سرینگر// ’’تحقیقاتی ایجنسیوں کی مہم اورمیڈیاٹرائل کوکردارکشی ‘‘سے تعبیرکرتے ہوئے فریڈم پارٹی کے سیکرٹری جنرل مولانامحمدعبداللہ طاری نے واضح کیاہے کہ مبنی برحق جدوجہدکی علم اُٹھانا شبیراحمدشاہ کاسب سے بڑاجرم ہے ۔انہوں نے NIAاورEDکی چھاپہ ماری ،گرفتاریوں اورالزام تراشیوں کومنصوبہ بندسازش کی کڑی قراردیتے ہوئے کہاکہ بھارت کشمیریوں کی جائزتحریک کوبدنام اورناکام بنانے کیلئے مکروہ حربے آزمارہاہے۔ فریڈم پارٹی کے سیکرٹری جنرل مولانامحمدعبداللہ طاری نے کہاہے کہ بھارت کی ایک ایجنسی انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے سینئر حریت لیڈر اور ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی کے چیرمین شبیر احمد شاہ کیخلاف دلی کی ایک عدالت میں چارج شیٹ پیش کیا ہے۔مولانامحمدعبداللہ طاری کے بقول شبیر احمد شاہ کیخلاف میڈیا کے ذریعے کردار کشی اور عدالت میں بے بنیاد اور جھوٹے الزامات عائد کرکے اور انہیں جسمانی اذیتوں سے دوچار کرنے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ جموں کشمیر کے عوام کو تحریک آزادی اور اس کی قیادت کرنے والوں سے متنفر کیا جائے ۔ شبیر احمد شاہ پر الزام عاید کیا جارہا ہے کہ اُنہوں نے ’’بے پناہ‘‘ جائیدادیں اکھٹی کرلی ہیں۔اس ایک بات کو لیکر من گھڑت داستانیں تیار کی گئی ہیں اور ایسا تاثر پیدا کرنے کی سعی لا حاصل کی جارہی ہے جیسے شبیر شاہ کوئی مزاحمتی لیڈر نہیں بلکہ اُن کا سارا مقصد حصول جائداد ہے۔ اس حوالے سے چند حقائق منظر عام پر لانا ضروری ہے۔فریڈم پارٹی کے سیکرٹری جنرل نے کہاکہ ای ڈی کے چارج شیٹ میں شبیر احمد شاہ سے متعلق واحد سچائی یہ ہے کہ وہ جموں کشمیر کے خطے کو متنازعہ سمجھتے ہیں اور اس کے حل کیلئے سیاسی طور پر سر گرم عمل ہیں۔انہوں نے 1968سے لیکر اپنے سیاسی عقائد کی پرورش کی ہے اور ان پر قائم ہیں۔ شبیر احمد شاہ نے تنازعہ کشمیر کے پر ا ُمن حل کی تلاش میں اپنی زندگی کے تیس سال جیلوں میں گزارے ہیں ۔مولانامحمدعبداللہ طاری نے کہاکہ شبیر احمد شاہ کیخلاف یہ بھی الزام عائد کیا گیا ہے کہ پاکستان میں مقیم حافظ سعید نے اُن سے فون پر بات کی ہے۔ بھارتی میڈیا اور ای ڈی کی سمجھ میں یہ معمولی بات بھی نہیں آرہی ہے کہ شبیر شاہ کوئی ایرا غیرا نتھو کھیرا نہیں بلکہ جد و جہد آزادی برائے جموں کشمیر کے ایک قابل عزت نمائندے ہیں۔ وہ چونکہ ایک سیاسی شخص ہیں اس لئے کوئی بھی اور کہیں سے بھی متعلقین اُن کے ساتھ فون پر رابطہ کرتے ہیں اور اُن کی آراء جاننا چاہتے ہیں۔پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شبیرشاہ ایک حلیم طبیعت کے حامل شخص ہیں اور کسی کا بھی فون خود لیتے ہیں۔ اس بات کو لیکر رائی کا پہاڑ بنانا اور اُنہیں نام نہاد معاملات میں ملوث کرنے کی کوششیں صرف شر پسندانہ ہی قرار دی جاسکتی ہیں۔ دوسری طرف بیرونی ٖممالک سے نام نہاد فنڈس کی ہوا کھڑا کرکے یہ باور کرانے کی کوششیں کی جارہی ہیں کہ رواں جدوجہد مقامی نویت کی نہیں بلکہ بیرونی ممالک کی شہہ پر قائم ہے۔ حالانکہ شبیر احمد شاہ، جنہیں ایمنسٹی انٹرنیشنل نامی حقوق انسانی کی عالمی تنظیم نے پہلے ہی’’ ضمیر کا قیدی‘‘ قرار دیدیا ہے، کیلئے اسیری کوئی نئی بات نہیں ہے ۔فریڈم پارٹی رہنماء نے کہاکہ شبیر احمد شاہ پر عائد جوفرضی الزام عائد کیا گیا ہے اُس کا تعلق سال 2005سے ہے اور اس پر پہلے ہی عدالت نے فیصلہ سناکر کیس کے ملزمان کو باعزت بری کردیا ہے۔شبیر احمد شاہ کو ایک پرانے اور حل شدہ کیس میں دلی اغوا کرکے لیجانا اور وہاں اخلاقی مجرموں کے رحم و کرم پر چھوڑنا اس بات کی دلیل ہے کہ بھارت نے محبوس رہنماء کو جسمانی طور نقصان پہنچانے کی ٹھان لی ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ میڈیا ٹرائیل کے ذریعے شبیر احمد شاہ اور دیگر حریت پسند قائدین کیخلاف ایسی ذہر افشانی کا مکروہ کھیل کھیلا جارہا ہے جس کا مقصد جملہ آزادی پسند قیادت کی اعتباریت کو نقصان پہنچانا ہے۔صاف ظاہر ہے کہ حکومت ہند کے پاس شبیر احمد شاہ کوقید میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں تھا اس لئے ایک بہانہ تیار کرکے اور کردار کشی کے ذریعے مخالف ہوا کھڑا کرنے کی ایک مذموم کوشش کرکے اُنہیں اور باقی ماندہ حریت پسندوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مولانامحمدعبداللہ طاری کے بقول اصل میں بھارت کے قومی میڈیا کے ذریعے کشمیریوںکی حق پر مبنی جدوجہد کو بدنام کرنے کی منصوبہ بندکوششیں ہورہی ہیںاور اس جد و جہد کی نمائندگی کرنے والے شبیر احمد شاہ کیخلاف بد ظنی پیدا کرنا اسی منصوبے کا حصہ ہے ۔بھارت نے شبیر احمد شاہ کو مشکوک اور غیر معتبر ثابت کرنے کیلئے جو بچگانہ طرز عمل اختیار کر رکھا ہے اس سے بھی یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ بھارت کے منصوبے کیا ہیں۔حالانکہ شبیر احمد شاہ کی زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح ہے جو ہمیشہ پر امن جدوجہد کے قائل رہے ہیں اور اس سلسلے میں ان کی ساری زندگی گواہ ہے۔ البتہ وہ نہتے عوام پر ہورہے ظلم پر خاموش نہیں رہے ہیں اور اُن کا یہی جرم بھارت کے سامنے ناقابل معافی ہے۔انہوں نے کہاکہ چونکہ شبیر احمد شاہ جس پر امن سیاست کی وکالت کرتے آئے ہیں اُس کا تقاضا ہے کہ انسانی حقوق کے عالمی ادارے مثلاً ایمنسٹی انٹرنیشنل اورہیومن رائٹس واچ وغیرہ آگے آکرشبیر احمد شاہ کی رہائی میں اپنا مؤثر کردار ادا کریں۔انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی منصبی ذمہ داری ہے کہ وہ شبیر شاہ جیسے سیاسی لیڈر کی حفاظت کیلئے اقدامات کریں کیونکہ اُنہیں جیل کے اندر بھی انتہائی سنگین صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