اس شہر کا چوک ۔ ۔ ۔ !
کبھی سبز ! کبھی زرد ! اب سرخ کہلاتا ہے۔
اب اس چوک میں ایک کلاک ٹاور بھی نصب کیا گیا ہے۔ جب چوک میں کلاک ٹاور نصب کیا گیا تھا ، اُس دن سے تنومند نوجوان ٹاور کے سامنے کھڑا ہوکر ۔ ۔ ۔
’’بڑا بننے کے لئے راستے کے بڑے پتھروں کو ہٹانا ہوگا ۔۔ پتھروں کو ہٹانے کے لئے اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کرو۔ تم لوگوں کے دل قربانی کے جذبے سے تب معمور ہوسکتے ہیں جب آنکھیں رکھتے ہوئے بھی اندھے بن جائو گے ۔ ۔ آئو میرے دوستو! ہم اندھوں کی طرح ایک ایسی منزل کی جانب روانہ ہوں جس کی نشاندہی کوئی بھی نہ کرسکے‘‘
اس شہر کے ارد گردجو پہاڑوں کا سلسلہ دراز تھا وہ برف سے ڈھکا رہتا تھا۔ لیکن جب کبھی ان پہاڑوں میں ہریالی ہوتی، وہاں کی ایک بلند چوٹی پر ادھیڑ عمر کا ایک شخص کھڑا ہوکر بلند آواز میں کہتا ۔ ۔ ۔
’’ میرے ہم وطنو ! میرے دوستو! ۔ ۔ یہ جو میرا جوتا ہے، یہ جو میری پتلون ہے، یہ جو میری قمیص ہے، یہ جو میری ٹائی ہے، یہ جو میرا کوٹ ہے ۔ ۔ یہ میرے آسودہ حال ہونے کی کہانی نہیں ہے بلکہ میرے ذہن سے اُترے ہوئے زنگ کی علامت ہے ۔ میرے عزیزو! اگر تمہیں اپنی مفلسی سے ، اپنی بے بسی سے نجات چاہیے تو پھر اپنے ذہنوں پر چڑھے ہوئے زنگ کو اُتارلو ۔ ۔ میرے مشاہدے سے فیض حاصل کرلو ۔ ۔ منزل حاصل کرنے کے لئے اپنے آپ میں جذبہ قربانی پیدا کرو ۔ ۔ ‘‘
پہاڑوں کے دامن میں وادی بھی تھی اور اس وادی میں ایک شاہی محل بھی تھا۔ شاہی محل کی آرام گاہ میں شہنشاہ خواب شیریں کے عالم میں تھے۔ شہنشاہ کے آرام گاہ کے دروازے پر وزیر اعظم خصوصی باریابی کے لئے انتظار کررہے تھے۔ شہنشاہ جب خواب شیریں سے لوٹ آئے تو اُنہوں نے اپنی حسین کنیزوں سے کہا ۔ ۔
’’آج میری طبیعت کیوں پُر ملال ہے؟‘‘
کنیزوںنے کہا ۔ ۔ ۔
’’ظل سبحانی ۔ ۔ شاید ہماری خدمت میں کوئی کوتاہی رہی ہو‘‘
شہنشاہ نے نہایت نحیف آواز میں کہا ۔ ۔
’’خیر ۔ ۔ !وزیر اعظم کو قدم بوسی کی اجازت دی جائے ۔ ۔ ‘‘
پھر وزیر اعظم قدم بوسی کے لئے حاضر ہوئے۔ شہنشاہ نے کہا ۔ ۔
’’کیا خبر لائے ہو؟‘‘
’’عالم پناہ ۔ ۔ وہ سر پھرا ہماری دسترس سے باہر ہوگیا‘‘
’’کیوں ۔ ۔ وزیر اعظم ۔ ۔ کیوں؟‘‘
’’وہ اُن کی پناہ گاہ میں چلا گیا جن کے مفادات کی وہ نگہداشت کررہا تھا‘‘
شہنشاہ نے اپنی دم توڑتی ہوئی چیخ میں کہا ۔ ۔ ۔
’’وزیر اعظم ہماری افواج ۔ ۔ ہمارے لشکر‘‘
لیکن وزیر اعظم جو کچھ کہنے والے تھے وہ بھی کیا کم دھماکہ خیز تھا!
