جموں وکشمیر میںہم سے رخصت ہونے والے سال 2021کے دوران 5ہزار 36ٹریفک حادثات رونما ہوئے جس دوران 713افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ 2017سے لے کر نومبر 2021تک 5برسوں میں جموں وکشمیر میں ٹریفک حادثات میں 4ہزار 347افراد ہلاک جبکہ 35ہزار 137افراد زخمی ہوئے جن میں سے کئی ایک عمر بھر کیلئے اپاہج کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔محکمہ ٹریفک کی جانب سے منظر عام پر لائے گئے اعداد وشمارکے مطابق جموںوکشمیر میں تشدد آمیز اور ملی ٹینسی کے واقعات میں اتنے افراد نہیں مارے جاتے جتنے ہر سال ٹریفک حادثات میں اپنی جانیں گنوا بیٹھتے ہیں۔حالیہ پارلیمنٹ سیشن کے دوران مرکزی سرکارنے جموںوکشمیر تشدد آمیز واقعات میں ہلاک ہونے والے افراد کے اعدادوشمار ظاہر کرتے ہوئے بتایا کہ جموںوکشمیر میں2021میں 75افراد تشدد آمیز واقعات کے دوران مارے گئے جن میں 40عام شہری اور 35سیکورٹی فورسز کے اہلکار شامل ہیں۔
جموں وکشمیر میں ہر سال ٹریفک حادثات کے دوران سینکڑوں کی تعداد میں لوگ مارے جاتے ہیں اور ان حادثات پر قابو پانے کی خاطر اگر چہ حکام کی جانب سے دعوئے اور وعدئے کئے جاتے ہیں تاہم عملی طورپر اس ضمن میں کچھ بھی نہیں کیا جارہا ہے۔ دیگر شاہرائوں کے ساتھ ساتھ سرینگرجموںقومی شاہراہ پر تواتر کے ساتھ رونما ہونے والے خونین حادثات نے ایک بار پھراس شاہراہ کی تعمیرو و تجدید کیلئے ایک موثر اور تخلیقی منصوبے کے تحت اقدامات کرنے کی ضرورت کا احساس اجاگر کیا ہے۔ دنیا بھر میں شاہرائوں کو ترقی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور بدقسمتی سے ہمارے یہاں ایک اہم ترین شاہراہ جو اس خطے کو باقی دنیا سے جوڑنے کا واحدزیر استعمال زمین ذریعہ بھی ہے، دردناک اموات کی علامت بن کررہ گئی ہے۔یہ حادثے اور اس میں ہوئی اموات دراصل دہائیوں سے اس موت کی شاہراہ پر ہونے والے لاتعداد حادثات اور ہزاروں اموات کا تسلسل ہے۔المیہ بھی یہی ہے کہ مسلسل حادثات اور اموات کے باوجود اب تک کسی بھی حکومت نے سرینگر۔ جموںقومی شاہراہ کی تجدید نو کے حوالے سے کوئی غیر معمولی اور موثرمنصوبہ مرتب کرنے کی طرف توجہ نہیں دی۔حالانکہ جدید دنیا میں یہ قطعاً کوئی مشکل کام نہیں ہے۔اولاً تو یہ اس قدر ترقی یافتہ دور میں جب کہ سمندوں اور پہاڑوں کو چیر کر راستے بنانا ایک عام بات بن گئی ہے۔ ثانیاً یہ کہ ایسا بھی نہیں ہے کہ تین سو کلو میٹر طویل شاہراہ کو ایک سرے سے لیکر دوسرے سرے تک از سر نو تعمیر کرنے کی ضرورت ہو۔
ویسے بھی ہمارے یہاں سڑک حادثات صرف سرینگر۔ جموںقومی شاہراہ تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ کہنا بے جا بھی نہیں ہوگا کہ یہ واحدخطہ ہے جہاں اوسطاً زیادہ لوگ سڑک حادثات کی نذر ہوجاتے ہیں۔ہر دن اخبارات کسی نہ کسی علاقے میں رونما ہونے والے سڑک حادثات اور ان کے نتیجے میں ہونے والی اموات کے حوالے سے خبر لیکر شایع ہوتے ہیں۔اب حالت یہ ہے کہ اس طرح کی خبریں معمولی اور معمولات کے زمرے میں شامل ہوگئی ہیں۔یہاں رونما ہونے والے حادثات کی شدت بذات خود ٹریفک نظام میں بدترین خامیوں کی موجود گی کا برملا ثبوت ہے۔ عمومی طور پر ہمارے یہاں حادثات کے اسباب سڑکوں کی تنگ دامانی،ہر گذرنے والے دن کے ساتھ بڑھتا ہوا ٹریفک دبائو ،قوانین کی خلاف ورزیوں کا بلا روک ٹوک سلسلہ،جعلی ڈرائیونگ لائسنز یا ڈرائیونگ لائسنز کی اجرائی کا ناقص نظام وغیرہ جیسی چیزیں ہیں۔محکمہ ٹریفک کا غیر متحرک ہونا ستم بالائے ستم کے مترادف ہے۔ ایسا نہیں کہ محکمہ ٹریفک میں قابل اور کام کرنے والے لوگ نہیں ہیں۔ لیکن ہمارے ٹریفک محکمہ شدید افرادی قلت اور جدید سہولیات کی محرومی سے دوچار ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں شہروں اور قصبہ جات میں ہی ٹریفک محکمے کی موجود گی محسوس ہوتی ہے۔ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں محکمہ ٹریفک اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ انصاف کرنے میں سراسر ناکام ثابت ہورہا ہے۔مثلاً ٹریفک قوانین اور ضوابط سے متعلق عوام کو تسلسل کے ساتھ جانکاری فراہم کرنا محکمہ ٹریفک کا ایک مسلسل کام ہونا چاہیے تھا،لیکن اس ضمن میں بہت معمولی توجہ دی جاتی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ٹریفک نظام کو سر نو ترتیب دینا وقت کی ایک اہم ضرورت بن گئی ہے ۔نظام ٹریفک کو سنوارنا ایک مسلسل عمل ہے کیونکہ مسائل تو بہرحال ہمیشہ موجود رہیں گے۔ ٹریفک دبائو تو بڑھتا ہی جائے گا۔ ایسا پوری دنیا میں ہورہا ہے۔ بلکہ ہماری آس پاس کی ہی ریاستوں میں جتنا ٹریفک دبائو ہے ہمارے یہاں اسکے مقابلے میں بہت کم ہے۔ لیکن ان ریاستوں کے پاس نظام ہم سے بہتر ہے اور وہ تسلسل کے ساتھ نئے نئے منصوبوں پر عمل پیرا ہیں۔جموں۔ سرینگرقومی شاہراہ یا دوسری سڑکوںاور شاہرائوں کی اہمیت اور حیثیت تو بہر حال ہمیشہ اپنی جگہ موجود ہے۔ضرورت ان سڑکوں پرسفرس زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے کی ہے۔متمدن قوموں کی ترقی کا راز بھی ہی ہے کہ وہ ہمہ وقت مسائل کا حل تلاش کرتے رہتے ہیں۔ کیا ہم بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات اور سرینگر جموں قومی شاہراہ کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے کے منصوبے مرتب کریں گے یا پھر اسی طرح حادثات میں ہونے والی اموات کو دیکھتے رہیں گے؟