مشتاق تعظیم کشمیری
رمضان المبارک خالق کائنات کی طرف سے انسانیت کے لیے ایک عظیم الشان تحفہ اور بہت بڑا انعام ہے، جس کا ہر لمحہ، ہر ساعت اور ہر گھڑی نہایت قیمتی اور بابرکت ہے۔اسی رمضان المبارک کی راتوں میں ایک مبارک اور قدرومنزلت والی رات ایسی ہے، جس میں عبادت کرنا ہزار مہینے کی عبادت سے افضل ہے،جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ’’لیلتہُ القدر‘‘ کے نام سے موسوم کیا ہے۔ لیلتہ القدر کی عظمت ومنزلت اوراس کی اہمیت وفضیلت بتلانے کے لئے اتناہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی شان میں قرآن مجید کی ایک مکمل سورت نازل فرمائی ہے۔چنانچہ سب سے پہلے شب قدر کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا:’’بے شک ہم نے اسے (قرآن کریم کو) شب قدر میں نازل کیا ۔‘‘یعنی قرآن مجیدایسی بلندرُتبہ کتاب، جو ساری انسانیت کے لئے ہدایت نامہ ہے ،اِسی رات میں نازل ہوئی اور بطور خاص اس رات کو نزول کتاب کے لئے منتخب کیاگیا۔پھرآگے اللہ تعالیٰ نے اس کی عظمت شان کوبیان کرتے ہوئے فرمایا :’’اورتمہیں کچھ خبر بھی ہے کہ شب قدر کیاہے؟‘‘یعنی اس کی شان بہت بڑی اور اس کارُتبہ بہت بلند ہے ۔آگے ارشادہے :’’قدر کی رات (فضیلت میں) ایک ہزار مہینے سے بہتر ہے ۔‘‘ یعنی وہ عمل صالح جوشب قدر میں کیاجاتا ہے اس کا ثواب ایک ہزارگنا بڑھادیاجاتاہے۔ اللہ ربّ العزت نے یہاں مطلق خیر کا لفظ استعمال فرمایا کہ شب قدر ہزارمہینوں سے بہتر ہے،مگر کتنی بہترہے اس کو مخفی رکھا،جسے حق تعالیٰ کے بے پایاں الطاف واحسان کااندازہ ہوتاہے ،پھرفرمایا:’’ فرشتے اور جبرئیل امین اس رات اللہ کے حکم سے نازل ہوتے ہیں ہر کام کے لئے ۔یہ رات سلامتی والی ہے ،صبح کے طلوع ہونے تک‘‘ یعنی شب قدر ہر آفت اور ہر شَرسے سلامتی کاباعث ہے اور اس کا سبب اس کی بھلائی کی کثرت ہے، نیز اس رات کی ابتداء غروب آفتاب اور اس کی انتہا طلوع فجر ہے۔ شبِ قدر کی فضیلت روایات کی روشنی میںحضرت کعب احبارؓفرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کی کچھ ساعتوں کو منتخب کرکے اُن میں سے فرض نمازیں بنائیں، اور دنوں کو منتخب کرکے اُن میں سے جمعہ بنایا ،مہینوں کو منتخب کرکے اُن میں سے رمضان کا مہینہ بنایا، راتوں کو منتخب کرکے اُن میں سے شبِ قدر بنائی اور جگہوں کو منتخب کرکے اُن میں سے مساجد بنائیں۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لئے )کھڑا ہوا، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔‘‘(بخاری ومسلم) حدیث مبارک میں گناہوں کی معافی کے لئے دو شرطیں بیان کی گئیں :ایمان اور احتساب۔ ایمان کا مطلب یہ ہے کہ عبادت کرنے والا، مسلمان اور صحیح العقیدہ ہو ورنہ اللہ کے ہاں ایمان کے بغیر کوئی عبادت قابل قبول نہیں اور ثواب کی امید رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ریاء وغیرہ کسی بدنیتی سے کھڑا نہ ہو، بلکہ اخلاص کے ساتھ محض اللہ کی رضا اور ثواب کے حصول کی نیت سے کھڑا ہو۔علامہ خطابیؒ کہتے ہیں: اس کا مطلب یہ ہے کہ ثواب کا یقین کرکے بشاشت قلب سے کھڑا ہو،بوجھ سمجھ کر، بددلی کے ساتھ نہیں اوریہ کھلی ہوئی بات ہے کہ جس قدر ثواب کا یقین اور اعتقاد زیادہ ہو گا، اتنا ہی عبادت میں مشقت کابرداشت کرنا آسان ہو گا، یہی وجہ ہے کہ جو شخص قرب الٰہی میں جس قدر ترقی کرتا ہے عبادت میں اس کا انہماک زیادہ ہوتا جاتاہے ۔