بے شک شرم و حیاءانسان کا ایک ایسا امتیازی وصف ہے، جسے ایمان کا ایک اہم جزو قرار دیا گیا ہے۔ شرم و حیاء نہ صرف فرد کی ذات میں طہارت اور پاکیزگی کا سبب ہے بلکہ پورے معاشرتی نظام کی پاکیزگی اور اخلاقی قدروں کی بقاء کا ضامن بھی ہے۔ جب حیاء معاشرے سے ختم ہونے لگتی ہے، تو پھر اخلاقی پستی اور بُرائیوں کا آغاز ہوتا ہے، جیسا کہ آج ہم اپنے معاشرے میں دیکھ رہے ہیں۔ آج کا معاشرہ رشوت خوری، سود خوری، اقربا پروری، بد دیانتی اور بد عنوانی جیسی برائیوں میں بُری طرح جکڑا ہوا ہے اور ان تمام بُرائیوں کی جڑ بے حیائی اور بے شرمی ہی ہے۔ظاہر ہے کہ جب انسان سے حیاء اور خوفِ خدا ختم ہو جاتا ہے، تو وہ بُرائیوں کی جانب مائل ہو جاتا ہے اور معاشرتی بیماریاں جنم لینے لگتی ہیں۔شرم و حیاء دراصل اس بات کا شعور دیتی ہے کہ ہم کس حد تک اپنےخالق و مالک کے سامنے جواب دہ ہیں اور ہمیں اپنی زندگی کو کیسے گزارنا ہے۔ ایک باحیاء انسان خود کو بُرائیوں اور غلطیوں سے دور رکھتا ہے اور اپنے کردار کی حفاظت کرتا ہے۔اسی لئےاسلام نے خواتین کی عظمت اور وقار کے تحفّظ کے لیے ایک جامع نظام پردہ متعارف کروایا ہے، جس کا مقصد اُن کی عزت اور حیاء کا محافظ بنانا ہے۔ پردے کا مقصد صرف جسمانی حفاظت نہیں بلکہ معاشرتی ماحول کو پاکیزہ بنانا اور عورت کے مقام کو بلند کرنا ہے۔ ایک مسلم خاتون کی بنیادی پہچان اس کی شرم و حیاء ہے اور یہی شرم و حیاء معاشرے کی پاکیزگی کی ضمانت ہے۔ جب ایک ماں اپنی گود میں اپنے بچّے کو پروان چڑھاتی ہے تو وہ نہ صرف اسے علم اور عقل سکھاتی ہے بلکہ اپنی شخصیت کے ذریعے اسے شرم و حیاء، اخوت، مساوات اور عدل کے اصول بھی سکھاتی ہے۔ایک باحیاء ماں کی پرورش کی ہوئی نسل مضبوط کردار کی حامل ہوتی ہے کیونکہ یہ نسل اپنی بنیادوں میں دینی اصولوں اور اخلاقیات کو جذب کر چکی ہوتی ہے۔آج کے زمانے میں پردے، حجاب اور سادہ لباس کی جتنی ضرورت ہے، شاید پہلے کبھی اتنی نہ تھی۔ بے حیائی اور غیر اخلاقی سرگرمیاںنئے انداز سے معاشرے میں سرایت کر چکی ہیں ،جنہیں ہم کو شوق کا نام دے کر نظر انداز کررہے ہیں۔ لیکن ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ کسی بھی بُرائی کی ابتدا معصومیت سے ہی ہوتی ہےجو آگے بڑھ کر بعد میں ایک بڑے جرم کا سبب بنتی ہے۔ ضروری ہے کہ بُرائی کو آغاز میں ہی روک دیا جائے تاکہ وہ معاشرے میں جڑ نہ پکڑ سکے۔ چنانچہ جس معاشرے میں عورت محفوظ ہوتی ہے، اس معاشرے کی اقدار بھی محفوظ رہتی ہیں۔ ایسی خواتین جو حجاب میں اپنے وقار کو محفوظ رکھتی ہیں، وہ مسلم معاشرےکی شہزادیاںکہلاتی ہیں، کیونکہ و ہ اپنے دین اور روایات کی نمائندگی کرتی ہیں۔ پردہ نہ صرف ان کی حفاظت کا ضامن ہے بلکہ یہ ایک پیغام بھی دیتا ہے کہ انہیں عزت و احترام دیا جائے اور ان کی شخصیت کو وقار سے دیکھا جائے۔آج کی دنیا میں جہاں غیر اخلاقی رجحانات اور مغربی اثرات نے مسلم معاشروں پر بھی اثر ڈالا ہے، وہاں یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ہم اپنی روایات اور اقدار کی حفاظت کریں۔ اگر ہم اپنی روایات کو بچانے اور مضبوط کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں اپنے دینی اور اخلاقی تشخص سے محروم نہ ہو جائیں۔ خواتین کی حفاظت اور ان کے وقار کا خیال رکھنا اسلامی معاشرت کا اہم اصول ہے اور یہ حقیقت ہے کہ جہاں عورت محفوظ ہو، وہاں نسلیں محفوظ اور مستقبل تابناک ہوتا ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ خواتین کو مکمل عزت و احترام دیںاور ان کے لیے ایک محفوظ معاشرتی فضا قائم کریں تاکہ وہ اپنے کردار میں مضبوط رہ سکیں۔یا دکھیں کہ ایک عورت کی کامیابی کا انحصار اس پر ہے کہ وہ اپنی خاندانی اور معاشرتی ذمّہ داریوں کو بخوبی نبھائیںاور اپنے ایمان و حیاء کی حفاظت کریں۔اب جبکہ عصر حاضر میں معاشرتی دباؤ کے تحت عورت کو گھر سے باہر نکلنے اور معاشی دوڑ میں شامل ہونا پڑرہا ہےتو جس سے بعض اوقات خاندانی تعلقات اور رشتے متاثر ہوتے ہیں۔ اسلامی تصور میں عورت کو زندگی کی کامیابی کے مختلف پہلوؤں میں متوازن رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔اب خواتین تعلیم، ملازمت اور دیگر ضروریات کی وجہ سے گھر سے باہر نکلتی ہیں تو غیر محرم مردوں سے ان کا واسطہ ہو جانا ایک حقیقت ہے۔ اس لئے دینی تعلیمات کے مطابق اُن کے لئے لازم ہےکہ جب بھی گھر سے نکلے تو پردے کا اہتمام کرے اور غیر ضروری اختلاط سے گریز کرے۔