شام کے صدربشارالاسد نے سال۲۰۱۵ء میں اپنی حکومت بچانے کے لیے روس سے شام میں مداخلت کی درخواست کی،اس وقت شام میں روس دوست حکومت خاتمے کے قریب پہنچ چکی تھی۔ شام کی خانہ جنگی کا حصہ بننے کے تین سال کے اندر روس مقامی عسکریت پسندوں پر قابو پانے میں کافی حد تک کامیاب رہا۔ اس کام میں روس کوایرانی اور عراقی ہم مسلک گروہوں کی حمایت بھی حاصل رہی۔روس کی مدد سے بشارالاسد نے جنگ زدہ شام کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے۔روس کو عسکری سطح پر کامیابی توحاصل ہوئی، مگر دوسری جانب روس کواجنبی جنگ میں شامل ہونے کی وجہ سے زبردست سیاسی نقصان کا سامنا ہے۔ اپنے ہی شہریوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرنے والی ظالم بشارالاسد حکومت کی حمایت کرنا انتہائی بدترین عمل ہے، جس کے نتیجے میں روس شدید عالمی تنہائی کا شکار ہوگیا۔ اس دوران روس کے امریکا، نیٹو اور اسرائیل کے ساتھ تصادم کے امکانات انتہائی سطح تک جا پہنچے۔ شام کی حکومت کی حمایت میں ماسکو نے اپنی بین الاقوامی ساکھ کوداؤ پر لگادیا، جو اس کے مفاد میں نہیں ہے۔ اپریل۲۰۱۸ء میں ماسکو نے اپنے پرانے دوست شام کو اتحادیوں کے حملوں سے بچانے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا، حالانکہ بیان بازی کی حد تک کشیدگی عروج پر تھی۔ روس شام میں بہت کچھ کھوچکا ہے اور اس تنازعے کو بین الاقوامی سطح تک بڑھانے کا ذمہ دار ہے۔ اُسے مشرق وسطیٰ میں مسلسل موجود رہنے کا فائدہ کم ہے،اس کے لیے طویل عرصے تک خانہ جنگی کا سامنا کرنا ہوگا۔ اپریل کے حملوں کے بعد بھی روس جنگ میں کافی سرمایہ خرچ کرچکا ہے۔ ابتدائی مقصد کے حصول میں ناکامی اور ساکھ کو پہنچنے والا نقصان شام سے روس کے انخلا کا سبب بن سکتا ہے۔
پہلا مرحلہ :سال۲۰۱۵ سے ۲۰۱۶تک
شام میں سال ۲۰۱۱ء سے شروع ہونے والی خانہ جنگی کے بعد سے روس بشار الاسد حکومت کو ہتھیار اور گولہ بارود فراہم کررہا ہے، یہ معاملہ اب روس کے لیے سب سے بڑا عالمی بوجھ بن گیا ہے۔ ۲۰۱۶ء کے آخر میں روس نے انتہائی جدید فضائی دفاعی نظام سے مسلح اہل کار شام میں تعینات کردیے، خانہ جنگی کے آغاز میں اسد حکومت کی جنگی کارروائیوں میں مدد دینے کے لیے دمشق اور دیگر علاقوں میں درجنوں روسی فوجی تعینات کیے گئے، جو تربیت فراہم کرتے تھے۔ جب ماسکو شامی حکومت کو ایک جائز حکومت کے طور پر مدد فراہم کررہا تھا تو اس نے خود کو تنازعہ میں براہ راست ملوث نہیں ہونے دیا، اس وقت روس میں یہ موقف تھوڑا بہت مقبول بھی تھا۔ روس شام میں مداخلت سے ایک برس قبل مشرقی یوکرائن میں ایک نئی جنگ شروع کرچکا تھا، یوکرائن کے جنگی میدان میں روس نے انتہائی تربیت یافتہ خصوصی دستوں کو تعینات کیاتھا۔روس نے ابتدا میں خود کو غیر مقبول اسد حکومت کی بقا کے لیے اہم ترین علاقوں پر بمباری تک محدود رکھا، جس میں مغربی اور شمال مغربی علاقے خاص طور پر شامل ہیں، اس وقت زمینی جنگ زیادہ تر اسد کے وفادار اور ایرانی اتحادی لڑ رہے تھے۔ شام کی جنگ میں شامل ہوتے وقت فضائی حملوں تک محدود رہنا پوٹن کااہم ترین فیصلہ ہوگا مگر یہ فیصلہ بہت پیچیدگی پیدا کرتا ہے جب حکومت کی بقا ہی خطرے میں ہو۔ حقیقت میں شام کی جنگ سے روس کے خاص مفادات وابستہ نہیں تھے۔ تیل کی قیمتوں میں ڈرامائی کمی اور یوکرائن پر قبضے کے بعد مغرب کی جانب سے روس پر سخت پابندیاں عائد کردی گئی تھیں۔ ان حالات میں روسی سرحد سے ہزاروں کلومیٹر دور مداخلت کی گئی۔ بعض مبصرین سوویت دور سے اسد خاندان اور ماسکو کے درمیان مضبوط تعلقات کا حوالہ دیتے ہیں،کچھ مبصرین روسی حکمرانوں کے مغرب پر سخت غصے کی نشاندہی بھی کرتے ہیں، جس کی وجہ سال۲۰۰۰ء کے بعد مبینہ مغربی مداخلت کے ذریعے سربیا، یوکرائن، جارجیا اور لیبیا میں حکومت کی تبدیلی ہے۔ اس کے علاوہ روس سے بڑی تعداد میں شام آنے والے عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کی خواہش بھی اس مداخلت کی وجہ بنی۔ بعض مبصرین کے نزدیک ماسکو کی شام کی جنگ میں شمولیت کی بنیادی وجہ یوکرائن کے معاملے سے بین الاقوامی برداری کی توجہ ہٹانا تھی۔
