سرینگر// حریت (گ)چیرمین سید علی گیلانی نے ریاست جموں کشمیر میں شراب کی ترسیل پر مکمل پابندی عائد کرنے کی اپنی دیرینہ مانگ دہراتے ہوئے کہا کہ شراب تمام برائیوں کی اصل جڑ ہے اور یہ نہ صرف مئے نوشی کرنے والوں کے لیے تباہی وبربادی کا باعث بن رہی ہے، بلکہ اس کے تمام گھریلو اور سماجی زندگیاں بھی تباہ وبرباد ہورہی ہے۔ شراب کسی ایک مذہب یا فرقے سے واستہ لوگوں کے لیے نقصان دہ نہیں ہے، بلکہ یہ پوری انسانیت کے لیے نقصان دہ ہے اور تمام جرائم جو اس وقت دنیا میں ہورہے کے لیے شراب اس کے لیے ایک دروازہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے جموں کشمیر کے اندر سے شراب پر پابندی لگانے کے لیے اٹھ رہی آوازوں کو حوصلہ افزا قرار دیتے ہوئے سماج سے وابستہ تمام لوگوں سے اپیل کی کہ وہ اس زہر کو اپنی سرزمین سے ختم کرنے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ ریاستی اسمبلی میں کچھ کوتاہ اندیش وزراء کے اس بیان کہ شراب پر پابندی لگانے سے ریاستی بجٹ کو خسارہ ہوجائے گا، پر زبردست حیرت اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس ناپاک شئے کی خریدوفروخت اور استعمال پر مکمل پابندی لگائے جانے پر زور دیتے ہوئے گیلانی نے کہا کہ جموں کشمیر کے قدرتی وسائل کے دلی کے ہاتھوں لوٹ کھسوٹ پر روک لگائی جائے تو ہماری ریاست ہر حیثیت سے ایک خودکفیل ریاست بن جائے گی اور اس کو کسی قسم کے مالی خسارے کا خطرہ درپیش نہیں رہے گا۔ سید علی گیلانی نے کہا کہ خود بھارت کی کچھ ریاستوں میں شراب پر مکمل طور پابندی عائد ہے اور اس پابندی سے وہاں کسی قسم کا مالی خسارہ درپیش نہیں ہے اور نہ وہاں کے لوگ بھوکوں مررہے ہیں۔ حکومت کا اسمبلی میں اپنایا گیا موقف نہ صرف غیر حقیقت پسندانہ ہے، بلکہ یہ حکمرانوں کی پست ذہنیت کو بھی ظاہر کردیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شراب تمام برائیوں کی جڑ ہے اور یہ نہ صرف کینسر سمیت کئی مہلک بیماریوں کا بنیادی سبب بن جاتی ہے، بلکہ اس سے کئی طرح کے سماجی مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔ خاندانی نظامِ زندگی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہے اور رشتوں کی حُرمت ختم ہوکر رہ جاتی ہے۔ مردوزن کے مابین جُدائی اور طلاق کی ایک بڑی وجہ شراب نوشی بن رہی ہے اور اس سے کئی معصوم زندگیاں تباہ وبرباد ہوجاتی ہیں۔ گیلانی نے کہا کہ جموں کشمیر ایک مسلم اکثریتی خطہ ہے اور مسلمانوں کے لیے خاص طور سے یہ شئے حرام قرار دی گئی ہے۔ ہم نے اس ریاست میں پہلے دن سے شراب پر پابندی لگانے پرزور دیا ہے، البتہ یہاں کا حکمران ٹولہ ہر وقت رُکاوٹ بن گیا ہے اور انہوں نے شراب کی ترسیل کو قانونی تحفظ فراہم کیا ہے۔ 1978ء میں جب یہ بل اسمبلی میں لائی گئی تو ہم نے دلائل کے ساتھ اس کی مخالفت کی اور اس کو پاس نہ کرنے کی صلح دی، البتہ اس وقت حکومت کی طرف سے دلیل دی گئی کہ سیاحت جموں کشمیر کی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہے اور سیر سپاٹے کے لیے آنے والے لوگوں کے لیے شراب کی آسان فراہمی ممکن بنانا ناگزیر ہے۔شراب تمام مذاہب میں حرام شئی ہے اورجو لوگ سیر سپاٹے پہ آنے والے لوگوں کے لیے شراب مہیا رکھنے کی وکالت کرتے ہیں ان کے ذہن دیوالہ پن کے شکار ہوگئے ہیں اور اگر خدانخواستہ سیر سپاٹے پر آنے والے لوگ بدمعاشی کے اڈے کھلونے کا تقاضا کریں گے تو کیا حکومت مالی منفعت کے لیے ان اڈوں کو بھی اجازت نامہ دیں گے؟ گیلانی نے کہا کہ جموں کشمیر کی حکومت چونکہ محض ایک نمائشی حکومت ہوتی ہے اور احکامات اصل میں دلی سے آجاتے ہیں، جن کی ریاستی حکمران تعمیل کرتے ہیں۔ 1978ء میں بھی ایسا ہی ہوا اور آج بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ دلی والے چونکہ کشمیریوں کی مسلم شناخت اور کلچر ختم کرکے انہیں اپنے رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں، تاکہ وہ تحریکِ آزادی کو فراموش کریں، لہٰذا وہ یہاں پر ہر اُس اقدام کے مخالف ہیں، جس کا مقصد اس کلچر کی حفاظت کرنا ہو۔ آزادی پسند رہنما نے کہا کہ دلی والے اسی پر بس نہیں کرتے ہیں، بلکہ شراب، بے حیائی اور دیگر منشیات کو یہاں سرکاری سرپرستی میں عام کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور اس مقصد کے لیے سول آبادیوں میں قائم فوجی کیمپوں کو اڈوں کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ حکمرانوں کی اس دلیل کو گیلانی نے یکسر مسترد کردیا کہ شراب پر پابندی سے ریاستی بجٹ کو مالی خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری ریاست پانی، بجلی اور جنگلات سمیت کئی قدرتی وسائل سے مالامال ریاست ہے، البتہ ان کا پہلے دن سے دلی کے ہاتھوں لوٹ کھسوٹ جاری ہے اور ریاستی حکمران اس لوٹ پر نہ صرف خاموش ہیں، بلکہ وہ اپنی کرسیوں کی خاطر اس میں ہر ممکن طریقے سے معاونت بھی کررہے ہیں۔ حریت چیرمین نے شراب نوشی اور اس کی ترسیل پر مکمل پابندی لگانے پر زور دیتے ہوئے دینی اور سماجی تنظیموں کے علاوہ علماء کرام اور ائمہ مساجد سے بھی اپیل کی کہ وہ شراب کی حُرمت، اس کے نقصانات اور مضرِ صحت اثرات پرباضابطہ ایک عوامی بیداری مہم چلائیں اور اس کے خلاف رائے عامہ کو منظم کریں۔