’’عالم پناہ ۔ ۔ ! وہ تو سر پھرا ہے، پرایا ہے ۔ ۔ آج نہیں تو کل ہمارے چنگل میں ہوگا، لیکن جب اپنوں میں ہی کالی بھیڑ ہوگی تب حالات پیچیدہ ہی نہیں مشکل بھی ۔ ۔ !‘‘
شہنشاہ نے اپنے سرپر رکھے ہوئے تاج کو مضبوطی سے پکڑا اور کہنے لگا ۔ ۔
’’ناقابل یقین! ۔ ۔ ناقابل یقین!!‘‘
اُس دن کے بعد وادی کی تارکول بچھی سڑکوں پر فوج گشت کرنے لگی۔ اُسی دن ایک معصوم بچے نے اپنے باپ سے پوچھا ۔ ۔ ۔
’’بابا! بندوق کیا ہوتی ہے؟‘‘
’’بندوق! ۔ ۔ بندوق میں جب گولی رکھی جاتی ہے اور لبلبی دبائی جاتی ہے تو اس گولی سے آدمی مرجاتا ہے ‘‘
’’لیکن ! آدمی کو کیوں مارا جائے؟‘‘۔ ۔ بچے نے سوال کیا۔
’’اس لئے جب کبھی آدمی دوسرے آدمی کا دشمن بن جاتا ہے ۔ ۔ تب ۔ ۔ مظلوم آدمی ہاتھ میں بندوق لیتا ہے!‘‘
اب بچے نے ضد کی ۔ ۔ ’’بابا ۔ ۔ پھر مجھے بندوق چلانا سکھائو‘‘
اب بھی چوک میں نوجوان وقت کی رفتار پر ضرب لگارہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا ۔ ۔ ۔
’’ہمارا مقصد صرف بڑا ہونا ہی نہیں بلکہ اصل مقصد ہے ۔ ۔ بڑا ہوکے بڑا رہنا ہوگا ۔ ۔ !!‘‘
وادی میں ایک گول میدان بھی تھا۔ جس کی سرزمین نے نہ جانے کتنے انقلابات اپنے اندر چھپالئے تھے، آج وہاں سجائے گئے چبوترے کے سامنے ایک قد آور آدمی کھڑا تھا۔ اُس کا سر گنجا تھا ۔ ۔ ناک لمبی تھی ۔ ۔ کان کھڑے تھے ۔ ۔ وہ سامعین سے کہنے لگا ۔ ۔
’’ہم وطنو! آج میں تم لوگوں سے پہلی بار مخاطب ہورہا ہوں ۔ ۔ آج میں تم لوگوں کے پاس پہلی بار اس لئے حاضر ہوا ہوں کہ تم سے کہنا چاہتاہوں کہ آج نہ میرا کوئی سر پرست ہے نہ میں کسی کی سرپرستی قبول کرنے کے لئے تیار ہوں!‘‘
اُس شام وادی کی ایک بوسیدہ جھونپڑی میں ایک بوڑھا آدمی اپنے نوجوان بیٹے سے پوچھ رہا تھا ۔ ۔
’’بیٹا ! تمہارا نشانہ کیسا ہے؟‘‘
نوجوان نے اپنا سینہ تان کر کہا ۔ ۔ ’’بابا! رات کے اندھیرے میں اُڑتے ہوئے پرندے پر بند آنکھوں سے نشانہ لگاسکتا ہوں ۔ ۔ ‘‘
باپ نے اپنے حقے سے تمباکو کا لمبا کش لیتے ہوئے کہا ۔ ۔ ۔
’’لیکن دیکھنا یہ ہے کہ تم اپنی بند آنکھوں سے دشمن کو پہچان پائوگے بھی یا ۔ ۔ ؟‘‘