۲۰۱۴ کے وسط میں مغرب نے یوکرائن کے علاقے کریمیا کا روس سے الحاق قبول کرلیا اور یوکرائن میں روسی مداخلت پر آنکھیں بند کرلیں، جس کا مقصد مشترکہ دشمن سے لڑنا تھا۔ اس حوالے سے روس کا نقطہ نظر ناقابل فہم بھی نہیں تھا۔ ’’غیر ریاستی عناصر ملکی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں‘‘ نائن الیون کے بعد یہ امریکی نظریہ دنیا پر غالب آگیا۔ شاید روسی قیادت کو امید تھی کہ ایک بار پھر یہ نظریہ کام کر جائے گا، جیسا کے اس سے قبل چیچنیا کی جنگ (۲۰۰۹۔۱۹۹۹ء) کے دوران بھی ہوچکا تھا۔ متوقع طور پر ماسکو نے اسد حکومت کی حمایت کے لیے بین الاقوامی اتحاد قائم کرنے کی تجویز دی تاکہ اسد حکومت کی بدترین دشمن داعش کے خلاف جنگ کی جاسکے جو عراق سے مشرقی بحر روم تک کے علاقے میں پھیلتی جارہی تھی۔ اس کے ساتھ ہی روس نے غیر جہادی عناصر سے اسد حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے کی اپیل بھی کی۔ اس تجویز کو قبول کرنے کی صورت میں اسد حکومت کو قانونی حیثیت حاصل ہوجاتی، یہ ایسے وقت میں ہوتا جب مغرب اور خطے کے اکثر ممالک کے لیے دمشق میں اسد حکومت کی موجودگی ناقابل قبول تھی۔ حقیقت میں تو امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے مذاکرا ت شروع کرنے کے لیے اسد کا استعفیٰ بنیادی شرط تھی۔ مغرب کے ساتھ مشترکہ فوج کے قیام سے روس کو بین الاقوامی تنہائی سے نکلنے میں مدد ملتی اور ماسکو کا یوکرائن پر قبضہ مزید مضبوط ہوجاتا، کوئی شک نہیں کہ روس کی تجویز دوطرفہ معاہدے کے لیے روایتی طور پر مناسب تھی۔
ماسکو کی شام کی جنگ میں شمولیت کی وجہ بھی مغرب کو ’’جیسے کو تیسے‘‘ کی پالیسی کے تحت جواب دینا تھا۔ ایک مغربی تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ’’ممکن ہے کہ شام کی مختلف جماعتوں کے درمیان مذاکرات کرانا کبھی پوٹن کا مقصد رہا ہی نہ ہو، بلکہ روس صرف واشنگٹن کودیوار سے لگانا چاہتا ہو،تاکہ اوباما انتظامیہ کو روس کے ساتھ تعاون کرنے پر مجبور کردیا جائے‘‘۔اس دلیل کی روشنی میں اسد حکومت کا خاتمہ روکنا ضروری تھا، اگر ہمیشہ کے لیے نہیں تو کم از کم ماسکو کے تزویراتی مقاصد پورے ہونے تک،اگر مغرب کے ساتھ کسی معاہدے سے قبل اسد حکومت ختم ہوجاتی ہے تو روسی سفار ت کاری اہم ترین سیاسی و جغرافیائی برتری کھو دے گی۔ پوٹن نے سال ۲۰۱۵ء میں کہا تھاکہ’’شام میں ماسکو کا مقصد صرف قانونی حکومت کو مستحکم کرنا اور سیاسی سمجھوتے کے لیے حالات کو بہتر بنانا ہے‘‘۔ فیدروف کے مطابق اسد حکومت کو جنگ جیت کر دینا ماسکو حکومت کا ایجنڈا نہیں ہے۔شام کی جنگ میں شمولیت کے بعد پوٹن یوکرائن کے بدلے شام دینے کے لیے تیار تھے،مغرب کی جانب سے یوکرائن میں روسی مداخلت قبول کرنے کی صورت میں ماسکو اسد کواستعفیٰ دینے پر مجبور کرسکتا تھا،اس طرح کریملین بھی وائٹ ہاؤس کی طرح کے طاقت کے مرکز میں تبدیل ہوجاتا۔