گندو// ریاستی و مرکزی سرکار آئے روز شعبہ تعلیم کی احیائے نو اور تجدید کاری کے لمبے چوڑے وعدے کرتی رہتی ہے ، بنیادی سہولیات کی فراہمی ڈھانچے کی تعمیر ، کھیل کود کیلئے میدان اور لائبریری و لیبارٹری کے علاوہ پینے کے پانی اور بیت الخلاء کی تعمیر کے لئے لمبی چوڑی اسکیمیں متعارف کی جاتی ہیں لیکن اگر جموں کشمیر بالخصوص خطہ چناب کے بالائی اور دور دراز علاقہ جات پر نظر ڈالی جائے تو یہ سارے دعوئے سراب اور اسکیمیں فلاپ نظر آتی ہیں۔ پہاڑی ضلع ڈوڈہ کی سب ضلع گندو بھلیسہ کے ایک گائوں چلی کے اسکول سے ان اسکولوں کی خستہ حالی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے جہاں زونل ایجوکشن افسر بھٹیاس چلی کے ایک اسکول میں معائنہ کر رہے ہیں اور اسکول کے بچے برلب سڑک بیٹھے کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جہاں پر چاروں طرف دھول اور گرد وغبار ہے ، مٹی پر ٹاٹ ڈالے ہوئے ان بچوں کو ماحولیاتی آلودگی، صحت و صفائی اور جدید طرز تعلیم کا سبق دینا کتنا آسان ہے اور حکومت کی طرف سے شعبہ تعلیم کی ترقی کے لئے اٹھائے جانے والے قدموں کے سرکاری دعوئے کہاں تک درست ہیں، اس بات کا از خود اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔یہ صرف اس ایک اسکول کی حالت نہیں ہے بلکہ گندو بھلیسہ کے ساتھ ساتھ ضلع ڈوڈہ کے درجنوں گائوں میں سرکاری اسکولوں کی حالت اس سے بھی بد تر ہے ،سرکاری اسکولوں میں انفراسڑ کچر تو و عمارت تو دور بات ہے درجنوں سرکاری اسکولوں میں قومی سطح پر استاد اور طلاب کے لئے طے شدہ 1:30کے تناسب کی دھجیاں اڑتی ہوئی دیکھی جا سکتی ہیں۔ان اسکولوں میں سینکڑوںطلبا ء کے لئے 2 یا3 استاد تعینات ہیں۔ ان سرکاری اسکولوں میںمناسب عمارت، کمپیوٹرلیب ،و کھیل کے میدان، کتب خانے اور پینے کا پانی و باتھ روم وغیرہ محض ایک سپنا ہے ۔