شاہ فیصل کشمیر کی سرزمین پر اکیسویں صدی میں عزت اور شہرت کی بلندیاں چھونے والا سب سے بڑا نام ہے ۔اس صدی میں کوئی دوسری ایسی ہستی ابھی تک پیدا نہیں ہوئی جس کی علمی اور ذہنی صلاحیتوں سے اس سرزمین کا نام سربلند ہوا ۔ قریباً ڈیڑھ ارب کی وسیع آبادی میں یہی وہ فرد تھا جس نے سب سے بڑے اور باوقار امتحان میں اول درجہ حاصل کیا ۔اس اعزاز پر کیوں نہ اس سرزمین کو ناز ہو جس کی فضائوں میں اس کا جنم ہوا۔ریاست میں اس کا تقرر ہوا تو اس نے فہیم ، متین ،دیانتدار ، مخلص، خدمت خلق کاخواہش مند ہونے کا امتحان بھی اول درجے میں پاس کیا چنانچہ بگڑے ہوئے نظام اور تباہ شدہ اداروںکو درست کرنے کیلئے اس سے زیادہ کس سے امیدیں وابستہ کی جاسکتی تھیں۔اور جب امیدوں کا ایک ہمالہ اس کی ذات سے وابستہ ہوا تو اچانک یہ خبر سنی گئی کہ شاہ فیصل نے بڑھتی ہوئی قتل و غارت گری اور نئی دہلی کی پالیسیوں کیخلاف احتجاج کے طور پر استعفیٰ دے دیا ۔اس خبر سے سرزمین کشمیر کے ہر حساس فرد کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی ۔پھر جب شاہ فیصل نے سیاست کے میدان میں آنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی ریاست کے عوام کی بہتر خدمت کرنے کیلئے سیاست میں آنا چاہتے ہیں تو سوالوں کا ایک طوفان ذہنوں میں پیدا ہوا ۔ یہ خبریں بھی گشت کرنے لگیں کہ وہ نیشنل کانفرنس میں شامل ہورہے ہیں لیکن انہوں نے کہا کہ وہ نوجوانوں کے ساتھ صلاح مشورے کرنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کریں گے۔اس سے پہلے انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ بزرگ رہنما سید علی شاہ گیلانی کی حریت میں شامل ہونا چاہتے ہیں لیکن اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حریت والے الیکشن نہیں لڑتے تو وہ وہاں جاکر کیا کریں گے ۔ان واقعات اور ان باتوں کے بعد ایسا لگا کہ آسماں کا کوئی روشن ستارہ ٹوٹ کر زمین پر گر آیا ۔خود ان کی باتوں سے وہ تضاد بے نقاب ہوا جو ان کے فیصلوں پر بڑے گہرے سوال پیدا کررہا ہے ۔وہ خود کہتے ہیں کہ وہ اس لئے نہیں بنے ہیں کہ نظام سے باہر رہ کر کوئی سیاست کریں اور اس کے ساتھ جب وہ قتل و غارتگری کے خلاف احتجاج کے طور پر مستعفی ہوتے ہیں تو نظام کیخلاف ہی بغاوت کرکے اس سے الگ ہونے کا اعلان کرتے ہیں ۔
بے شمار سوالوںمیںجو پہلا سوال ذہن میں آتا ہے،وہ یہ ہے کہ کیا انہوں نے مستعفی ہونے کا فیصلہ محض جذبات میں آکر کیا ۔ کیااستعفیٰ تحریر کرتے وقت ان کے ذہن میں بالکل کچھ نہیں تھا کہ وہ اس کے بعد کیا کرسکتے ہیں اور انہیں کیا کرنا ہے ۔اس میں شک نہیں کہ کشمیر میں تشدد کی جو آندھی چل رہی ہے، اٹھتی ہوئی جوانیاں اس کی نذر ہورہی ہیں اور یہ حالت کسی بھی حساس کشمیری کو بے چین کرنے کیلئے کافی ہے ۔ انہوں نے استعفیٰ دیکر ہندوستان اوربیرونی دنیا کو ضروراس صورتحال کی طرف متوجہ کیا لیکن انہیں بھی معلوم تھا کہ اس سے کوئی ایسی تبدیلی پیدا نہیں ہوسکتی کہ کم از کم ان کی قربانی کا کوئی ثمر اس آبادی کو حاصل ہوتا جو اس وقت تشدد کا عذاب جھیل رہی ہے ۔ا جتماعی قتل و غارت گری کے کتنے ہی واقعات کے عالمی ردعمل نے کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی تو ایک استعفیٰ کیا کرتا ۔پھر بھی یہ بڑے دل گردے والا فیصلہ تھا جو شاہ فیصل ہی لے سکتا تھا مگر کوئی اتنا بڑا فیصلہ یہ سوچے بنا کیسے لے سکتا ہے کہ اس کے بعد وہ ایسا کیا کردار ادا کرسکتا ہے جو اس سے بھی بڑا ہو ۔ بیروکریسی کو لات مار کر ایک ہی راستہ باقی بچتا ہے اوروہ ہے سیاسی میدان میں کود جانے کا مگر کونسی سیاست ۔اس کا فیصلہ کئے بنا ء وہ کیسے مستعفی ہونے کا فیصلہ کرسکتے تھے ۔ کشمیر کی زمینی صورتحال کا پورا نقشہ ان کے سامنے تھا اور وہ جانتے تھے کہ نوجوان خود کنفیوژن کی دھند میں گھرے ہوئے ہیں ۔اس دھند میں کوئی متفقہ رائے پیدا ہونے کا ذرا بھی امکان نہیں جو ان کی رہنمائی کرے ۔اس کے باوجود وہ نوجوانوں سے مشورے لینے لگے تو ہزار مشورے آرہے ہیں جن میں کوئی کسی کے ساتھ میل نہیں کھاتا ۔
یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ شاہ فیصل جیسا ذہین بیروکریٹ یہ سمجھنے سے قاصر ہو کہ سیاسی میدان میں آنے کا مطلب کیا ہے۔ سیاست کی دنیا میں ایک چائے والا ہندوستان جیسے ملک کا وزیراعظم بن سکتا ہے لیکن چائے والا بیرو کریٹ نہیں بن سکتا ۔وہ یقینا یہ بھی جانتے ہیں کہ مروجہ جمہوری نظام کی سیاست میں غنڈے بھی اعلیٰ مقام حاصل کرسکتے ہیں، چور بھی ، بددیانت بھی ، جاہل بھی ، نااہل بھی اور سمگلر بھی لیکن کوئی جاہل، ان پڑھ ،نااہل اور غنڈہ بیروکریٹ نہیں بن سکتا ۔بیروکریٹ بننے کے لئے تعلیم اور صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہے اور فیصلے کرنے والے ، پالیسیاں بنانے والے ، منصوبے ترتیب دینے والے، اداروں کو چلانے والے ،انہیں بنانے اور بگاڑنے والے یہی لوگ ہوتے ہیں سیاست داں نہیں ۔آئین سازی اور قانون سازی کے پیچھے بھی بیروکریسی کے مشورے ہوتے ہیں اور وہی مسودے بھی بناتے ہیں ۔نئی ضرورتوں کے خیال بھی انہی کے ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں ۔نقشہ راہ وہی بناتے ہیں ، سیاست داں کریڈٹ لے جاتے ہیں ۔اب کوئی شیخ محمد عبداللہ پیدا ہونے کا بھی امکان نہیں جو پوری آبادی پر اپنی شخصیت کا سحر طاری کرکے ایسے فیصلے کرے جن سے اختلاف رکھنے والے بھی اختلاف کا اظہار نہ کرسکیں ۔ اب فیصلے کرنے والے گلیوں اورکوچوں میں بہت پیدا ہوتے ہیں ۔اور ہر کوئی دوسرے کو غدار قرار دیتا ہے۔قومی دھارے اور مزاحمتی سیاست میں ایک وسیع تر خلیج ہے اور کسی معجزے کا امکان نہیں کہ جو دونوں دھاروں کو کسی ایک بات پر مجتمع کرکے جدوجہد کی معتبر اور متفقہ راہ استوار کرے ۔جو قوم اس طرح کے انتشار کی شکار ہو، اس کے لئے نجات کی راہیں بہت محدود ہوتی ہیں اور اگر شاہ فیصل نجات کی راہ تلاش کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اس انتشار کا حصہ بننے کی غلطی کرنے کے بجائے اس سے الگ کوئی راہ ڈھونڈنی ہوگی ۔
