مجاہد عالم ندوی
لفظ شب فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں رات اور برات عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں آزادی ، ’’اس رات کو شبِ برات اس لیے کہتے ہیں کیونکہ اس رات میں اللّٰہ تعالیٰ بنوں کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر لوگوں کو جہنم سے نجات دیتا ہے ‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ دس صحابہ کرامؓ سے احادیث مروی ہیں جن میں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس رات کی فضیلت بیان فرمائی ہیں ، ان میں سے بعض احادیث سند کے اعتبار سے بیشک کچھ کمزور ہیں تاہم کمزور ہونے کی وجہ سے بعض علماء نے یہ کہہ دیا کہ اس رات کی فضیلت بے اصل ہے ، لیکن حضرات محدثین اور فقہاء کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو، لیکن اس کی تائید بہت سی احادیث سے ہو جائے تو اس کی کمزوری دور ہو جاتی ہے۔ لہٰذا جس رات کی فضیلت میں دس صحابہ کرامؓ سے روایات مروی ہوں، اس کو بے بنیاد اور بے اصل کہنا بہت غلط ہے ۔
امت مسلمہ کے جو خیرالقرون ہیں یعنی صحابہ کرام کا دور ، تابعین کا دور ، تبع تابعین کا دور ، اس میں بھی اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے ، لوگ اس رات میں عبادت کا خصوصی اہتمام کرتے رہے ہیں ۔ یہ فضیلت والی رات ہے ، اس رات میں عبادت کرنا باعثِ اجر و ثواب ہے اور اسکی خصوصی اہمیت ہے ۔
البتہ یہ بات درست ہے کہ اس رات میں عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں۔اس لئے نفلی عبادت جس قدر ہو سکے، اس رات میں انجام دی جائے ، نفل نماز پڑھیں ، قرآن کریم کی تلاوت کریں ، ذکر کریں ، تسبیح پڑھیں ، دعائیں کریں ، یہ ساری عبادتیں اس رات میں کی جاسکتی ہیں۔ویسے تو جس کا جب دل چاہے حلوہ پکا کر کھا لے ، لیکن خاص شب برات میں بڑےپیمانے پرحلوہ بنانے کا اہتمام یا آتش بازی کرنا درست نہیں بلکہ بدعت ہے۔
اس رات میں ایک اور عمل ہے جو ایک روایت سے ثابت ہے، کہ حضور پاکؐ جنت البقیع میں تشریف لے گئے ، اس لئے مسلمان اس بات کا اہتمام کرنے لگے کہ شبِ برات میں قبرستان جائیں ، لیکن یاد رکھئے، جو چیز رسول کریم ؐ سے جس درجہ میں ثابت ہو، اُسی درجے میں اسے رکھنا چاہیے، اس سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے ۔ لہٰذا ساری حیاتِ طیبہ میں رسول کریمؐ سے ایک مرتبہ جانا مروی ہے کہ آپؐ شبِ برات میں جنت البقیع تشریف لے گئے ۔ اس لئے تم بھی اگر زندگی میں ایک مرتبہ چلے جاؤ تو ٹھیک ہے ، لیکن ہر شب برات میں جانے کا اہتمام کرنا ، التزام کرنا اور اس کو ضروری سمجھنا ، اور اس کو شب برات کا لازمی حصہ سمجھنا، اس کے درجے سے آگے بڑھانے والی بات ہے ۔
ایک مسئلہ پندرہ شعبان کے روزے کا ہے ، اس کو بھی سمجھ لینا چاہیے ، وہ یہ کہ سارے ذخیرہ حدیث میں اس روزہ کے بارے میں صرف ایک روایت میں ہے کہ شب برات کے بعد والے دن روزہ رکھو، لیکن یہ روایت ضعیف ہے ۔لہٰذا اس روایت کی وجہ سے خاص پندرہ شعبان کے روزے کو سنت یا مستحب قرار دینا بعض علماء کے نزدیک درست نہیں، البتہ پورے شعبان کے مہینے میں روزہ رکھنے کی فضیلت ثابت ہے ، لیکن 28 اور 29 شعبان کو حضورؐ نے روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے کہ رمضان سے ایک دو روز پہلے روزہ مت رکھو ، تاکہ رمضان کے روزوں کے لئے انسان نشاط کے ساتھ تیا ر رہے ۔اللّٰہ تعالیٰ پوری امت کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
(رابطہ ۔ 8429816993)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شب ِبرأت ۔نجات کی رات