ہمارے سماجی مسائل میں شراب نوشی ایک ایسا مسئلہ بن گیاہے جس سے نجات حاصل کرنا ناگزیر بن چکاہے ۔کیونکہ سماج میں خاص کر نوجوان نسل میں یہ ایک خوفناک تباہی کا سبب بن رہا ہے۔ کچھ سماجی اور مذہبی تنظیموں کی طرف سے تو اس سلسلے میں کچھ حد تک رول ادا کیاجارہاہے لیکن ارباب اقتدار سب کچھ جانتے ہوئے بھی خاموش ہیں اور وہ شراب بندی کیلئے کسی بھی سطح کا کوئی اقدام کرنے کیلئے تیار نہیں ۔اسکا کاروبار ریاست کے لئے آمدن کا اہم ذریعہ ہے، لیکن ایسی آمدن سے کیا حاصل جو نوجوان نسل کو تباہ و برباد کردے اور نہ چھوٹے کی تمیز رہے اور نہ بڑے کی ۔ہمارے سماجی مسائل اور ہماری اقدار کی پامالی کیلئے بہت حد تک شراب نوشی کو ہی ذمہ دار ٹھہرایاجاسکتاہے ۔اب حالت یہ ہوچکی ہے کہ کوئی بھی سنجیدہ فکر انسان مسافر بسوں میں بھی سفر کرنے سے کتراتاہے کیونکہ جموں شہر اور اطراف و اکناف میں خاص کر شام کے وقت ان گاڑیوں میں ایسے لوگ بھی سوار ہوتے ہیں جو شراب پی کر مست ہوئے ہوتے ہیں اوروہ نہ صرف بدتمیز ی اور بعض اوقات لڑائی جھگڑے پر اتر آتے ہیں بلکہ بدبو سے دوسرے مسافروں کا جینا بھی حرام کردیتے ہیں ۔اگر کوئی عورت شام کے وقت بھول کر مسافر بس میں سوار ہوجائے تو اس کا تو دم گھنٹے لگتاہے اور یہ ایسی صورتحال ہے جس سے لوگوں کو ہر روزدوچار ہوناپڑتاہے ۔شراب نے بلامذہب و ملت سب کو تباہ کردیاہے اور اس سے نہ مسلمان محفوظ ہیں اور نہ ہی ہندو اور سکھ ۔یہ ایک ایسا ناسور ہے جس نے بلاتفریق رنگ و نسل اور مذہب ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں لے لیاہے ۔جموں شہر میں ہر چند قدم کی دوری پر شرا ب کی دکان ملتی ہے ۔جہاں شام تو دور کی بات دن میں بھی بھاری بھیڑ لگی رہتی ہے اور وہاں سے شریف لوگوں کا گزر بھی محال ہو جاتاہے۔اس طرح سے حکام نے جہاں شراب کاکاروبار کرنے کیلئے کھلے لائسنس جاری کررکھے ہیں وہیں مے نوشوں کو بھی اس بات کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے کہ وہ جہاں چاہیں شراب نوشی کرسکتے ہیں اور اس کے بعد جہاں چاہیں گھوم پھر سکتے ہیں ۔نہ جانے موجودہ حکمران اتحاد کو شراب بندی کرنے میں کیا پریشانی ہے کہ جب اس کی ایک اکائی یعنی بی جے پی بھی ریاست میں اس پر پابندی عائد کرنے کے حق میں بول رہی ہے ۔بھاجپا کے ایم ایل اے نوشہرہ شراب بندی کے مطالبے کو کئی مرتبہ دہراچکے ہیں ۔ انہوںنے حالیہ اسمبلی اجلاس کے دوران جب یہ مسئلہ اجاگر کیاتو سبھی کویہ لگاکہ شائد ریاست بہار کی طرح جموں وکشمیر میں بھی اس ناسور سے چھٹکارہ حاصل ہوگالیکن اپوزیشن کی زبانی حمایت کے باوجود حکومت نے خاموشی اختیار کئے رکھی اور بی جے پی ایم ایل اے کا مطالبہ دھرا کا دھرا رہ گیا۔ اب انہوںنے گزشتہ روز راجوری کی ضلع ترقیاتی بورڈ میٹنگ کے دوران بھی یہ مطالبہ دہرایاہے لیکن دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ حکام پر اس کوئی اثر بھی ہوگایا نہیں ۔اس حوالے سے مینڈھر تحصیل کے لوگ قابل سراہنا ہیں جنہوںنے شراب کے کاروبار کو مکمل طور پر بند کروادیاہے ۔ انہوںنے پہلے تو بھمبر گلی کے مقام پر شراب کی دکان احتجاج کرکے کھلنے سے قبل ہی بند کرادی اور اب حالیہ دنوں مینڈھر بازار میں چل رہی شراب دکان کو بھی بند کروادیاہے ۔ مقامی علماء اور سماجی تنظیموں کی طرف سے باربار اس معاملے پر احتجاج کئے جانے کے بعد انتظامیہ کو تحصیل میں شراب بندی کی یقین دہانیوں کو روبہ عمل لانا پڑا۔ وہاں چل رہے شراب خانےکے مالک نے سبھی طبقوں کی طرف سے متفقہ طور پر کئے جارہے اس مطالبے کو قبول کرتے ہوئے خود ہی یہ اعلان کیاکہ وہ شراب کاکاروبار نہیںکریںگے ،چاہے انہیں اس کیلئے کتنا ہی مالی نقصان ہی کیوں نہ اُٹھانا پڑے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ صحیح سمت میں عوام کی جد وجہد کبھی ضائع نہیں ہوجاتی بلکہ مد مقابل بھی قائل ہو کر اکثریت کے درست خیال کی تائید کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مینڈھر تحصیل کے عوام کی طرف سے شروع کی گئی کوششوں کو ریاست گیر بنایا جائے اور مذہبی رہنمائوں، سماج سیوکوں اور دانشوروں کو ہر جگہ شراب کا کاروبار بند کرانے کےلئے مہم چلانی چاہئے۔ وہیں مینڈھر بازار کے شراب خانے کے مالک کی طرح ریاست میں اس کاروبار سے جڑے افراد کو ایسی تجارت سے کنارہ کشی اختیار کرلنی چاہئے جو آنے والی نسلوں کی تباہی کا باعث بن رہی ہو۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ نسلوں کی تباہی کے ساتھ ساتھ آئے روز خواتین کےخلاف پیش آنے والے واقعات اور سڑک حادثات میں بیشتر کے ڈانڈے اسی وباء سے ملتے ہیں۔ اگر بھارت میں دیگر ریاستوں کے اندر شراب بندی کا اقدام کامیابی سے ہمکنار ہوسکتا ہے تو جموںوکشمیر میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ ان کےلئے حکمرانوں کی سوچ مثبت ہونی چاہئے۔ آنے والے وقت میں یہ ہمارے حکمرانوں کےلئے ایک امتحان ہوگا !۔