اُدھمپور سے بارہمولہ تک ریاست کی کلیدی شاہراہ کو عام ٹریفک کے لئے ہفتے میں دو دن مسدود کرنے کے سرکاری حکمنامےپر جس ہمہ گیر پیمانے پر ردعمل سامنے آیا ہے، وہ حکومت کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہونا چاہئے۔ یہ ردعمل نہ صرف تجارتی و ٹرانسپورٹ انجمنوں، سول سوسائٹی اور عوامی حلقوں کی طرف سے ہوا ہے بلکہ کشمیر میں کم و بیش سبھی سیاسی جماعتوں نے سرکار کے اس فیصلے کو آمرانہ سوچ کا عکاس قرار دیکر اسے عام لوگوں کو مصائب میں مبتلاء کرنے کا غماز ٹھہرایاہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ کلیدی سیاسی جماعتوں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے گزشتہ ایتوار اور کل بدھ کے روز عملی کارروائی کرتے ہوئے شاہراہ پر دھرنا دے کر اس فیصلے کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ حکومت کی جانب سے اس فیصلے کے بارے میں پلوامہ فدائین حملے اور بانہال میں سی آر پی ایف کانوائے کے قریب پُراسرا دھماکے کو بطور دلیل پیش کیا جارہا ہے، تاکہ سیکورٹی فورسز کو آمد ورفت کے محفوظ مواقع میسر آسکیں۔ حکومت اپنی جگہ صحیح ہوسکتی ہے لیکن سیاسی قیادت خاص طور پر سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے گذشتہ سوموار کے روز سیکورٹی فورسز کی کانوائے کی آمدورفت کے وقت حکومت سے یہ سوال کیا کہ، کیا ایتوار اور بدھ کے علاوہ ہفتے کے باقی پانچ دنوں کے ایسے حفاظتی انتظامات کی ضرورت نہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے، جس نے یقینی طور پر حکومت کو لاجواب کردیا ہے۔ اگرچہ اس مجموعی ردعمل کے نتیجے میں حکومت نے ضرورت مند عام لوگوں کے عبور و مرور کے لئے مجسٹریٹوں اور پولیس افسران کی تعیناتی عمل میں لائی اور یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ میڈیکل ایمرجنسیوں اور دیگر کئی ضروری معاملات پر اس فیصلے کا اطلاق نہیں ہوگا تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ برقرار ہے کہ اس سے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو عبورو مرور کی مشکلات درپیش ہیں۔ خاص کر ملازم طبقہ، جنہیں وقت کی پابندی کیساتھ نوکریوں پر حاضر ہونا لازمی ہوتا ہے۔ اسکے علاوہ تجارت پیشہ لوگوں کو زبردست مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور اس پابندی سے ایسے ہر دن کروڑوں روپے نقصان درپیش ہوسکتا ہے، جو پہلے ہی وادی کی بگڑی ہوئی معیشت کے لئے مزید بگاڑ کا سبب بن سکتا ہے۔ دوسری انتہائی اہم بات یہ ہے کہ سرینگر جموں شاہراہ کی حالت انتہائی خراب ہے اور موسم کی معمولی خرابی کی وجہ سے کئی کئی دونوں تک شاہراہ پر ٹریفک کی آمد و رفت بند ہونا ایک معمول بن گیا ہے، جو پہلے ہی معیشت کی تباہی کا وجہ بنا ہوا ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے رواں برس وادی سے فروٹ باہر بھیجنے میں رکاوٹیں بھی اس طبقہ سے وابستہ تاجروں اور باغبانی کے شعبے سے وابستہ لوگوں کے لئے نقصان کا باعث بن چکی ہیں۔ ایسے حالات میں آمدرفت کے متبادل ذرائع کو مؤثر اور مضبوط بنانے کی ضرورت تھی اور اسکے لئے مطالبات بھی کئے جارہے تھے مگر اسکے برعکس میسر ذرائع کو بھی محدود کرنا ایک ایسا طرز عمل ہے جس پر اعتراضات کی بھر پور گنجائش موجود ہے۔یہی وجہ ہے کہ نظریاتی صف بندیوں کے آر پار کم و بیش سبھی سیاسی جماعتوں، جس میں ایسی جماعتیں بھی شامل ہیں، جو مرکز میں برسراقتدار اتحاد کی حامی ہیں، نے اس فیصلے کو غیر دانشمندانہ اور غیر عوامی قرار دیکر اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ انتخابی بخار میں اس فیصلے کے خلاف ردعمل نے ایک سیاسی نعرے کی حیثیت اختیار کی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ فیصلہ لینے والے کشمیر کے مین سٹریم سیاسی جماعتوں کو ملک دشمن قرار دیکر اپنے فیصلے کے لئے جواز پیش نہیں کرسکتے۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ایک سابق فوجی سربراہ جنرل وید پرکاش ملک اس فیصلے کو ’’احمقانہ خیال‘‘ قرار نہیں دیتے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا فیصلہ عوام کے دلوں کو جیتنے کے بنیادی ایجنڈا کی خلاف ورزی ہے، جو کبھی بھی سود مند نہیں ہوسکتا۔