تھا علی ؑ کو وہ شغف آیات قرآنی کے ساتھ
ہوکے فانی ہوگئے منسوب لافانی کےساتھ
واہ ! وہ ربط عبادت کیف روحانی کے ساتھ
’’کیا نماز ِ شاہ ؑ تھی ارکان ایمانی کے ساتھ
دل بھی جھک جاتا تھا ہر سجدے میں پیشانی کے ساتھ‘‘
یاد رکھے گا زمانہ تا ابد تیرے اصول
ہر طرف کھلتے رہینگے بس تیری مدحت کے پھول
ہو بھلا کیا تیری مدحت کہ ہے تو جان ِ بتول ؑ
’’حشر تک زندہ ہے تیرا نام اے ابن رسول ؐ
کرچکا ہے تو وہ احساں نوع انسانی کے ساتھ‘‘
جہد پیہم ہو تو اک دن بالیقیں پھرتے ہیں دن
عزم راسخ ہو تو پھر اے ہم نشیں پھر تے ہیں دن
آہ یوں آہ و بقا سے بھی کہیں پھرتے ہیں دن
’’صرف رولینے سے قوموں کے نہیں پھرتے ہیں دن
خوں فشانی بھی ہے لازم اشک افشانی کے ساتھ‘‘
ہے کشاکش ہی سراغ افتخار زندگی
انتہائے بیقراری ہے قرار زندگی
عزم قربانی پہ ہے دارو مدار زندگی
’’آنکھ میں آنسو ہوں سینوں میں شرار زندگی
موجہ ٔ آتش بھی ہو بہتے ہوئے پانی کے ساتھ‘‘
بس شعور حق پہ ہے اے دل اساس زندگی
بندگی کے ماہ اور خورشید ہیں آل نبی ؐ
اصل میں تفسیر ہیں یہ آئیہ تطہیر کی
’’ اہل بیت ؑ پاک کی ہر سانس کو اے مدعی
ہاں ملا کر دیکھ لے آیات قرآنی کے ساتھ‘‘
سچ تو یہ ہے، ہے یہ فیضان علیؑ ٔ مرتضیٰ
ہے بشیر آثمؔ ثنا خوان ِ علی ؑ ٔ مرتضیٰ
کیا بیاں ہو شانِ خاصانِ علیؑ ٔ مرتضیٰ
’’جوشؔ ہم ادنیٰ غلامانِ علیؑ ٔ مرتضیٰ
تمکنت سے پیش آتے ہیں جہانبانی کے ساتھ‘‘
٭٭
بشیر آثم ؔکشمیری
باغبان پورہ لعل بازار
موبائل نمبر؛09829340787
شانِ محرم
افتخارِ ذی الججہ و شانِ محرم ہے حسینؓ
ملتِ مجروح کے زخموں کا مرہم ہے حسینؓ
کربلا کی خاک پر لکھا لہو سے لا الہ
شوکتِ اسلام کا پیغامِ پیہم ہے حسینؓ
ہر کوئی ماتم تو ہوتا ہے فقط مطلوبِ ذات
سرخ رو جس سے ہوئی ملت وہ ماتم ہے حُسینؓ
تا ابد قائم ر ہے مہرِ صداقت کی ضیاء
مرکزِ ایثار کا پُرنور عالم ہے حُسین
ہر کسی کے دل میں بستا ہے غمِ عالی مقام
جان سے محبوب تر ہر اِک کو تو غم ہے حُسین
شام سے، کوفہ سے، بصرہ سے یہ آتی ہے صدا
ہوا صداقت پر تڑپ مرنے کی،پرچم ہے حُسین
وقت ہے آتش بداماں ہر جگہ ہادیؔ یہاں
زندگی کے ہر کسی میداں میں شبنم ہے حُسین
حیدر علی ہادیؔ
زیارت بتہ مالنہ
موبائل نمبر8803032970
اصغرؑ مرا نہ آیا
مقتل میں ہاں سکینہ، اصغر کو ڈھونڈتی ہے
