نوائےسروش
ماسٹر طارق ابرہیم سوہل
اسے گردش زمانہ کہیں یا پھر ہماری غفلت کا شاخسانہ کہ مال و منال اور حسن و جمال کے دلفریب مناظر نے لوگوں کی اکثریت کی سوچ میں ایک فتور ڈال دیا ہے کہ تخلیق حیات کے مقصد کو سمجھنے کی لیاقت مفقود ہو چکی ہے اور اس وباء نے عالم دنیا کی گیرائی و گہرائی میں ہر شعبے سے وابستہ انسان کو کسی نہ کسی طرح، اپنے آہنی پنجوں میں جکڑ دیا ہےاور اس باغیانہ روش اور شاطرانہ چال سے ،ہر طرف ظلم و ستم، حق تلفی اور خیانت کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ستم ظریفی یہ کہ اس معرکے، کے لاؤ و لشکر میں تعلیم یافتہ افراد کی اکثریت صف اول میں لوٹ مار کے لئے بر سر پیکار ہیں۔جہاں حکیموں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، جہاں چوکیداری کے پہریدار بٹھائے جاتے ہیں وہیں ہے ڈکیتی کی وارداتیں بڑھ رہی ہیں۔
دنیا کو بقدر ضرورت حاصل کرنا اگرچہ ہمارے ایمان کا لازمی حصہ ہے تاہم اپنا سارا وقت اور اپنی تماتر صلاحیتیں حصول دنیا میں صرف کرنا دانائی کی دلیل نہیں ۔ہر انسان کی زندگی کے لمحات انتہائی گراں قدر اور قیمتی ہیں اور عربی میں ایک محاورہ ہے،الوقت اثمن من الذھب ،یعنی وقت سونے سے بھی زیادہ قیمتی ہے۔لہٰذا اپنی زندگی کے ان گراںمایہ لمحات کو اپنی دنیا و آخرت کی فکر میں صرف کرنا ہی ہماری عقل سلیم اور ہمارے ایمان و اعتقاد کا تقاضا ہے۔
مجھے انتہائی کلفت و رنجش ہوتی ہے، جب میں دیکھتا ہوں کہ کس طرح سے ہمارے کچھ نوجوان اور چند سن رسیدہ افراد بھی اپنے قیمتی وقت کو لا یعنی اور لا حاصل کاموں میں ضائع کر رہے ہیں اور پھر علی الخصوص ہر کس و نا کس نے سیاسی مباحثوں اور مخالفت کو تو اپنی زندگی کا واحد مقصد بنایا ہے، جس سے عوام میں منافرت اور انتشار کو ہوا ملتی ہے اور اسکے نتائج بہر حال نقصان دہ ہیں ۔
نوجوان نسل کو میرا یہ مشورہ ہے کہ آپکی زندگی قیمتی ہے، آپکا وقت بھی بہت قیمتی ہے، اس لئے سیاسی مباحثوں میں اپنا وقت ضائع کرنے سے گریز کریں ،کیونکہ والدین نے آپ سے بہت ساری امیدیں وابستہ کر رکھیں ہیں اور آپکی پرورش اور تعلیم و تربیت میں اپنے جگر کے لہو کی بوند بوند نچوڑ کر اور اپنے سارے آرام کو آپ کے مستقبل کے لئے قربان کر کے، آپ سے بہت ساری امیدیں وابستہ کر رکھیں ہیں، تاکہ کل جہاں آپ نہ صرف انکے بڑھاپے میں انکا سہارا بنیں گے بلکہ ایک پورے خاندان کی رہبری و رہنمائی اور تعلیم و تربیت کا ذریعہ اور ملک و قوم کی خوشحالی کے ضامن بنیںگے۔فی الحال والدین کی اکثریت اپنی اولاد کی سوچ اور کردار سے دل برداشتہ اور رنجیدہ ہیں اور اس تکلیف کی شدت میں اور بھی ،تب اضافہ ہو جاتا ہے جب اولاد تیس برس کی عمر کی لکیر پار کرنے کے بعد بھی خود کو نا بالغ سمجھتی ہے اور والدین کے ضعیف کندھوں پے اپنی عیاشی کا اور ذہن پے خدشات کا بوجھ ڈالتی ہے ۔
ماں کی محبت اور باپ کی شفقت کے سایوں میں رہ کر بھی جو اولاد اپنے بچپن اور پھر اپنی جوانی کو زندگی میں درپیش آنے والے حالات کے لئے آراستہ و پیراستہ نہیں کر سکتی ہے، ایسی اولاد بے شک ماں باپ کے سایے سے محروم ہوتے ہی ہر محاذ پے شکست سے دو چار ہوتی ہے اور کردار سے عاری ایسی اولاد کی زندگی پورے سماج کے لئے وبال ِجان بن جاتی ہے۔
دور حاضر کی مادی حرص و ہوس اور ملمع سازی نے حق و باطل کی تمیز کو خلط ملط کر دیا ہے اور بہیمی قوتوں نے انسانی سوچ کو اپنی آہنی گرفت میں محبوس کر دیا۔جب صورتحال اس مرحلے پے پہنچ جائے تو پھر رشتوں کی بقاء خود غرضی کے آتشیں شعلوں میں جھلس جاتی ہے اور ہر طرف بے چینی اور خلفشار کا سیلاب امڈ آتا ہے۔ بنی نوع انسان کو اس تشویشناک صورتحال سے نجات دلانے کے لئے ایک ایسے لشکر کی ضرورت ہے، جس کا ہر سپاہی اپنی زندگی کے لمحات کو اولاد آدم کی بھلائی کے لئے وقف کرنے کو ،ایک عظیم سعادت سمجھتا ہو مگر ایسی مثبت سوچ کو دل و دماغ کی گہرایوں میں نقش کرنے کے لئے ہمیں اس عظیم ضابطہ اخلاق کی شقوں کا مطالعہ کرنا ہوگا جس عظیم ضابطہ اخلاق میں معیار حق کے بلند میناروں سے صراط مستقیم کی شاہراہیں منور ہوتیں ۔
سبق پڑھ پھر صداقت کا عدالت کاشجاعت کا
لیا جائےگا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
یہی مقصود فطرت ہے، یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری، محبت کی فراوانی (اقبال)
صداقت، عدالت اور شجاعت ایسے سہگانہ راز ہیں جنہیں سمجھنے کے لئے فرقان حمید اور فرمودات صاحب وحی، کا مطالعہ لازمی ہی نہیں بلکہ فرض عین بھی ہے اور یہی وہ نسخہ کیمیا ہے، جسکی بدولت انسان خالق و مخلوق کے فرق اور عبادت کی روح کو سمجھ کر بندگی کے اعلی مرتبے پے پہنچ کر پوری انسانیت کے لئے امن و سکون کا پیکر بن جاتا ہے اور انسان کا طائر فکر زمین کے تنگ و تاریک تہہ خانوں سے نکل کرے افلاک کی بلندیوں میں پرواز کرنے لگتا ہے اور شب وروز ، ہر لمحہ اور ہر مقام ہے نفس امارہ کی یلغار کو تہ تیغ کر کے ،رشک چمن بن جاتا ہے ۔ شاید کہ دل میں اتر جائے میری بات !
رابطہ۔ 9858018662