باشعور لوگوں کے بقول ،ہم نے اس زمین کو بازار بنادیا ، جنگل کی قیمت لگادی، دریا کو خرید وفروخت کا حصہ بنادیااور ہوا کو زہریلا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی،جس کے نتیجے میںاب چہار سُوہریالی کی جگہ بنجر پن ، پرندوں کی جگہ خاموشی اور تازہ ہوا کی جگہ آلودہ سانسیں ہماری زندگی کا حصہ بن چکی ہے۔کیونکہ تعمیر و ترقی کے نام پر درختوں کے کاٹنے کا سلسلۂ تساسل ہمیں تباہ حال بنارہا ہے۔ظاہر ہےکہ جو درخت کٹتا ہے،اُس سے ہماری ایک سانس چھن جاتی ہے، ایک سایہ مٹتا ہے، ایک اُمید دم توڑتی ہے۔ درخت صرف آکسیجن نہیں دیتےبلکہ یہ زمین کو تھامتے ہیں، بارش کو بلاتے ہیں، پرندوں کوبسیرا اور انسانوں کو زندگی دیتے ہیں۔ذرا اُن دنوں یاد کریں جب ہم بچپن میں درخت کے نیچے بیٹھ کر چھائوںلیتے تھے، اپنے بزرگوں کے ساتھ درختوں کے نیچے بیٹھ کر کہانیاں سُنتے تھے، وہ سب کچھ آج کے نسل کیلئے خواب بن گیا ہے۔ شہروں میں اب درختوں کی تعدا د گنتی میں رہ گئی ہےجبکہ دیہات میںلکڑی کاٹنے کی دوڑ جاری ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق دُنیا ہر سال 150بیلین سے بھی زائد درخت کاٹے جاتے ہیںاور اس سے آدھے بھی کم درخت دوبارہ لگائے جاتے ہیں۔ ہماری وادیٔ کشمیر جو کبھی درختوں کی دولت سے مالا مال تھی، آج اس میں جنگلات کی شرح بہت حد تک کم ہوچکی ہے۔ ہم نے اپنے شہر کو جدید بنانے کیلئے جو درخت کاٹے، ان کے بدلے کیا ملا؟ آلودہ فضا، گرمی کی شدت اور بیمار سانسیں۔ کسی حد تک سڑکیں تو بن گئیںمگر جب ان پر چلتے ہیں تو سایہ نہیں ملتا، صرف سورج کی تپش ملتی ہے۔بے شک یہ شجر صرف لکڑیاں نہیں بلکہ یہ سانسیں ، سایےاور مستقبل کے خواب ہوتے ہیں۔
اب بھی وقت ہے کہ ہم سنبھل جائیں ، تغافل چھوڑیں اور اس بات کو ذہن نشین کرلیںکہ جو درخت ہم آج لگائیںگے، وہ کل ہماری کی نسلوں کو زندگی دےگا۔کیونکہ شجر کاری ایک طویل مدتی سرمایہ کاری ہے، نہ صرف معیشت میںبلکہ انسانیت میں بھی یہ وہ عطیہ ہیںجو آنے والی نسلوں کو بغیر وصیت کے منتقل ہوجاتا ہے۔ ہم چاہیں تو اپنی نسل کو بینک بیلنس چھوڑ سکتے ہیںمگر وہ سانس جس پر اُن کی زندگی کا انحصار ہے،صرف درخت ہی دے سکتے ہیں۔ ذرا غور کریں کہ ہم میں سے ہر ایک سال میں صرف پانچ درخت لگائے تو سالانہ کئی لاکھ سے زائد درخت لگائے جاسکتے ہیں۔ یہ خواب نہیں، حقیقت بن سکتی ہے اگر ہم خود کو بدل لیں۔ اگر ہم ایک موبائل فون ، ایک کاریا ایک لباس پر ہزاروں روپے خرچ کرسکتے ہیں تو ایک درخت کیلئے چند منٹ اور چند روپے کیوں نہیں خرچ کرسکتے ؟ درخت لگانا صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ ہر انسان کی اجتماعی اور انفرادی ذمہ داری ہے۔کیاہی بہتر ہو کہ ہر اسکول ، کالج اور یونیورسٹی میں درخت لگانے کی مہم چلائی جائے، مسجدوںمیں صرف عبادت نہ ہوبلکہ درخت لگانے کی تربیت بھی ہو،درخت لگاناصدقہ جاریہ ہے، یہ نہ ختم ہونے والا نیکی کا عمل ہے۔ ایک درخت جو ہم نے لگایا وہ آنے والے کئی برسوں تک انسانوں ، پرندوں اور جانوروں کی خدمت کرتا رہےگا۔ وہ درخت ہمارےنام کی زندگی کی علامت رہے گا۔تعجب کا مقام ہے کہ آج کل کے بچے جب سکول جاتے ہیںتو ان کے نصاب میں ماحولیات کی کتابیں تو شامل ہوتی ہیںمگر ان کے ماحول میں درخت شامل نہیں ، وہ کتابوں میں ہریالی تو پڑھتے ہیں مگر راستے میں دھول دیکھتے ہیں، ان کا بچپن کنکریٹ کے جنگل میں گم ہوچکا ہے، ہم ان کو فطرت سے جدا کرکے ترقی کے نام پر کیسی دُنیا دے رہے ہیں؟ حکومت کو بھی چاہئے کہ درخت کاٹنے پر سخت سزا مقرر کرے اور شجرکاری کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرکے اُنہیںانعام دے۔ یہ کام کسی ایک ادارے ، کسی ایک حکومت یاکسی ایک مہم کا نہیں بلکہ پوری عوام کی اجتماعی شعور کا تقاضاہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو تعلیم کے ساتھ درختوں کا تحفہ بھی دینا ہوگا۔ لہٰذا درخت لگائیںکیونکہ یہ وہ دعا ہے جو مٹی سے اُگتی ہے، آسمان کو چھوتی ہے اور نسلوں کو چھائوں دیتی ہے۔ یہ زندگی ہے، یہ فطرت ہے ، یہ سکون ہے اور یہ خدا کی رحمت ہے۔درخت صرف لکڑی کا نام نہیں یہ خدا کی جانب سے زمین پر زندگی کے بکھرے ہوئے عکس ہیں،ان کو بچانا ، لگانااور پروان چڑھانا ہمارے ایمان ، ہماری اخلاقیات اور ہماری انسانیت کا تقاضاہے۔