اب کیا کروں خدایا اصغر میرا نہ آیا
دن رات میں سمائی، پنچھی بھی لوٹ آئے
دیکھو اندھیرا چھایا، اصغر میرا نہ آیا
مقتل سے آرہی ہیں ،کیوں رونے کی صدائیں
کس نے اِسے رلایا ،اصغر میرا نہ آیا
پیاسا تھا میرا بھائی ،اے حُرملہ بتا دے
وہ تیر کیوں چلایا ،اصغر میرا نہ آیا،
بے شیر میرے آوو، جائینگے ہم مدینہ
یہ دیس ہے پرایا اصغر میرا نہ آیا
ہر سمت خونی صحرا ،مقتل میں ہے اندھیرا
دکھتا نہیں ہے سایہ ،اصغر میرا نہ آیا
کٹتا ہے یہ کلیجہ ،کیوں میرے بے زبان کو
پانی نہیں پلایا ،اصغر میرا نہ آیا
ننھا سا گل تھا اصغر ،کیا نخل پنجتن کا
کیوں ریت پہ گرایا، اصغر میرا نہ آیا
یہ نور تھا سراپا،،کرنا تھا جگ کو روشن
پھر کیوں اسے بجھایا ،اصغر میرا نہ آیا
پوشاک لے کے اسکی ،یادیں لگا کے دل سے
بانہوں کو بھی جھلایا ،اصغر میرا نہ آیا
ننھے حلق پہ جب اک تیرِ اجل چلا تو
عالم بھی ڈگمگایا ،اصغر میرا نہ آیا …
فلک ریاض
حسینی کالونی ،چھترگام ،کشمیر ،فون :9070896814
نعرہٗ تکبیر
٭
حیف ! صد حیف !! اِن دِنوںبرما بنا ہے قتل گاہ
خوں ریزی بربریت اِستحصال سِسکی چیخ آہ
عالمی امن و اماں کی بات کرنے والے چُپ
قتل اور غارت گری پر آہیں بھرنے والے چُپ
ہاں ! مگر اللہ کا اِک بندہ آیا سامنے
ظالِموں کو کر دِیا بے چَین جِس کے نام نے
کہتے ہیں اپنے پرائے جِس کو طیّب اردگان
قابلِ تعریف ہے جِس کا قدم جِس کا بیان
جِس نے قائم کی ہے اِنسانیت کی ایسی مِثال
آج کل پرسوں تلک دی جائے گی جِس کی مِثال
ساتھ اللہ والوں کے یہ ، اللہ اِس کے ساتھ ہے
یہ دُعا میں اُن کی جِن کے سَر پہ اِس کا ہاتھ ہے
تیرگی میں بے بسی کی ہے کِرن اُمّید کی
اِس کے ذہن و دِل میں روشن ہے شمع توحید کی
روہینگیا برما کے مُسلمانوں کا یہ حالِ زار
ہے یہ ان کا خیر خواہ اور ہے یہ ان کا غم گُسار
قوم و اُمّت کا ہے یہ ہمدرد اور پُرسانِ حال
بے بسوں محکوموں مظلُوموں کا رکھتا ہے خیال
ساتھ اِس کے ساری دُنیا کو ہو جانا چاہِئے
قاتِلوں کو نوکِ خنجر پر اُٹھانا چاہِئے
ظالِموں کو صفحۂ ہستی سے مِٹانا چاہِئے
خاک میں نام و نِشاں اِن کا مِلانا چاہِئے
صبر کب تک اے نیازؔ اب جوش آنا چاہئِے
نعرۂ تکبیر اب تو گُونج جانا چاہِئے
نیازؔ جیراجپوری
۶۷؍ جالندھری، اعظم گڑھ۔۲۷۶۰۰۱ (یُو۔پی۔)،موبائل نمبر؛09935751213