سرینگر جموں شاہراہ پر ہر گزرنے والے دن کے ساتھ مسافروں کے مشکلات میں اضافہ ہونے کی خبریں آئے دن اخبارات کی سرخیوں کی زینت بنتی رہتی ہیں، لیکن سرکار ہے کہ اسکے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور وقفو ں وقفوںسےمختلف وجوہات کو بنیاد بناکر اسکے اہداف میں توسیع کی جاتی رہی ہے۔ گزشتہ برس سڑکوں ٹرانسپورٹ اور شاہراہوں کے مرکزی وزیر نے راجیہ سبھا میں میں شاہراہ کی توسیع کے کام میں سست فتاری پر پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں یہ انکشاف کرکے سب کو حیرت میں ڈال دیا تھا کہ پروجیکٹ جو 2011میں شروع ہوا تھا کی تکمیل کا نیا ہدف2019مقرر کیا گیا ہے۔ فی الوقت شاہراہ پر سفر کرنے والوں کا حال بے حال ہے اور چہار گلیارہ کے توسیعی کام اور شاہراہ پر دوڑنے والی مسافر و مال بردار گاڑیوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ کے بہ سبب دن بدن مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس طویل تاخیر کےلئے متعدد اسباب ذمہ دار ہیں، جن میں تعمیری کمپنی اور اس کےلئے کام کرنے والے لیبر فورس کے درمیان وقت وقت پر تنائو کی صورتحال اور حصول اراضی کے معاملات میں معاوضوں کے تنازعات کے ساتھ ساتھ مقامی سیاسی محرکات بھی کار فرماء رہے ہیں۔ اگر چہ جموں اور ادھمپور کے درمیان 65کلو میٹر حصہ کاکام مکمل ہو چکا ہے، لیکن چنہینی رام بن، بانہال رام بن اور قاضی گنڈ کے مراحل میں کام کی رفتار اُس ڈھب پر نہیں ہے، جس سے یہ اندازہ کیا جاسکے کہ تعمیری کام مقررہ ہدف پر مکمل ہوگا۔ جہاں تک سرینگر بانہال سیکٹر کا تعلق ہے تو اسکا خدا ہی حافظ ہے اور ماضی میں اس کے لئے 2014کے سیلاب اور 2016کی ایجی ٹیشن کوذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ اب خبریں آرہی ہیں کہ قاضی گنڈ اور بانہال کے درمیان زیر تعمیر ٹنل کا کام نہایت ہی سست رفتاری سے جاری ہے اور اسکی تکمیل کے حوالہ سے مقرر ہدف پر کام مکمل ہونے کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آرہے ہیں۔ جموں سرینگر شاہراہ وادی کشمیر کے لئے ایک شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے اور اب جبکہ موسم سرما شروع ہو چکا ہے اسکی اہمیت میں مزید اضافہ ہوا ہے کیونکہ موسمی مشکلات کے بہ سبب شاہراہ کے وقت وقت پر بند ہونے کی وجہ سے اس حصار بند خطے میں غذائی اجناس اور اشیائے ضروریہ کی ضروری سپلائی متاثر ہونے کے اندیشے برقرار رہتے ہیں، جو عوام کےلئے زبردست مشکلات کا سبب بن جاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہےکہ کم از کم شاہراہ کےاُس حصے کوجو موسمی تغیر کی وجہ سے اکثر بند رہتا ہے، کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنے کی کوشش کی جائے اور جس میں قاضی گنڈ بانہال ٹنل ایک اہم پڑائو کی حیثیت رکھتی ہے، لیکن اس ٹنل پر جس سست رفتاری سے کام جاری ہے، وہ نہایت ہی قابل تشویش ہے۔ ساڑھے آٹھ کلو میٹر طویل اس ٹنل پر بھی سال 2011میں کام شروع ہوا تھا لیکن چھ سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود اسکی کھدائی کاکام جاری ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق ابتدائی برسو ں میں اگر چہ ماہانہ دو سو میٹر کی کھدائی ہوتی تھی لیکن کام میں سست رفتاری آنے کی وجہ سے یہ کاروائی سکڑ سمٹ کر پچاس میٹر فی ماہ پر پہنچ گئی ہے۔ جس کےلئے متعدد وجوہات ذمہ دار ہیں۔ اگر چہ متعلقہ تعمیری کمپنی کا یہ دعویٰ ہے کہ اس خطہ کی ارضیاتی ساخت نہایت نازک ہے جو اندر سے ملبہ ڈھ جانے کے بہ سبب کام میں روکاوٹ اور سست رفتاری کا سبب بن رہا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ2100کروڑ کے حامل اس پروجیکٹ ،جس میں ٹول پلازا اور ٹرک ٹرمنل کی تعمیر بھی شامل ہے، پر کام کر رہے مزدوروں نے متعدد مرتبہ انہیں مناسب سہولیات میسر نہ ہونے کی وجہ سے ہڑتال بھی کی۔ کیونکہ انکا ماننا ہے کہ اس خطرناک کام کو کرتے انہیں لیبر قوانین کے تحت جو مراعات حاصل ہونی چاہئیں تھیں ، وہ انہیں نہیں دی جارہی ہیں، جبکہ کام کے دوران ایک مزدور کی ہلاکت اور متعدد کے زخمی ہونے کے معاملات بھی سامنے آئے ہیں۔ اس کے علاوہ اراضی کے حصول کے معاملات پر معاوضہ کے تنازعے بھی روکاوٹ کا ایک سبب رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ان تمام وجوہات کو ملحوظ نظر رکھ کر جہاں شاہراہ کی وسعت کے کام میں تعمیری کمپنیوں پر تیزی لانے کےلئے زور ڈالے وہیں قاضی گنڈ بانہال ٹنل کی تکمیل کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے، کیونکہ جس عنوان سے شاہراہ پر ٹریفک میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے، اس سے نمٹنے کےلئے یہ اقدام بہت ضروری ہے۔ اس میں کسی قسم کی مزید تاخیر سے عوام یہ سمجھنے پر مجبور ہوجائینگے کہ انکی مشکلات کا سدباب حکومت کےلئے کوئی ترجیح نہیں ہے۔