسلے میں ملازمین کو سبز باغ ہی دکھا رہی ہے اور اْن کے تبالوں کیلئے کوئی پالیسی نہیں ہے۔معلوم رہے کہ گریز ، کرگل ، کیرن ،کرناہ، ڈوڈہ ، کشتواڑ ، ریاسی ، جموں ، پونچھ ،راجوری ، مڑواہ ، دچھن جیسے سرحدی و دورافتادہ علاقوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں اور دیگر پیرا میڈیکل سٹاف کی تعیناتی اس لئے عمل میں لائی گئی تھی تاکہ ان علاقوں میں طبی نظام بہتر ہو سکے۔ اگرچہ کسی حد تک طبی نظام بہتر ہوا لیکن ملازمین کی پریشانیوں میں اضافہ دن بہ دن دیکھنے کو مل رہا ہے۔
پہلے سرحدی علاقوں میں تعیناتی کے دوران ملازمین کو خصوصی مراعات فراہم کی جاتی تھی ،لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر ایک تو یہ مراعات بند کر دی گئیں اور ساتھ میں اْن کے تبادلے بھی عمل میں نہیں لائے گئے۔پالیسی بنانے کیلئے حکام نے 2 بار کمیٹیاں بھی تشکیل دیں لیکن اْن کی جانب سے بھی کوئی حل نہیں نکالا گیا۔ سرکار نے این ایچ ایم سکیم کے تحت تعینات ملازمین کی ٹرانسفر پالیسی کیلئے ایک 6رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی ۔سرکار نے کہا تھا کہ این ایچ ایم کے تحت کام کرنے والے ملازمین گذشتہ کئی برسوں سے یہ مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ ان کے تبادے عمل میں لائے جائیں۔سرکار نے یہ تجویزپیش کی تھی ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی انتظامی سیکرٹری برائے صحت وطبی تعلیم محکمہ کے تحت تشکیل دی جا سکتی ہے جس کے بعد مشن ڈائریکٹر کی سربراہی میں ایک ٹیم بھی تشکیل دی گئی تاہم اس کمیٹی نے کوئی بھی رپورٹ سرکار کو پیش نہیں کی ۔
صرف اتنا ہی نہیں بلکہ نیشنل ہیلتھ مشن( این ایچ ایم ) کے تحت تعینات طبی ونیم طبی عملے کیلئے کوئی ٹرانسفر پالیسی نہ ہونے کے باوجود بھی کئی ایک ملازمین کی تعیناتیاں بڑے سرکاری دفاترسے قوائد ضوابط کی دھجیاں اڑا کر سازباز اورسیاسی اثر رسوخ کی بنیادوں پر عمل میں لائی گئی ہیں اور ایسی تعیناتیاں عمل میں لانے سے نیشنل ہیلتھ میشن کا مقصد ہی فوت ہو رہا ہے ۔ جن ہزاروں ملازمین کی کوئی اپروچ نہیں ہے وہ برسوں سے ایک ہی جگہ اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں اور سرکار انہیں یہ کہہ کر ٹال رہی ہے کہ ان کیلئے کوئی بھی ٹرانسفر پالیسی ہی نہیں ہے۔
کرناہ کے کئی ایک ڈاکٹروں نے سرکار کی اس پالیسی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنے استعفے پیش کئے ۔کرناہ کا ایک ماہر امراض خواتین ڈاکٹر پرویز 26برس تک وہاں اپنی خدمات انجام دیتا رہا اور جب اس کا تبادلہ عمل میں نہیں لایا گیا تو اس نے خود سوزی کرنے کی دھمکی دی جبکہ کئی ایک ملازمین نے ذہنی طور پریشان ہو کر خود کو تکلیف پہنچانے کیلئے زہریلی ادویات کا استعمال کیا ۔یہی نہیں بلکہ ڈاکٹر یوسف ، ڈاکٹر نذیر اور ڈاکٹر شفیق نے وہاں کام کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنے استعفے سرکار کو پیش کر دئے جس سے یہ عیاں ہوجاتا ہے کہ ٹرانسفر پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے ایسے ملازمین اب ذہنی الجھنوں کے شکار ہوچکے ہیں۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سرکار سرحدی اور دور افتادہ علاقوں میں تعینات این ایچ ایم ملازمین کیلئے ایک ایسی پالیسی تشکیل دیتی جس کے تحت یہ ملازمین وہاں 2برس تک ہی ڈیوٹیاں دیتے۔ اس طرح وہاں کا نظام بھی بہترہوتااور انہیں بھی وہاں سبکدوشی تک پھنسے رہنے کا ڈربھی نہ ستاتا اور یوں پورا سسٹم بحسن خوبی چلتالیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوا اور یوں پورا نظام ہی دیہی و سرحدی علاقوں میں
عملی طور مفلوج ہے کیونکہ وہاں تعینات این ایچ ایم عملہ بتدریج کم ہوتا چلا جارہا ہے اور جو رہا سہا عملہ بھی ہے ،اس کی ذہنی حالت اس حد بگڑ چکی ہے کہ وہ نفسیاتی مریض بننے لگے ہیں۔جب وہ نفسیاتی طور خود ٹھیک نہ ہوں تو وہ مریضوںکا کیا علاج کرپائیں گے ،سمجھ سے بالاتر نہیں ہے ۔اس لئے ابھی بھی وقت ہے کہ سرکار کو اس سنگین مسئلہ کا کوئی حل نکالنا چاہئے تاکہ دوردراز اور سرحدی علاقوں میں طبی نگہداشت کا شعبہ عوام کی امیدوںپر کھرا اتر سکے۔