سرینگر//پولیس نے سنیئر صحافی اور روزنامہ رائزنگ کشمیر کے مد یر اعلیٰ شجاعت بخاری کے قتل میں لشکر طیبہ کے ملوث ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ نوید جٹ عرف ابو حنظلہ اور پاکستان میں مقیم ایک کشمیری نوجوان سمیت4جنگجو اس قتل میں ملوث ہیں۔انسپکٹر جنرل پولیس ایس پی پانی نے چاروں جنگجوئوں کی تصاویر جاری کرتے ہوئے کہا کہ انکے پاس ٹھوس ثبوت ہیں،تاہم تحقیقات کے چلتے معلومات کا اشتراک نہیں کیا جاسکتا۔ سرینگر کی پریس کالونی میں14جون کو نامعلوم بندوق برداروں نے سید شجاعت بخاری کو 2ذاتی محافظوں سمیت گولیاں مار کر قتل کیا تھا۔ اس واقعہ کے15روز بعد پولیس نے اس بات کا انکشاف کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ قتل میں لشکر طیبہ کا ہاتھ ہے۔پولیس کنٹرول روم میں خصوصی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈی آئی جی وسطی کشمیر اور ایس ایس پی سرینگر کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پولیس کے صوبائی سربراہ سوئم پرکاش پانی نے کہا کہ تحقیقات کے دوران سازش سے متعلق مکمل کڑیاں ملائی گئیں اور یہ بات سامنے آئی کہ قتل کی سازش پاکستان میںرچائی گئی۔ تحقیقات کے دوران پتہ چلا ہے کہ ’’کشمیر فائٹ ،wordpress.comفیس بک اکاونٹ ’’کڈوا سچ کشمیر ‘‘ٹویٹر ہینڈل احمد خالداور ahmadkhalid@313 کے ذریعے مرحوم شجاعت کے خلاف فیس بک ، ٹویٹر اور دوسری سماجی وئب سائٹوں پر نفرت آمیز مہم شروع کی گئی تھی ۔ تحقیقات کے دوران سماجی وئب سائٹوں کی سروس فراہم کرنے والی انتظامیہ کے اشتراک سے ٹھوس ثبوت حاصل ہوئے جن سے پتہ چلا ہے کہ کالعدم تنظیم لشکر طیبہ سے وابستہ ملی ٹینٹوں نے مرحوم شجاعت بخاری کے خلاف پاکستان سے سوشل میڈیا کے ذریعے نفرت انگیز مہم چلائی ۔اب تک کی جانے والی تفتیش کے دوران معلوم ہوا ہے کہ مرحوم شجاعت بخاری کے خلاف ’’کشمیر فائٹ wordpress.com کے ذریعے جو شخص یہ منفی مہم چلا رہا تھا اُس کی شناخت شیخ سجاد گل عرف احمد گل ساکن ایچ ایم ٹی سرینگر کے بطور ہوگئی جو کالعدم تنظیم لشکر طیبہ کیلئے کا م کر رہا ہے اور وہ اس وقت پاکستان میں مقیم ہے۔انہوں نے کہا کہ سجاد گل نے ہی بخاری کے قتل کا منصوبہ تیار کیا اور اسکے لئے صدر اسپتال سے فرار ہوئے لشکر جنگجو نوید جٹھ کی خدمات حاصل کی گئیں اور اس میں مزید 2جنگجوئوںآزاد احمد ملک عرف د ادا عرف زیدساکن آرونی بجبہاڑہ اور مظفر احمد عرف طلحہ ساکن سوپٹ قاضی گنڈ کو بھی اس میں شامل کیا گیا۔دادا دسمبر2016سے اور مظفر جنوری 2018 سے مطلوب ہے۔سجاد گل کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس نے بیرون ریاست تعلیم حاصل کی،جبکہ مارچ2017 میں پاسپورٹ پر پاکستان چلے گئے،جو آج تک وہی پر مقیم ہے۔آئی جی پی کشمیر نے بتایا کہ شیخ سجاد گل عرف احمد خالد مارچ2017میں ایک فراڈ یا جعلی پاسپورٹ حاصل کرکے پاکستان چلا گیااور اس معاملے کی تحقیقات جاری ہے ۔انہوں نے بتایا کہ اس سے پہلے پولیس تھانہ پارمپورہ میں سجاد گل کے خلاف ایک کیس زیر ایف آئی آر نمبر105/2016زیر دفعہ 7/25آر مز ایکٹ درج تھا اور مذکورہ شخص اس سے پہلے2002میں نئی دہلی میں بھی تشدد پسندانہ سر گرمیوں کی پاداش میں گرفتارہواتھا اور وہ کافی وقت کیلئے جیل میں بھی بند رہا ۔انہوں نے کہا کہ اس بات کی چھان بین شروع کردی گئی کہ سجاد گل کو نئی دہلی میں کن الزامات کی پاداش میں گرفتار کیا گیا تھا اور کس بنیاد پر اُسکی رہائی عمل میں لائی گئی ۔انسپکٹر جنرل پولیس نے دعویٰ کیا کہ پولیس کے پاس ٹھوس ثبوت ہیں،تاہم فی الوقت تحقیقاتی عمل جاری ہونے کی وجہ سے انہیں منظر عام پر نہیں لایا جاسکتا۔ انہوں نے بتایا کہ سرینگر پریس انکلیو میں یہ واقعہ پیش آنے کے بعد ہی موٹر سائیکل پر سوار3عسکریت پسندوں کی تصاویر کو جاری کیا گیا تھا۔