بہرحال بعدمیں ثابت ہوگیا کہ ماسکو نے حالات کا غلط اندازہ لگایا تھا، امریکا اور اس کے اتحادیوں نے روس کے ساتھ اور اسد کی حمایت میں کسی بھی انسداد دہشت گردی اتحاد کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔اس دوران ماسکو بھی عالمی تنہائی کے بعد مغربی ممالک سے سفارتی تعلقات دوبارہ قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا۔شام کے معاملے پر سال۲۰۱۶ء تک روس مغرب کے ساتھ کوئی بڑامعاہدہ کرنے میں ناکام رہا،جس کے بعد روس نے شام میں اپنے مقاصد پر دوبارہ سے غور کیا اور اسد حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے سرمایہ کاری کوبڑھا دیا، اس کے ساتھ ہی ایران سے تعاون میں اضافہ کردیاگیا۔
دوسرا مرحلہ :سال۲۰۱۶ء سے۲۰۱۷ء تک
مغرب کے مقابلے میں کھڑاہونے کا بنیادی مقصد پورا نہ ہونے کے بعد بھی ماسکو نے شام سے نکلنے پرغور نہیں کیا، ماسکو نے شام میں اپنی فوج میں اضافہ کرتے ہوئے حمیم کے فضائی اڈے اور طرطوس کے بحری اڈے پر اپنی موجود گی کو بڑھادیا۔اس کے ساتھ ہی روس نے شامی اپوزیشن کے مضبوط علاقوں پر قبضے کے لیے ایرانی اور شیعہ ملیشیا کی حمایت میں اضافہ کردیا۔روس کی شام میں موجودگی میں اضافے سے اسد حکومت کی باغیوں سے مذاکرات کے لیے حیثیت مضبوط ہوگئی، جس نے روس کی ایک مصالحت کار،داعش کے خلاف لڑنے والی اہم ترین طاقت اور خطے میں اہم کھلاڑی کے طور پر حیثیت کو فروغ دیا۔ روسی سفارت کار اور ذرائع ابلاغ داعش کے خلاف جنگ لڑنے کی بات تو کرتے ہیں لیکن ماسکو کی ساری توجہ گنجان آباد اور زرخیز مغربی علاقوں میں موجود سیکولر اور اعتدال پسند باغیوں کو نشانہ بنانے پر ہے، بس کبھی کبھی داعش کے ویران علاقوں پر بھی بمباری کردی جاتی ہے۔ شام کی جنگ میں شامل ہونے کے ابتدائی مرحلے میں ہی روس کی۷۰ سے۹۰ فیصد بمباری کا نشانہ بننے والوں کا داعش سے کوئی تعلق نہیں تھا۔اس آوپریشن کے دوران باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں موجود اسپتالوں، بازاروں اور دیگر شہری سہولیات کو نشانہ بنایا جاتارہا،کبھی تومسلسل شدید حملے بھی کیے گئے۔باغیوں کے ہتھیار اور میزائل روس کے مقابلے میں انتہائی کم تر ہیں،اس کے باوجود روس نے اسد مخالفین کے خلاف جنگ کے دوران طاقت کا بیجا استعمال کیا، جس نے روس کی پرانی جنگوں کی یاد دلادی۔ چیچنیا میں دو افراد کے بدلے ایک لاکھ شہریوں کو قتل کیا جاتارہا۔ ہراساں کرنے کے لیے طاقت کا اندھا دھند استعمال روسی فوج کی پالیسی ہے، جس کا مقصد گولہ باری سے باغیوں کے ساتھ شہریوں کو بھی خوفزدہ رکھنا ہے۔ سال۲۰۱۵ کے بعد روسی بمباری سے ہزاروں عام شہری مارے جاچکے ہیں۔شام کی خانہ جنگی میں طویل عرصے تک شامل رہنا خطرات سے خالی نہیں ہے،اور پوٹن کو یہ بات لازمی سمجھنا ہوگی۔ روس کو جلد ہی یہ بات سمجھ آگئی کہ شام میں زمینی دستے لازمی تعینات کرنے ہوں گے، جس کا ایک مقصد روسی تنصیبات کی حفاظت کرنا تھا، لیکن اس کے ساتھ ہی روس نےtactical عسکری صلاحیتوں میں بھی اضافہ کردیا، تاکہ کمزور پڑتی اسد حکومت پر انحصار کم کرنے کے ساتھ اپنی نقل و حرکت کوآسان بنایا جاسکے،روس نے ایرانی اور ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کو بھی تیز ی کے ساتھ طاقت ور بنایا۔پوٹن نے شام میں روایتی فوج تعینات کرنے کے بجائے غیر رویتی جنگ کے ماہر چیچن پیراملٹری دستوں کو تعینات کیا، اس کو ویگنر آرمی کے نام سے جاناجاتا ہے،یہ سابق اور موجودہ فوجی افسران پر مشتمل ایک نجی گروپ ہے، روس شام میں فوجی اہلکاروں کے جانی نقصان کو نہیں روک سکتا اور فوری انخلا بھی نہیں کرسکتا،لیکن کریملین فوج کے جانی نقصان کے سیاسی اثرات سے محفوظ رہنا چاہتا ہے۔
(بقیہ جمعرات کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)