Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

! شام کی صورتحال ماضی و مستقبل کے تناظر میں عوامی مزاحمت کے نتیجے میں طویل المدتی آمرانہ حکومتیں بھی زوال پذیر ہوجاتی ہیں

Towseef
Last updated: December 10, 2024 10:35 pm
Towseef
Share
13 Min Read
SHARE

مشرق ِ وسطیٰ

مسعود محبوب خان

شام کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم موڑ آیا جب صدر بشار الاسد کی 24 سالہ حکمرانی کا خاتمہ ہوگیا۔ مسلح دھڑوں کی مسلسل پیش قدمی اور حمص جیسے اہم شہروں پر قبضے کے بعد بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ شامی عوام نے اس تاریخی لمحے کو آزادی کے جشن کے طور پر منایا اور ہزاروں افراد دمشق کے مرکزی چوک میں جمع ہو کر آزادی کے نعرے لگاتے ہوئے اس فتح کو منایا۔ یہ واقعہ شام میں جاری خانہ جنگی کے خاتمے اور نئی سیاسی تبدیلی کی طرف ایک اہم قدم شمار ہوتا ہے جو نہ صرف شام بلکہ پورے خطے میں سیاسی سطح پر ایک نیا دورِ آغاز کی علامت بن سکتا ہے۔ یہ تبدیلی عالمی سطح پر سیاسی اور اقتصادی اثرات مرتب کر سکتی ہےاور شام کے عوام کے لیے ایک نئے دور کا آغاز ہوسکتا ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے شام کی موجودہ صورتحال کے پیشِ نظر ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔ بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ بین الاقوامی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔ مغربی ممالک بالخصوص امریکہ اور یورپی یونین اس تبدیلی کو شام میں استحکام اور جمہوریت کے قیام کے لیے ایک موقع کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کریں گے۔ دوسری جانب روس اور چین جیسی عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے تحفّظ کے لیے بھرپور اقدامات کریں گی۔

بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد شام میں ایک اہم تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ روس کی جانب سے بشار الاسد اور ان کے خاندان کو سیاسی پناہ دینے کا اقدام کئی پہلوؤں سے اہم ہے۔ روس نے بشار الاسد کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سیاسی پناہ دی ہے جو روس کے شام کے اندرونی معاملات میں دیرینہ کردار اور اسد حکومت کی حمایت کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ اقدام روس کے جغرافیائی سیاسی مفادات کو ظاہر کرتا ہے۔ بشار الاسد کا روس پہنچنا اور انہیں سیاسی پناہ ملنا ممکنہ طور پر امریکا اور مغربی ممالک کے لیے باعث تشویش ہو سکتا ہے۔ شام میں اسد حکومت کے خاتمے کے بعد خطے میں ایران، ترکی اور سعودی عرب جیسے ممالک کی پوزیشن اور اثر و رسوخ میں تبدیلی آ سکتی ہے، جو خطے کے سیاسی توازن پر اثر ڈالے گی۔

بشار الاسد کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں ایران، ترکی اور سعودی عرب جیسے ممالک کے کردار میں نمایاں تبدیلیاں متوقع ہیں۔ اسد حکومت ایران کا اہم اتحادی تھی۔ اس کے زوال سے ایران کو خطے میں اپنے مفادات کا تحفّظ کرنے کے لیے نئی حکمتِ عملی اپنانا پڑے گی۔ ترکی کی شام میں بڑھتی ہوئی دلچسپی اور کردوں کے حوالے سے اس کی حساسیت شام میں ایک نئے سیاسی بندوبست پر اثر ڈال سکتی ہے۔ سعودی عرب کے لیے اسد حکومت کا خاتمہ اس کے علاقائی ایجنڈے کو تقویت دینے کا موقع ہے، خاص طور پر ایران کے اثر کو محدود کرنے کے تناظر میں۔

امریکا کی خاص توجہ شام کے کیمیائی ہتھیاروں پر مرکوز ہے تاکہ یہ خطرناک ہتھیار کسی غلط ہاتھوں میں نہ جائیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا انتہائی محتاط اقدامات کر رہا ہے اور ترکی کے حکام کے ساتھ اس حوالے سے رابطے میں ہے۔ امریکا کی توجہ ایک نئے اور مستحکم شام کی تشکیل پر ہےجو بشار الاسد کے بعد کے دور میں ملک کی تعمیرِ نو کا مظہر ہو۔ امریکا کا ماننا ہے کہ شامی باغی رہنما اب تک درست بیانات دے رہے ہیں، جو ظاہر کرتا ہے کہ باغیوں کی حمایت کسی حد تک امریکا کی پالیسی کا حصّہ ہو سکتی ہے۔ شام میں موجود روسی اڈوں کی حیثیت اور مستقبل کے بارے میں امریکا کسی قیاس آرائی سے گریز کر رہا ہے، لیکن یہ بات طے ہے کہ یہ عالمی سطح پر اہم سیاسی اور سٹریٹجک سوالات کو جنم دے گا۔

