محمد حسن
انسانی معاشرہ ہمیشہ سے رہنماؤں اور بااثر شخصیات کے گرد گھومتے آئے ہیں کسی کی عزت کرنا کسی کی بات ماننا یا کسی کو مشعل راہ ماننا فطری عمل ہے لیکن جب یہ عقیدت حد سے بڑھ جائے اور عقل و انصاف کی جگہ اندھی تقلید لے لے، تو یہی شخصیت پرستی کہلاتی ہے۔ یہ ایک فکری سماجی اور سیاسی مہلک بیماری ہے جو فرد معاشرہ اورقوم کو تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔شخصیت پرستی ایک ایسا فکری و اخلاقی مرض ہے جو فرد معاشرے اور امت کے لیے تباہ کن نتائج کا سبب بنتا ہے جب کسی شخص کی عقل سوچ اور فیصلے ایک خاص شخصیت کی محبت یا عقیدت کے تابع ہو جائیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ شخصیت پرستی کا شکار ہو چکا ہے۔اس مرض کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ انسان حق و باطل میں فرق کرنے کے بجائے ہر بات کو اپنی پسندیدہ شخصیت کے حوالے سے دیکھتا ہے اگر وہ شخصیت غلطی کرے تب بھی اسے درست سمجھا جاتا ہے اور اگر کوئی دوسرا سچ کہے تو صرف اس لیے رد کر دیا جاتا ہے کہ وہ ہماری شخصیت کا مخالف ہے۔
شخصیت پرستی تاریخ میں کئی بڑی تباہیوں کا سبب بنی ہے، فرعون نمرود اور یزید جیسے ظالموں کو لوگ صرف اسی وجہ سے مانتے اور سجدہ کرتے رہے کہ وہ ان کے محبوب یا طاقتور شخصیت تھے۔ یہی حال آج کے دور میں بھی ہے جب لوگ مذہب سیاست یا سماج میں کچھ افراد کو عقل و شعور سے بالاتر سمجھتے ہیں تو ایڈولف ہٹلر جیسے لوگ جنم لیتے ہیں ،جس کاایک پیرو کار اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی شکل میں ہمارے سامنے ہے، جس کے ظلم و بربریت کے قصے انسانی لہو سے لکھے ہوئے تاریخی اوراق میں بھرے پڑے ہیں ۔
اگرچہ بھارت جمہوری ملک ہے لیکن یہاں کے بعض حلقوں میں شخصیت پرستی کی صور حال پائی جاتی ہے۔اختلاف رکھنے والوں کو غدار یا دیش دروہی کہنا، میڈیا کا یکطرفہ جھکاؤ، اقلیتوں پر دباؤ اور جمہوری اداروں کی کمزوری، یہ بھی شخصیت پرستی کی ایک نشانی ہے۔ ہٹلر کے ظلم و ستم تاریخ کے سب سے اندوہناک اور ہولناک باب میں شمار ہوتے ہیں۔ اس کے دور حکومت میں انسانیت کو جو زخم پہنچے، وہ آج بھی دنیا کے ضمیر پر نقش ہیں۔ اس نے یہودی قوم کو دنیا کا دشمن قرار دیا، نازی فوجوں نے منظم انداز میں یہودیوں کو گرفتار کیا، ان کے گھروں سے نکالا اورگیس چیمبرز میں زندہ جلا دیا یا ماردیا، اندازاً 60 لاکھ یہودیوں کوقتل کیا گیا، بچوں بوڑھوں خواتین کسی پر بھی رحم نہ کیا گیا۔ سوال پھر یہ کہ کیا یہ ظلم وستم ہٹلر اکیلے کرسکتا تھا؟ نہیں ہرگز نہیں! جب تک اندھی تقلید کرنے والی عوام اور فوج انکے ساتھ نہ ہوتی تو کسی صورت وہ اس قدر ظلم و جبر نہ کر پاتا۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ کسی بھی شخصیت کو سر پر چڑھانے سے پرہیز کریں ۔اسلام ایک ایسا دین ہے جو زندگی کے ہر پہلو میں اعتدال کو پسند کرتا ہے۔ قرآن و سنت میں بار بار ہمیں درمیانی راستہ اختیار کرنے کی تعلیم دی گئی ہے چنانچہ نبی کریم ؐ نے خود اپنی تعریف میں مبالغہ سے منع فرمایا اور فرمایا کہ مجھے ایسے نہ بڑھاؤ جیسے عیسائیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو خدا بنا دیا، اس سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ کسی بھی شخصیت کی محبت میں حق کو نہ چھوڑا جائے۔شخصیت پرستی نہ صرف ایک فکری زوال کی علامت ہے بلکہ قومی تباہی کا پیش خیمہ بھی ہے ۔ہمیں چاہیے کہ ہم شخصیت کو عزت دیں، مگر اندھی پوجا سے بچیں، فرد کی عظمت اصولوں میں ہے نہ کہ شخصیتوں میں۔ اگر ہم ایک باشعور آزاد اور ترقی یافتہ قوم بننا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم سچ اور انصاف کا ساتھ دیں، چاہے وہ کسی کے بھی خلاف ہو، شخصیتوں کا احترام ضرور کریں لیکن ان کو حق و باطل کا معیار نہ بنائیں۔