حکومت کی جانب سے ہفتے میں دو دن کےلئے شاہراہ بند کرنے کے منفی اور نقصان دہ نتائج تواتر کےساتھ سامنے آرہے ہیں، جس سے یہ بات عیاں ہو رہی ہے کہ اس سرکاری فیصلے سے انتظامی اور سماجی ڈھانچے پر نمایاں طور پر منفی اثرات ثبت ہو رہے ہیں۔ چند روز قبل شاہراہ پر کینسر کے ایک مریض کو کئی گھنٹوں تک روکے رکھنے، جسکی بعد میں موت واقع ہوگئی، پر سماجی حلقوں سے لیکر سیاسی جماعتوں تک نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ابھی اس برہمی کا سلسلہ جاری تھا کہ دو روز قبل ڈورو شاہ آباد کے سب ڈویژنل مجسٹریٹ کو ڈیوٹی کی انجام دہی کے دوران روکنے اور اس کی جانب سے مزاحمت پر اسکی مارپیٹ کرنے کے واقعہ نے سبھی انتظامی حلقوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔یہ ایک خوش آئندہ اقدام ہے کہ سیاسی اور سماجی حلقوں کی جانب سے اس معاملے کی تحقیقات کے مطالبے کے ردعمل میں انتظامیہ نے کیس درج کرکے تحقیقات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ انتظامیہ معاملے کو سنجیدہ نوعیت کا تصور کرکے حقائق کو سامنے لانے کے ساتھ ساتھ ملوثین کے خلاف قانونی کاورائی کرنے میں کوئی پس پیش نہ کرے، کیونکہ زیادتی کے کسی بھی معاملے پر آنکھیں موند لینے کا نتیجہ یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آئندہ زیادہ سنگین معاملات پیش آسکتے ہیں۔ شاہراہ پر قدغن کی وجہ سے عوام الناس پہلے ہی شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں ، جنکا ازالہ کرنے کی کوشش کرنا انصاف کا تقاضا ہے۔حکومت کی جانب سے اس فیصلے کے بارے میں پلوامہ فدائین حملے اور بانہال میں سی آر پی ایف کانوائے کے قریب پُراسرا دھماکے کو بطور دلیل پیش کیا جارہا ہے، تاکہ سیکورٹی فورسز کو آمد ورفت کے محفوظ مواقع میسر آسکیں۔ حکومت اپنی جگہ صحیح ہوسکتی ہے لیکن سیاسی قیادت خاص طور پر سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے گذشتہ سوموار کے روز سیکورٹی فورسز کی کانوائے کی آمدورفت کے وقت حکومت سے یہ سوال کیا کہ، کیا ایتوار اور بدھ کے علاوہ ہفتے کے باقی پانچ دنوں کے ایسے حفاظتی انتظامات کی ضرورت نہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے، جس نے یقینی طور پر حکومت کو لاجواب کردیا ہے۔ اگرچہ سیاسی و سماجی حلقوں کے مجموعی ردعمل کے نتیجے میں حکومت نے ضرورت مند عام لوگوں کے عبور و مرور کے لئے مجسٹریٹوں اور پولیس افسران کی تعیناتی عمل میں لائی اور یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ میڈیکل ایمرجنسیوں اور دیگر کئی ضروری معاملات پر اس فیصلے کا اطلاق نہیں ہوگا تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ برقرار ہے کہ اس پر صدفیصد عمل درآمد نہیں ہوتا ہے۔ فیصلےسے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو عبورو مرور کی مشکلات درپیش ہیں۔ خاص کر ملازم طبقہ، جنہیں وقت کی پابندی کیساتھ نوکریوں پر حاضر ہونا لازمی ہوتا ہے۔ اسکے علاوہ تجارت پیشہ لوگوں کو زبردست مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور اس پابندی سے ایسے ہر دن کروڑوں روپے نقصان درپیش ہوسکتا ہے، جو پہلے ہی وادی کی بگڑی ہوئی معیشت کے لئے مزید بگاڑ کا سبب بن سکتا ہے۔ دوسری انتہائی اہم بات یہ ہے کہ سرینگر جموں شاہراہ کی حالت انتہائی خراب ہے اور موسم کی معمولی خرابی کی وجہ سے کئی کئی دونوں تک شاہراہ پر ٹریفک کی آمد و رفت بند ہونا ایک معمول بن گیا ہے، جو پہلے ہی معیشت کی تباہی کا وجہ بنا ہوا ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے رواں برس وادی سے فروٹ باہر بھیجنے میں رکاوٹیں بھی اس طبقہ سے وابستہ تاجروں اور باغبانی کے شعبے سے وابستہ لوگوں کے لئے نقصان کا باعث بن چکی ہیں۔ ایسے حالات میں آمدرفت کے متبادل ذرائع کو مؤثر اور مضبوط بنانے کی ضرورت تھی اور اسکے لئے مطالبات بھی کئے جارہے تھے مگر اسکے برعکس میسر ذرائع کو بھی محدود کرنا ایک ایسا طرز عمل ہے جس پر اعتراضات کی بھر پور گنجائش موجود ہے۔یہی وجہ ہے کہ نظریاتی صف بندیوں کے آر پار کم و بیش سبھی سیاسی جماعتوں، جس میں ایسی جماعتیں بھی شامل ہیں، جو مرکز میں برسراقتدار اتحاد کی حامی ہیں، نے اس فیصلے کو غیر دانشمندانہ اور غیر عوامی قرار دیکر اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ انتخابی بخار میں اس فیصلے کے خلاف ردعمل نے ایک سیاسی نعرے کی حیثیت اختیار کی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جو مسئلہ سبھی حلقوں کی جانب سے اُبھارا جائے اُسے حل کرنےسے کنی کترانا انصاف کے تقاضوں سے کھلا انحراف ہے اور کسی بھی جمہوری نظام میں اسکی نہ تو گنجائش ہے اور نہ ہی اجازت ہوسکتی ہے۔