شام میں الاسد خاندان کی 53 سالہ حکمرانی کے اختتام کو نہ صرف ایک تاریخی موڑ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے بلکہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ عوامی احتجاج اور مزاحمت کے نتیجے میں طویل المدتی آمرانہ حکومتیں بھی زوال پذیر ہو سکتی ہیں۔ اس صورتحال کو درج ذیل تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔ الاسد خاندان کی حکمرانی 1970ء میں حافظ الاسد کے اقتدار میں آنے سے شروع ہوئی، جس کے بعد 2000ء میں بشار الاسد نے اقتدار سنبھالا۔ اس عرصے میں ملک میں طاقت کا مرکز ایک چھوٹے اشرافیہ گروہ کے ہاتھوں میں رہا، جس نے سخت گیر پالیسیاں نافذ کیں اور اپوزیشن کو دبانے کے لیے بھرپور طاقت استعمال کی۔

الاسد خاندان نے ملک میں سیاسی استحکام کی دعوے کے باوجود عوامی سطح پر بے شمار مظالم اور ظلم و جبر کی حکمتِ عملی اختیار کی، جس کی وجہ سے عوامی عدم اطمینان میں اضافہ ہوا۔ اس کا نتیجہ خانہ جنگی کی صورت میں نکلا، جس نے شام کو کئی سالوں تک بحران اور تباہی کا شکار کیا۔۔ یہ تبدیلی شام اور خطے کی سیاسی ڈائنامکس میں بڑی تبدیلیوں کا باعث بنے گی، جس کے اثرات نہ صرف شام بلکہ عالمی سیاست پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔

2011ء میں عرب بہار کے دوران شام میں عوامی احتجاج شروع ہوئے، جن میں جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادی کے مطالبات کیے گئے۔ ان احتجاجات کو طاقت سے کچلنے کی حکومتی کوششوں نے جلد ہی ایک خونریز خانہ جنگی کی صورت اختیار کر لی جو 14 سال تک جاری رہی۔ خانہ جنگی کے دوران لاکھوں افراد جاں بحق ہوئے اور لاکھوں بے گھر ہو گئے۔ جنگ کے دوران مختلف اندرونی اور بیرونی قوتیں ملوث ہوئیں، جنہوں نے شام کو ایک پراکسی جنگ کا میدان بنا دیا۔ بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ عوامی احتجاج کی طاقت، بین الاقوامی دباؤ اور اندرونی کمزوریوں کا نتیجہ ہے۔ اس زوال کو ایک ایسے لمحے کے طور پر یاد رکھا جائے گا، جس نے شام کی تاریخ کا رخ موڑ دیا۔

شام کی خانہ جنگی اور اسد حکومت کے زوال نے مشرق وسطیٰ کی سیاست کو گہرے انداز میں متاثر کیا۔ لاکھوں شامی مہاجرین کی صورت میں اس جنگ کے اثرات عالمی سطح پر بھی محسوس کئے گئے۔ الاسد خاندان کے زوال کے بعد شام میں ایک نئے سیاسی نظام کی تشکیل ممکن ہے، لیکن اس عمل میں کئی چیلنجز کا سامنا ہوگا، جن میں قومی یکجہتی اور تعمیرِ نو شامل ہیں۔ یہ لمحہ اس بات کا غماز ہے کہ عوامی مزاحمت طویل عرصے تک دبائی جا سکتی ہے لیکن بالآخر وہ تاریخ کے دھارے کو تبدیل کر سکتی ہے۔

شام کی بغاوت کے مختلف مراحل میں اخوان المسلمین کا کردار ایک اہم اور تاریخی پہلو رکھتا ہے۔ اخوان المسلمین شام میں ایک طویل عرصے سے سرگرم رہی ہے اور اس کا اثر مختلف ادوار میں مختلف رہا ہے۔ شام کی خانہ جنگی کے دوران بھی اخوان المسلمین نے کسی حد تک کردار ادا کیا، لیکن اس کا کردار مکمل طور پر واضح یا مرکزی نہیں رہا۔ اخوان المسلمین شام میں 1940ء کی دہائی میں قائم ہوئی تھی اور شام کی سیاسی اور سماجی زندگی میں فعال رہی۔ 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں میں اخوان المسلمین اور حافظ الاسد کی بعث پارٹی حکومت کے درمیان شدید تنازعات پیدا ہوئے۔

