سرینگر//پولیس نے پریس کالونی سرینگر کے باہرفریڈم پارٹی کے متعدد کارکنوں کو اس وقت گرفتار کرلیا جب وہ تہاڑ جیل دلی میں نظر بند پارٹی سربراہ شبیر احمد شاہ کی جیل میں مسلسل بگڑتی صحت اور اُنہیں بہتر طبی سہولیات فراہم نہ کئے جانے کیخلاف احتجاجی مظاہرے کررہے تھے۔پارٹی کارکنان جمعرات کی صبح ریذیڈنسی روڑ سرینگر پر پریس انکلیو کے باہر جمع ہوئے اور نعرے بازی شروع کی۔ یہ مظاہرہ پولیس کی طرف سے پارٹی دفتر سیل کئے جانے اور پارٹی کے سیکریٹری جنرل مولانا محمد عبد اللہ طاری کو صبح سویرے گرفتار کرنے کے باوجودکیا گیا۔ مظاہرین کے ہاتھوں میں بینر اور پلے کارڈ تھے جن پرشبیر احمدشاہ کی بگڑتی صحت کی عکاسی کی گئی تھی۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ شبیر شاہ کو فی الفور رہا کیا جائے تاکہ اُنہیں علاج و معالجہ فراہم کیا جاسکے کیونکہ اُن کی مسلسل قید و بند سے اُن کی زندگی خطرے میں مبتلاء ہوگئی ہے۔اسی دوران پولیس نے سینئر پارٹی لیڈر ایڈوکیٹ فیاض احمد سوداگر کی قیادت میں مظاہرین کے خلاف کارروائی عمل میں لائی اور کئی مظاہرین کو گرفتارکرکے پولیس اسٹیشن کوٹھی باغ میں بند کردیا جن میں محمد یوسف میر،مولوی مدثر، محمد ابراہیم اور محمد ثابت شامل تھے۔مظاہرین کا کہنا تھا کہ بارہ سال پرانے کیس میں گرفتار کرنا شبیر احمد شاہ کی ذات کیخلاف ایک سوچی سمجھی سازش ہے جو گذشتہ پانچ دہائیوں کے عرصہ سے جموں کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت کیلئے محو جد و جہد ہیں، شبیر شاہ نے اپنی منفردسیاسی فکر کی پاداش میں زندگی کے کم و بیش تیس سال مختلف جیلوں اور اذیت خانوں میں ہی گزارے ہیں جو اس بات کا مُنہ بولتا ثبوت ہے کہ انہیںکس ظالمانہ طرز پر سیاسی انتقام گیری کا نشانہ بنایا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ تمام مظالم کے باوجود اپنی سیاسی سوچ پر مستقل مزاجی کے ساتھ ڈٹے رہنے کی بدولت ہی انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اُنہیں ’’ضمیر کے قیدی‘‘ کا خطاب بھی دیا۔انہوں نے کہا کہ عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کرنے کی نوٹس ملنے کے بعد تہاڑ جیل حکام نے شبیر شاہ کو پہلے جے بی پنتھ اور بعد میں صفدر جنگ اسپتال لیا جہاں ڈاکٹروں نے اُنہیں پیس میکر لگانے کی صلاح دی۔ڈاکٹروں کی اس صلاح سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ شاہ کس قدرنازک بیماری میں مبتلا ہیں، اس لئے ہمارا پر زور مطالبہ ہے کہ شبیر شاہ کو فوری طور AIIMSجیسے کسی معتبر ادارے میں داخل کیا جائے۔مظاہرین کا کہنا تھا کہ شبیر احمد شاہ کے انتہائی حساس عارضہ قلب میں مبتلا ہو نے کے بعد جب اُن کے گھروالوں نے اس ضمن میں اسپتال کیلئے کاغذات کا مطالبہ کیا تو اُنہیں عدالت سے رجوع کرنے کو کہا گیا، جب عدالت کے پاس گئے تو وہاں کاغذات کیلئے ایک ہفتے کا وقت دیا گیا،اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح بھارت کے سبھی ادارے شبیر شاہ کی زندگی کے پیچھے پڑے ہیں اور کس طرح اُنہیں نقصان پہنچانے کے طریقے اختیار کئے جارہے ہیں۔