سید مصطفیٰ احمد
کچھ دنوں پہلے ۲۳ اساتذہ کو نوکریوں سے برطرف کیا گیا۔ وجہ وہی دھاندلی اور فرضی اسناد۔ ہمیں اب شرم سے ڈوب کر مرنا چاہیے۔ اساتذہ جو قوم کے معمار ہوتے ہیں، اگر ایسے گناہوں میں ملوث پائے جاتے ہیں، تو یہ ہمارےکھوکھلے پن کی واضح نشان ہے۔ یہ اساتذہ ان Boards سے اپنی دسویں اور بارویں کے امتحانات ایسے پاس کر کے آئے ہیں، جن کی کوئی بھی سرکاری شناخت نہیں ہوتی ہے۔ بہ الفاظ ِدیگر ، یہ دھاندلی کا وہ بڑا جال ہے جو جموں و کشمیر کے کونے کونے میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اب پڑھائی کا اصل مقصد ہی فوت ہوچکا ہے۔ ذرا گور کریںکہ ایسی پڑھائی کا کیا فائدہ جس میں محنت ضائع ہو ،مگر دھاندلی بازی لے جائے۔ اس ماحول میں کس کو شوق ہوگا کہ وہ ایسی تعلیم حاصل کرے جوبےمعنی ہوکر رہ گئی ہے۔ ان ملازمین پر مجھے حیرانگی ہوتی ہے جو دعوے تو شفافیت کا کرتے ہیں مگر خود گندے کیڑوں کی طرح غلاظت کا شوق رکھتے ہیں۔ کیسے یہ ضمیر فروش زندگی گذارتے ہیں؟ معلم کا لبادہ اوڑھ کر ملامت کے کام کرتے رہتے ہیں۔ اب ’اساتذہ ‘لفظ سے ہی گن آنے لگتی ہیں۔
اس صورتحال کے پیچھے بہت سارے وجوہات کا عمل ِدخل ہیں۔ پہلا ہے مادیت:جس نےاس دوڑ میں حلال و حرام کی لکیر ہی مٹاکر رکھ دی ہے۔ زمین، پیسے، اقتدار، اورگاڑیوں نے ہوس نے انسان کو حیوان سے بدتر بنا دیا ہے، یہ’ اساتذہ‘ بھی لالچ اور ہوس کی اسی ناو کے کچولے ہیں۔ کچھ دنوں کی خوشیوں کے لئے اور کچھ لوگوں کو حسین خواب دکھانے کے لئے، یہ لوگ انسانیت کو شرمسار کرتے چلے جارہے ہیں۔ ایسے لوگوں کی وجہ سے حقدار اپنے جائز حق سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ان ۲۳ ملازموں نے ۲۳ سے زیادہ حقدار گھرانوں کو زندہ مار دیا۔ آج کے زمانے میں نوکری ملنا لگ بھگ محال ہوگیا ہے اور اس کے بعد بھی کسی کو اپنے حق سے محروم کر دینا، سوچ سے بالاتر ہے۔ یہ وارداتیں گناہوں کا باعث بنتی ہیں، منشیات کی لت بھی ان غیر اخلاقی حرکات کا نتیجہ ہے۔ دوسرا ہے آخرت کی فراموشی: دنیا کی رنگینیوں میں ہم اتنے محو ہوچکے ہیں کہ اب ہمیں آخرت کی فکر ہی نہیں رہی۔ ہمیں لگتا ہے کہ دھاندلی اور گھپلے کرکے ہم یہاں سکھ اور چین سے جی لیں گے، ہر طرح کی زینت و نشاط سے لطف اندوز ہوکر کل کو بناپُرسِش کے نکل جائیں گے۔ نہیں،ہرگز نہیں! یہ ہماری غلط فہمی ہے، اللہ ہم سے اس بابت ضرور پوچھیں گے۔ ان ۲۳ چوروں نے بہت سارے لوگوں کی زندگیوں میں پریشانیوں کا نہ تھمنے والے سلسلے کو جنم دیا ہے۔ مظلوموں کی بددُعا ،ان بے شرموں کو ضرور لگےگی۔ جیسا کہ پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اب ہمارے معاشرے میں گناہ کو گناہ نہیں سمجھا جاتا ہے۔ جس کو جس طرح سےلوٹنا آتا ہے، وہ دوسروں کو لوٹتا رہتا ہے۔ کوئی علم کے نام پر، کوئی مذہب کے نام پر، کوئی سیاست کے نام پر۔ غرض ہر کوئی ایک دوسرے کو یہ سوچ کر لوٹ رہا ہے کہ جب وہ بھی لوٹ میں ملوث ہے، تو میں نے کونسا گناہ کررہا ہوں! اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب جو گنے چُنے مخلص افراد ہیں، وہ اب بہت سارے مشکلات میں پھنس چکے ہیں۔ ایک طرف اصول ہے مگر دوسری طرف دھوکہ دہی کا بازار گرم ہے۔ تیسرا ہے دکھاوا: جب بیشتر اساتذہ نے شاندار شیش محل تعمیرکرلئے ہیں، تو یہ ۲۳ کیسے پیچھے رہ سکتے تھے۔ جعلی اسناد لے کر سالوں سال تک حرام کی تنخواہ کھاتے رہےہیں۔جن سے بڑے مکانا ت تعمیر کئے، گاڑیاں خریدی اور دوسری جائیدادیںبھی بنا لی ہیں، جس کے باعث ان پر عزت کے پھول نچھاور کئے گئےہیں۔لیکن جو اس کے حقدار تھے، وہ یا تو مر گئے ہیں یا پھر ذہنی امراض کے شکار بن گئے ہیں۔ وہ خود کے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی اب بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ واہ! اگر اس چیز کا نام علم ہے، تو اس علم سے بہتر ہے کہ انسان اَن پڑھ ہی رہے۔
اس سے نپٹنے کے بہت سارے طریقے ہیں۔ سب سے پہلا ہے سرکاری قوانین کو من و عن لاگو کیا جائے۔ ایسا نظام ترتیب دیا جائے کہ جعلی ڈگریوں والے لوگ محکمہ تعلیم میں داخل ہی نہ ہوسکے، اور جو کوئی بھی اس میں ملوث پایا جائے، اُسے سخت سے سخت سزا دی جائے۔ دوسرا ہے اعلیٰ افسران کی تقرری شفافیت پر مبنی ہوں۔ یہی اعلیٰ افسران چوری کا دروازہ کھولتے ہیں۔ اگر وہ اپنے ضمیر کو زندہ رکھتے ہوں، تو وہ علم کے نام پر کبھی چوری کو فروغ نہیں دیں گے اور نہ ہی قوم کی جڑوں کو تباہ و برباد کریں گے۔ تیسرا ہے ،اپنے آپ کا محاسبہ کرنا اور اپنےآپ سے پوچھنا کہ میں جو کچھ بھی کر رہا ہوں، کیا یہ ٹھیک ہے؟کہیں میں کسی کی دنیا کو آگ لگا کر اپنی دنیا روشن کر رہا ہوں؟ اس عارضی دنیا میںکچھ برسوں تک تو میں آرام سے جی لوں گا، لیکن جب آخرت میں مجھے اللہ کے حضور کھڑا کیا جائے گا،تو وہاں کیا کروں گا؟ یہ باتیں بھی اُس کو گناہ کرنےسے روک سکتی ہے۔ اگرواقعی ایک پڑھا لکھا انسان محض اس بات پر غو کریں کہ میں نے کیوں پڑھائی حاصل کی،تو اس کو یہ احساس ضرور ہوگا کہ میں کوئی غلط کام نہیں کرسکتا ہوں۔
وقت کی ضرورت ہے کہ چوروں کو ہر ڈیپارٹمنٹ سے باہر کا دروازہ دکھایا جائے۔ میری لیفٹیننٹ گورنر صاحب اور جموں و کشمیر کے اعلیٰ انتظامیہ سے گزارش ہے کہ جس جس سرکاری شعبے میں جہاں جہاں پر چوروں کو براجمان رکھا گیا ہے ،ان کا محاسبہ کیا جائے۔ یہاں کوئی بھی Recruitment شفاف طریقے پر نہیں ہورہی ہے۔ ہر Recruitment میں چوروں کی تاناشاہی ہے۔ حق داروں کو ان کا حق نہیں ملتاہے۔معاشرے کے باشعورافراد کو بھی اس کار خیر میں آگے آنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ علماکرام ،مولوی صاحبان اور ایمہ مساجد کو بھی فروعی مسائل سے سے ہٹ کر اب معاشرے کو درپیش اہم مسائل کی طرف متوجہ ہونا چاہئے۔ اللہ ہم سب کو نیک کام کرنے کی توفیق عطا کرے۔
رابطہ۔ 7006031540
[email protected]