چوک پر واقع جو صدر اسپتال تھا وہاں سے ادھیڑ عمر کا سرپھر ا نمودار ہوا۔وہ چاک وچوبند لگ رہا تھا۔ اس کے اعزاز میں جشن صحت کا اہتمام کیا گیا۔ اس جشن میں اس کے معالج نے کہا ۔ ۔ ۔
’’اپنی صحت یابی کی خوشی میں تم اپنے معالج کو کیا پیش کررہے ہو؟‘‘
سرپھرے نے کہا ۔ ۔
’’ڈاکٹر میں کل سفر پر روانہ ہورہا ہوں‘‘
وادی کی ایک بوسیدہ جھونپڑی میں بیٹا اپنے باپ کے حقہ کی چلم میں تمباکو بھر رہا تھا۔ بوڑھے نے نوجوان سے کہا ۔ ۔
’’اب نشانہ لگانے کے لئے تیار ہو!‘‘
’’بابا ۔ ۔ کیا پھر کھیتوں میں کوئی خونخوار جانور گھس آیا ہے؟‘‘
’’بیٹے۔۔انسان اور جانور میں بہت ہی کم فرق ہے۔ ۔ !‘‘
نوجوان نے اپنی بندوق ہاتھ میں لی۔ اس کی صفائی کی۔ پھر بندوق کی نلی میں کارتوس ڈالنے لگا۔
آج چوک میں تنومند نوجوان بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ وہاں نہایت نظم وضبط کے ساتھ یاں قطاردرقطار کھڑی تھیں۔ گاڑیوں میں نوجوان تھا۔ قافلہ کی روانگی کے وقت نوجوان نے چوک پر نظر ڈالتے ہوئے اپنے آپ سے کہا ۔ ۔ ۔
’’الوداع ۔ ۔ الوداع۔۔ ! میں آج بڑا بننے اور بڑا رہنے کی قربان گاہ پر اپنے آپ کو پیش کرتا ہوں۔ ۔‘‘
وادی کا نوجوان ۔ ۔ لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کے ساتھ اپنی بوسیدہ جھونپڑی کے صحن کو عبور کرتے ہوئے اپنے باپ کے قدموں پر گرپڑا۔ اس نے اپنے باپ کا دامن پکڑتے ہوئے کمزور آواز میں کہا ۔ ۔ ۔
’’بابا ۔ ۔ ! وہ دس تھے اور میں اکیلا تھا۔ نومیرے نشانے سے بچ نہ پائے لیکن دسویں نے مجھے اپنی گولی کا نشانہ بنایا‘‘
باپ نے اپنے لخت جگر سے لپٹتے ہوئے کہا ۔ ۔
’’لیکن بیٹا ! ابھی تو بہت آگے جانا ہے!‘‘
’’بابا ۔ ۔ بابا ۔ ۔ اللہ ۔ ۔ اللہ ۔ ۔ ‘‘
نوجوان نے اپنے باپ کے بازوئوں میں دم توڑدیا۔بوڑھے نے نوجوان بیٹے کی لاش خود سپردخاک کی۔ پھر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے اپنے گھر کے صحن کو عبور کرتے ہوئے اُس کمرے میں پہنچا جہاں اُس نے دم توڑا تھا ۔ ۔ وہاں اب بھی اس کے جوان بیٹے کی بندوق زمین پر پڑی ہوئی تھی۔ اس نے زمین سے بندوق اُٹھاتے ہوئے کہا ۔ ۔ ۔
بسم اللّٰہ الرّحمن الرحیم ۔ ۔
’’شروع کرتا ہوں ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے‘‘
سرینگر،9419012800