سندری ایک چرواہے کی اکلوتی بیٹی تھی۔ یوں تو اس کا اصلی نام سوندر تھا لیکن حسین اور خوبصورت ہونے کی وجہ سے لوگ اس کو سندری کے نام سے پکارتے تھے۔ اکیس سال کی سندری پورے شباب پر تھی۔ قدرت نے اُسے بے پناہ حسن سے نوازا تھا۔ نجدون کے جنگل میں جب وہ اپنی پردروآواز میں گلریز گنگناتی تھی تو آس پاس کا سار ا ماحول معطر ہوجاتا تھا۔
سال کے پانچ مہینے، جون سے اکتوبر تک، سندری اپنے ابو غفور کے ساتھ نجدون کی چراگاہ میں گزارتی تھی ۔ اس دوران سندری کی ماں جلّی اکیلے گائوں میں گھر کا کام کاج سنبھالتی تھی۔ غفور جانتا تھا کہ اس کی بیٹی سندری کے سینے میں جوانی کا لاوا پکنے لگا ہے، اس لئے دونوں میان بیوی فکر و تردد کے دوپاٹوں میں پسے جارہے تھے۔ ایک طرف بیٹی کے جوان ہونے کی پریشانی اندر ہی اندر کھائے جارہی تھی تو دوسری طرف شادی کے بعد سندری کو کھونے کا احساس دونوں میاں بیوی کو کالے سانپ کی طرح بار بار ڈس رہا تھا۔ شاید اسی لئے غفورہر ایک سے کہتا تھا ’’سندری میرے نازک کندھوں پر ہمالہ ہے!‘‘ سندری نے سورج کے گرد اپنا پچیسواں چکر بھی مکمل کرلیا لیکن ہنوز اس کے ابو امی کے پاس اس کا ہاتھ مانگنے کیلئے کوئی مناسب شخص نہیں آیا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ غفور کو اپنے قبیلے سخت محنتی اور ایماندار سمجھا جاتا تھا اور اس کی امیری کی وجہ سے بھی ہمسائے اور رشتہ دار، جو قدرے غریب تھے، احتیاط سے کام لیتے تھے۔ سندری کو بھی اپنے ابو کی عزت نفس کا بھرپور احساس تھا اور وہ اپنے ابو سے بہت پیار کرتی تھی۔
غفور کے لاکھ منع کرنے کے باوجود بھی جلّی بیگم اپنے شہر کو منوانے میں کامیاب ہوگئی۔ اس سے قبل سلام چوپان کو تین بور غفور سے نفی میں جواب ملا تھا۔ سلام چوپان اپنے بیٹے رفیق کیلئے غفور کے پاس رشتہ مانگنے کیلئے آتا تھا لیکن ہر بار وہ مایوس ہوکر واپس چلا جاتا تھا۔ وجہ یہ بھی تھی کہ سلام چوپان اور غفور میں کچھ رنجش بھی تھی اور یہ رنجش چار سال قبل نجدون کی چراگاہ میں اس وقت پیدا ہوئی جب سلام چوپان نے ان کے کوٹھے پر ناجائز قبضہ کرلیا تھا۔
اس بار جلی بیگم نے سلام چوپان کو ہاں کردی اور رفیق سندری کا رشتہ طے ہوگیا۔ ابھی نکاح خوانی کی رسم باقی تھی کہ ایک دن رفیق نے فون کرکے سندری کو ملنے کیلئے کہا ۔ یہ ستمبر کے مہینے کا آخری ہفتہ تھا۔ نجدون کے جنگل میں دونوں آمنے سامنے ہوئے ۔ رفیق نے سندری سے کہا ’’سندری ! تمہیں میری ایک شرط ماننی ہوگی، تب یہ رشتہ قائم ہوگا!‘‘
’’شرط !؟‘‘ سندری نے تعجب سے پوچھا۔
’’ہاں۔ ہاں شرط‘‘ رفیق بولا
’’بتائو شرط کیا ہے؟‘‘ سندری نے بڑے ہی انہماک سے پوچھا۔
’’تمہیں خود کو بدلنا ہوگا!‘‘
’’مطلب ۔ میں سمجھی نہیں!‘‘ سندری نے تعجب سے پوچھا۔
’’میں تجھے ماڈرن دیکھنا چاہتا ہوں‘‘ رفیق نے جواب دیا۔
’’اوں۔ ماڈارن۔ مطلب مجھے تمہاری خاطر بے پردہ ہونا پڑے گا اور اپنے حسن کی نمائش کرنی ہوگی!‘‘
سندری نے رفیق سے غصے کے ساتھ پوچھا۔
’’بالکل صحیح سمجھا!‘‘ رفیق نے جواب دیا۔
’’مطلب یہ چادر اب میرے سر پر نہیں رہے گی‘‘۔ سندری نے اپنا غصہ برقرار رکھتے ہوئے رفیق سے میں پوچھا۔
’’ہاں ۔ ہاں‘‘ رفیق نے جواب دیا۔
’’تمہارا مطلب ہے حیا کی دیوار مجھے گرانی ہوگی؟‘‘
’’چادر کا حیا کے ساتھ کیا رشتہ ہے؟‘‘ رفیق نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
’’چادر حیا کی علامت ہے۔ بے پردہ عورت بے حیا ہوتی ہے۔ ایک بے حیا عورت کبھی بھی ایک کامیاب ماں۔ کامیاب ساس، کامیاب بیوی، کامیاب بیٹی یا کامیاب بہو نہیں بن سکتی ہے۔ عورت کو محض نمائش کیلئے تخلیق نہیں کیا گیا ہے۔ دراصل وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘
’’سندری! یہ ہماری پہلی ملاقات ہے‘‘ رفیق غصے میں بولا۔
’’اور یہی ہماری آخری ملاقات ہوگی‘‘ سندری نے جواب دیا۔
’’کیا۔ ؟‘‘ رفیق نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
’’ہاں۔ ہاں۔ جس رشتے کی بنیاد ایسی بے ہودہ شرط پر ٹکی ہو، اس رشتہ کی دیواریں ریت کی ہوتی ہیں۔ تمہاری یہ شرط میرے وجود کو بکھیر کر رکھ دے گی اور میں تنکے کی طرح دھول میں اڑ جائوں گی ۔ مجھے تمہاری یہ شرط منظور نہیں ہے‘‘
اس طرح سندری نے اپنی غیرت کے خاطر رفیق کے ساتھ رشتے کو ٹھکرادیا اور اپنے مقام کو کھنڈر ہونے سے بچالیا۔!!
رابطہ: آزاد کالونی پیٹھ کا انہامہ
موبائل نمبر؛9906534724