۔ 70روپے فی ڈبہ 220روپے تک پہنچ گیا، آر ٹی سی گاڑیوں کی مانگ بڑھ گئی
بلال فرقانی
سرینگر//ٹرانسپورٹ میں شدید کمی اور کرایہ میں بے تحاشا اضافہ کشمیرکے میوہ شعبے کو متاثر کر رہی ہے۔ فروٹ گروورس کا کہنا ہے کہ انہیں اپنی پیداوار باہر کی منڈیوں میں بھیجنے کے لیے معمول سے دو گنا کرایہ ادا کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے، جس سے وہ بڑے پیمانے پر نقصان اٹھا رہے ہیں۔ایشیاء کی دوسری سب سے بڑی فروٹ منڈی سوپور کے صدر فیاض احمد عرف کاکا جی نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ کرایہ دوگنا سے بھی زیادہ ہوگیا ہے اور ٹرک مالکان فروٹ گروورس کو لوٹ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ شاہراہ کی بندش سے قبل سوپور سے نئی دہلی تک فی ڈبہ کرایہ 70 یا 80روپے مقرر تھی لیکن اب یہی220 روپے تک پہنچ گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ وادی میں گاڑیوں کی ڈیمانڈ ہر روز تقریباً 1500ہے لیکن یہاں مشکل سے ایک ہزار گاڑیاں آرہی ہیں، جس کی وجہ سے گاڑیوں کی شدید کمی پیدا ہوگئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آر ٹی سی کے پاس کل 460 ٹرکوں کا فلیٹ ہے جس میں سے انہیں محکمہ کی فوڈ سپلائی کیلئے گاڑیاں درکار ہوتی ہیں اور باقی گاڑیاں بہت ناکافی ہیں اور ان سے ضروریات پورا نہیں ہوسکتیں۔کاکا جی نے مزید کہا کہ آر ٹی سی نے دلی کیلئے فی ڈبہ کرایہ 130، پنجاب کیلئے 120 اورجالندھر کیلئے 90 روپے مقرر کی ہے جس کی وجہ سے کرایہ میں کمی ہورہی ہے۔انکا کہنا تھا لیکن آر ٹی سی کے پاس گاڑیاں بہت کم ہیں، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سوپور منڈی کو صرف 60گاڑیاں دی گئی ہیں۔کشمیر ویلی فروٹ گروورز کم ڈیلرز یونین کے صدر بشیر احمد بشیر نے کہا کہ ہائی وے بحران، کم مانگ اور دیگر مسائل کے علاوہ ٹرانسپورٹ کے بڑھتے ہوئے اخراجات سے فروٹ گروورس کا منافع کھایا جا رہا ہے۔انہوں نے انتظامیہ سے اپیل کی کہ وہ فوری مداخلت کر کے ہر منڈی پر آر ٹی سی(روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن)کی گاڑیاں دستیاب رکھے تاکہ کرایہ کی شرح کو مستحکم کیا جاسکے۔بشیر نے کہا کہ آر ٹی سی گاڑیاں شوپیان اور سوپور فروٹ منڈی میں دستیاب رکھی گئی ہیں، لیکن انہیں دیگر منڈیوں میں بھی دستیاب کیا جانا چاہیے۔ ایسوسی ایشن صدرنے ٹرانسپورٹرز پر قلت پیدا کرنے کا الزام لگایا۔ بشیر نے کہا، “حکومت کو قدم بڑھانا چاہیے،جب تک آر ٹی سی ٹرک دستیاب نہیں کیے جاتے، نجی ٹرانسپورٹرز کاشتکاروں کو لوٹتے رہیں گے، ہر دن کی تاخیر کسانوں کو دیوالیہ ہونے کی طرف دھکیل رہی ہے،” ۔شوپیان کے جاوید احمد نامی فروٹ گروور نے کہا، “پہلے، نیشنل ہائی وے کے راستے سے تقریباً 60 روپے فی ڈبہ ادا کرتے تھے، لیکن اس سال قیمتیں 200 روپے تک پہنچ گئی ہیں۔ مغل روڈ پر، چارجز اس سے بھی زیادہ ،فی ڈبہ 200 سے زیادہ ہیں۔انہوں نے کہا “ان کرایہ پر، کسان کیسے زندہ رہ سکتا ہے؟ ہم تاجر نہیں ہیں جن کی آمدنی کے متعدد ذرائع ہیں، ہمارے لیے صرف سیب ہی ذریعہ معاش ہے۔”پلوامہ کے فروٹ گروور عبدالرشیدنے بتایا کہ پرائیویٹ ٹرانسپورٹرز بحران کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ “ہمیں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ چارجز کو کنٹرول میں رکھا جائے گا، لیکن زمینی حقیقت بالکل مختلف ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت سنجیدہ ہے، تو اسے فوری طور پر ہر منڈی میں آر ٹی سی ٹرک تعینات کرنے چاہئیں، اس سے کرایہ خود بخود کم ہو جائے گا” ۔ انہوں نے کہا کہ اگر فوری کارروائی نہ کی گئی تو نہ صرف کاشتکاروں کو نقصان پہنچے گا بلکہ کشمیر کی باغبانی کی پوری معیشت کو شدید نقصان پہنچے گا۔سیب کی صنعت، جو تقریباً 3.5 ملین لوگوں کو روزی روٹی فراہم کرتی ہے، کو خطے کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ لیکن مال برداری کے اخراجات بڑھنے اور ٹرانسپورٹ کی قلت برقرار رہنے کے ساتھ، کاشتکاروں کو خوف ہے کہ ان کی سیزن کی محنت رائیگاں جائے گی۔