ایک اور روایت میں رسول اللہ ؐ نے ارشادفرمایا: ’’تمہارے اُوپر ایک مہینہ آنیوالاہے، جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے، جو شخص اس رات سے محروم رہے گا ،گویا وہ سارے خیر سے محروم رہے گا اور اس کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا مگر وہ شخص جو حقیقی محروم ہے ۔‘‘(ابن ماجہ)احادیث مبارکہ میں اس شب کو رمضان المبارک کے بالخصوص آخر ی عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرنے کی ترغیب ہے اوراس رات کے بارے میں اکابر علما، کے اقوال مختلف ہیں، جن کا حاصل یہ ہے کہ اوّل تو ہمیں رمضان کی ساری راتوں میں اللہ کی اطاعت و عبادت میں لگے رہنا چاہئے ، اگر یہ مشکل ہوتو آخری عشرے کی طاق راتوں میں شبِ قدر کی جستجو کرنی چاہئے ،اگر یہ بھی دشوار ہو تو آخری درجہ یہ ہے کہ کم از کم ستائیسو یں شب کو توغنیمت سمجھتے ہوئے اس کی جستجو میں لگنا چاہئے ۔البتہ اکثرعلماء کی رائے یہ ہے کہ لیلتہُ القدررمضان شریف کی ستائیسویں شب میں ہے ۔چنانچہ حافظ ابن حجرعسقلانی ؒ لکھتے ہیں: جمہور علماء ستائیسویں شب کو لَیْلَۃُ الْقَدْر کہتے ہیں۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ عدد طاق ہے اور طاق اعداد میں سا ت کا عدد زیادہ پسندیدہ ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سات زمین اور سات آسمان بنائے ،سات اَعْضَاء پر سجدہ مَشْروع فرمایا، طواف کے سات چکرمقرر کئے ، ہفتے کے سات دن بنائے اور جب یہ ثابت ہوگیا کہ سات کا عدد زیادہ پسندیدہ ہے تو پھر یہ رات رمضان کے آخری عشرے کی ساتویں رات ہونی چاہئے ۔(فتح الباری شرح بخاری) ، لیلۃُ القدر میں مغفرت سے محروم رہنے والے افرادرحمتوں اور برکتوں کی اس باغ وبہار میں کچھ ایسے حرماں نصیب اور خائب و خاسر لوگ بھی ہوتے ہیں، جو اپنے گناہوں کی پاداش میں شبِ قدرجیسی عظیم اور بابرکت رات کی فضیلتوں کے حصول سے اور بالخصوص مغفرتِ خداوندی سے محروم رہ جاتے ہیں، وہ کون لوگ ہیں ؟ حدیث میں اُن کی نشاندہی کی گئی ہے۔حضرت ابن عباسؓ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اِرشاد مَروی ہے، شبِ قدر میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتے زمین پر اُترتے ہیں اور ساری رات عبادت میں مشغول لوگوں سے سلام و مصافحہ کرکے اُن کی دعاؤں پر آمین کہتے ہوئے رات گزار کر صبح جب واپسی کا وقت ہوتا ہے تو حضرت جبرئیل سے دریافت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے امّتِ محمدیہؐ کے مومنوں کے ساتھ اُن کی ضروریات کے پورا کرنے کے بارے میں کیا معاملہ فرمایا؟ حضرت جبرئیل فرماتے ہیں :’’اللہ تعالیٰ نے اِس شبِ قدر میں ایمان والوں پر نظرِ رحمت فرمائی اور چار افراد کے علاوہ سب کے ساتھ درگذر اور مغفرت کا معاملہ فرمادیا‘‘۔یہ سُن کر حضرات صحابہ کرامؓ نے سوال کیا کہ وہ کون افراد ہوں گے ؟تو آپ ؐ نے ارشاد فرمایا:’’شراب کا عادی ، والدین کا نافرمان ،رشتہ قطع کرنے والااور کینہ پرور‘‘(شعب الایمان : 3421)
اللہ تعالیٰ ہمیں شب قدر کی رحمتوں سےفیض یاب کرے اور یہ شب ہمارے گناہوں کے مغفرت کاباعث بن جائے۔ آمین
شب قدر ۔بخشش و نجات کی رات