کشمیر میں سیاست کے دو الگ اور متضاد دھارے ہیں اور دونوں کے اندر بھی بہت سارے دھارے ہیں ۔قومی دھارے کی سیاست کی بداعمالیوں نے ہی مزاحمتی سیاست کو جنم دیا اور مزاحمتی سیاست نے ابھی تک یہ طے نہیں کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر ایک مذہبی مسئلہ ہے یا سیاسی مسئلہ ۔ وہ یہ بھی نہیں طے کرسکی ہے کہ جدوجہد پرامن ہے یا عسکری ۔ وہ ان تضادات کو ایک دوسرے میں گڑ مڈ کرکے اپنی قیادت کا بھر م قائم رکھ رہی ہے ۔ زمین پر جو کچھ ہورہا ہے، اس میں ان نوجوانوں کا ہاتھ ہے جو اپنی جانیں ہتھیلی پر لیکر پتھر یا بندوق لیکر ثابت قدم ہیں لیکن اس جدوجہد کی کامیابی کیلئے بھی نظم اور متحدہ قیادت کا ہونا ضروری ہے جو موجود نہیں ۔اب کونسی سیاست باقی بچتی ہے جس میں شاہ فیصل جیسی شخصیت کوئی موثر کردار ادا کرسکتی ہے۔نیشنل کانفرنس ایک ایسی جماعت ہے جس کی اپنی ایک تاریخ ہے اور جس کی جڑیں بھی گہری ہیں لیکن جب شاہ فیصل جیسا شخص اس جماعت میں شامل ہوگا تو تنظیم کے کسی اجلاس میں اس کے آگے وہ کارکن بھی ہوگا جو تیس چالیس سال سے وفاداری نبھارہا ہے، اس کے سامنے شاہ فیصل کی حیثیت ایک جونیئر رکن کی ہوگی ۔حریت (گ ) میں وہ جائیں گے تو شاید واحد فرد ہوں گے جن کے چہرے پر داڑھی نہیں ہوگی اور ہوسکتا ہے کہ پہلا اعتراض ان کی داڑھی پر ہی ہو ۔ہماری سیاست کا المیہ ہی یہی ہے کہ بڑے اور بنیادی معاملات کو فروعی معاملات میں غرق کردیا گیا ہے ۔شاہ فیصل کا ذہن بڑے اور بنیادی معاملات کے سوا اپنے اندر کچھ نہیں سما سکتا ،اس لئے اس کے لئے کہیں کوئی جگہ موجود نہیں ۔فیصل کا استعفیٰ ایک انقلابی قدم تھا، تمام سیاسی قوتوں کو اس کا استقبال کرنا چاہئے تھااور اسے اپنے اپنے خول میں داخل کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے مزاحمت اور اتحاد کی علامت کے طور پر کھڑا کرناچاہئے تھا ۔ ایک الگ شناخت کے ساتھ اس کی حمایت کرنی چاہئے تھی اور اس کے مشوروں کو قبول کرناچاہئے تھا لیکن ایسا نہ ہوا اور نہ ہوگا ۔مجھے اس بات کی امید بھی نہیں کہ پارلیمانی انتخاب میں اسے ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے کھڑا کرکے تمام دھاروں کی حمایت اور ووٹوں کی بھاری اکثریت سے پارلیمنٹ میں بھیجا جائے گا۔ اس طرح سے پارلیمنٹ میں پہنچنا بھی کشمیر اور کشمیر کی خواہشات کا مہذبانہ اور موثر اظہار ہوتا ۔ابھی انہوں نے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے، اس لئے ان پر کوئی انگلی نہیں اٹھ رہی ہے لیکن جب بھی وہ فیصلہ کریں گے تو اپنے آپ کو طوفانوں میں گھر ا ہوا پائیں گے ۔
ماخوذ: ہفت روزہ ’’نوائے جہلم‘‘ سری نگر