رئیس یاسین
ہر کوئی انسان ایک جینئس ہے۔ اگر آپ مچھلی کو درخت پر چڑھنے کی صلاحیت سے پرکھیں گے تو وہ ساری زندگی یہ سوچ کر گزار دے گی کہ یہ بیوقوف ہے۔طلباء کو ان کی تعلیمی کارکردگی کی بنیاد پر جس امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، وہ ایک پراناطرز عمل ہے جسے ہم اب بھی روایتی طور پر جاری رکھے ہوئے ہیںاور تواتر کے ساتھ کافی حد تک معمول بن چکا ہے۔ اکثر یہی دیکھا جاتا ہے کہ والدین اور یہاں تک کہ اساتذہ ، طالب علموں کی ناقص کارکردگی کے لیے اُن کو پیٹتے،ان کی توہین کرتے اور ان کی تذلیل کرتے ہوئےنظر آتے ہیں۔ اگر ہم اب بھی ایک بچے کی قدر کو کاغذ کے ٹکڑے پر جوڑنے کا رجحان رکھتے ہیں تو یہاں سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ اس مروجہ طریقۂ کار کی بنیادی وجہ کیا ہے کہ یہ ذہنیت 21ویں صدی میں بھی ہمارے اندر موجود ہے؟بنیادی وجوہات میں سے ایک، ہمارے تعلیمی نظام کی منفرد خصوصیات ہیں، خاص طور پر جس کی پیروی ہندوستانی معاشرہ کرتی ہے۔جس میں ہمارا مروجہ نظام تعلیم ہمیشہ اس بات کی طرف مائل ہوتا ہے کہ وہ اسکولوں اور کالجوں میں پڑھائے جانے والے اسباق کو کاغذ کے شیٹ پر ڈالنے میںکس حد تک کامیاب ہو گیا ہے، بجائے اس کے کہ وہ ان چیزوں کو عملی طور پر اپنی حقیقی زندگی کے حالات میں لاگو کرنے کے کتنے اہل ہیں۔ یہ غیر منطقی اہمیت روایتی طور پر اپنے سابق پر مجبور ہونے کی وجہ سے کہ ہمارے طلاب محض اچھے نمبروں کی خاطر پڑھتے ہیں اور اپنے مستقبل کی خاطر کبھی کوئی ہنر نہیں سیکھ پاتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ہمارا معاشرہ جس طرح سے بچوں کے لئے ماہرین تعلیم کی لیاقت ،ذہانت اور کارکردگی کی اہمیت کو سمجھے بغیر اپنے جذبوں، صلاحیتوں اور خوابوں کو پورا کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے، اُس سےزیر تعلیم طلاب کے سروں پرایک غیر محسوس دباؤ پڑا رہتا ہے،جس سے وہ زیادہ تر اپنی تعلیم سے لطف اندوز ہونے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے۔ طلاب کی اکثریت کایہ یقین پختہ ہوجاتا ہے کہ کامیابی کا واحد راستہ ذریعہ تعلیم ہے اور کوئی بھی چیزنہیں، جس کا تعاقب کیا جائے یا جس کے لئے وقت نکالنےیا محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے طلاب کی بہت سی صلاحیتیں نہ ہی دریافت ہوتیں اور نہ اُن کے اندرصلاحیتیں پروان چڑھ جاتی ہیں۔جس کے نتیجے میںان کی صلاحیتیں اُبھر کر سامنے نہیں آتیں،جس پر تعلیمی اداروں میں انہیں ناقص کارکردگی کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا نشانہ بننا پڑتا ہے، وہ،ذہنی دبائو ، پریشانی، طبی ڈپریشن اور یہاں تک کہ خودکشی کے بدترین خیالات سے گزرتے ہیں۔ظاہر ہےکہ حصول تعلیم کا مقصد انسان کی تعمیر بھی ہے۔لیکن موجودہ تعلیمی نظام فقط نمبر اور ڈگری کی دوڑ میں اُلجھا ہوا ہے۔ ہمیں یا دہی نہیں کہ تعلیم کا حقیقی مقصد سچائی، دیانت داری اور احترام جیسی بنیادی اقدار کی ترویج بھی ہے۔ جب طلباء کی کامیابی کا معیار فقط امتحانات میں حاصل کردہ نمبرات پر موقوف ہو، تو یہ اُن کی سوچ کو محدود کر دیتا ہے اور ان کی شخصیت کے اخلاقی پہلو کو بھی پسِ پشت ڈال دیتا ہے۔ علم کی اصل روح جب مادیت کے دلدل میں ڈوب جائے تو زندگی کی چمک اور مقصدیت گم ہو جاتی ہے۔ہمیں یہ بھی بھولنا چاہئے کہ 2019 میں، ملک میں خودکشیوں کی وجہ سے 10,000 سے زیادہ طلباء کی قیمتی جانیں ضائع ہوئیںتھیں، جن میں سے زیادہ ترواقعات اُس وقت سامنے آئے ،جب بورڈ اور پبلک امتحانات کے نتائج سامنے آئے تھے۔ یہ بات بھی حیران کن ہے کہ سروے کے مطابق ملک میں ہر 10 میں سے کم از کم 4 طالب علم ڈپریشن کے حالات سے گزرتے ہیں۔اس لئے اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے آپ سے ایک اہم سوال پوچھ لیںکہ ایسی کون سے وجوہات یا مجبوریا ں ہیں کہ بحیثیت معاشرہ ہم طلاب کو اس صورت حال سے بچانے کے لئےکچھ بھی نہیں کرپاتے ہیں؟ سب سے پہلے یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ دنیا کی بہترین ذہانت کا امتحان کسی بچے کے مستقبل کی کامیابی کا تعین نہیں کر سکتی۔ بچوں کو کسی معیاری امتحان کے لیے تیار کرنے کے بجائے انہیں سامنے آمنے والی خوفناک دنیاکے مشکلات و مسائل کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کریں۔ موجودہ صورت حال کا تجزیہ کریں اور سمجھیں کہ ان میں سے زیادہ تر بچوں نے یا تو اس لئے اپنی جان لی کہ وہ اپنے نتائج کا سامنا کرنے سے خوفزدہ تھے یا اس لئے کہ وہ کسی تعلیمی مقصد سے محروم تھے۔ بے شک انہیں یہ یقین دلانے سے بچا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی داخلہ امتحان کبھی بھی یہ طے نہیں کر سکتا کہ ان کی زندگی کتنی کامیاب ہے۔ظلاب کو یہ بھی سمجھائیں کہ تعلیمی اہداف کا پورا ہونا ہمیشہ ضروری نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ وہ اپنے خوابوں کا تعاقب کرتے رہیں، چاہے وہ کچھ بھی ہوں۔ انہیں مہربان، ہمدرد، پرعزم، پرجوش، کارفرما اور اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں پراپنا اعتماد پختہ کرنا سکھائیں کیونکہ یہ انہیں منفرد بناتا ہے۔ اس دنیا میں ہمارے پاس پہلے سے ہی ڈاکٹروں اور انجینئروں کا ایک گروپ ہے،گویا ہم میں انسانوں کی کمی ہے،بس! اُنہیں ان میں سے ایک بہترین انسان بننا سکھائیں کم از کم یہ یقین دلائیں کہ ناکام ہونا غلط نہیںہے، گرنا بھی ٹھیک ہے، لڑکھڑاناباعث شرم نہیںلیکن چھوڑ کر بھاگ جانا کسی حال میں ٹھیک نہیں ہے۔
رابطہ۔7006760695
[email protected]