شام کی خانہ جنگی کے دوران اخوان المسلمین نے باغی تحریک میں کسی حد تک کردار ادا کرنے کی کوشش کی، لیکن اس کا اثر مرکزی حیثیت حاصل نہ کر سکا۔ جنگ کے مختلف دھڑوں اور خارجی قوتوں کی موجودگی نے اخوان کے کردار کو محدود کر دیا، جب کہ دیگر اسلام پسند اور قوم پرست دھڑوں کے درمیان بھی اقتدار کی کشمکش جاری رہی۔ اس کے باوجوداخوان المسلمین شام کے سیاسی اور سماجی منظر نامے کا ایک لازمی حصّہ بنی رہی، جو عوامی تحریکوں اور اصلاحات کے لیے اپنی نظریاتی اور تنظیمی بنیادوں پر کام کرتی رہی۔

شام میں اخوان المسلمین کے کردار کو اس کے تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ تحریک ہمیشہ جبر کے خلاف مزاحمت اور اصلاحات کی داعی رہی ہے۔ تاہم موجودہ حالات میں اخوان کو دیگر دھڑوں کے ساتھ مل کر شام کے نئے سیاسی نظام کی تشکیل میں اپنا کردار متعین کرنا ہوگا۔ شام کی خانہ جنگی اور اخوان المسلمین کے کردار کی یہ کہانی اس بات کی گواہ ہے کہ جبر اور آمریت کے خلاف جدوجہد طویل اور صبر آزما ہو سکتی ہے، لیکن اگر اس میں اتحاد اور حکمتِ عملی شامل ہو تو وہ دیرپا تبدیلی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

1982ء میں ’’حماۃ قتل عام‘‘ کے دوران بعث حکومت نے اخوان المسلمین کے خلاف ایک بڑی کارروائی کی، جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئےاور اخوان المسلمین کے اراکین کو جلاوطنی یا زیرِ زمین سرگرمیوں پر مجبور ہونا پڑا۔ 2011ء میں شام کی بغاوت کے آغاز پر اخوان المسلمین نے حکومت مخالف مظاہروں کی حمایت کی۔ اخوان المسلمین کی قیادت نے اسد حکومت کے خاتمے کی کوششوں میں دوسرے اپوزیشن گروہوں کے ساتھ اتحاد قائم کیا، خاص طور پر ’’شامی قومی کونسل‘‘ (Syrian National Council) کے قیام میں۔ تاہم اخوان المسلمین کی تنظیمی طاقت جلاوطنی اور شام کے اندر کمزور نیٹ ورک کی وجہ سے محدود رہی۔

میدان میں اخوان المسلمین کا اثر انقلابی تحریک کے ابتدائی مراحل میں نسبتاً کمزور رہا کیونکہ مسلح جدوجہد زیادہ تر دیگر گروہوں جیسے کہ آزاد شامی فوج (Free Syrian Army) اور جہادی تنظیموں نے سنبھال لی تھی۔ اخوان المسلمین نے مسلح گروہوں کو مالی اور نظریاتی حمایت فراہم کرنے کی کوشش کی، لیکن اس کا اثر جبهة النصرة یا داعش جیسے جہادی گروہوں کے مقابلے میں کم رہا۔ اخوان المسلمین کو قطر اور ترکی جیسے ممالک کی حمایت حاصل رہی، جو اسد حکومت کے خاتمے کے لیے سرگرم تھے۔ اخوان المسلمین نے اپنے سیاسی اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوشش کی، لیکن سعودی عرب اور دیگر ممالک نے ان کی حمایت کرنے کے بجائے دوسرے اپوزیشن گروہوں کو ترجیح دی۔

شامی اپوزیشن کے اندر بھی اخوان المسلمین کو تنقید کا سامنا رہا، کیونکہ بہت سے گروہ انہیں ایک نظریاتی ایجنڈا مسلط کرنے کی کوششوں کے طور پر دیکھتے تھے۔ جہادی تنظیموں اور لبرل اپوزیشن گروہوں دونوں نے اخوان المسلمین کے کردار کو محدود رکھنے کی کوشش کی۔ شام کی خانہ جنگی میں طویل عرصے کے بعد اخوان المسلمین کا اثر بہت کمزور ہو چکا ہے، اور وہ سیاسی مذاکرات یا عسکری جدوجہد میں کوئی بڑا کردار ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کا اثر زیادہ تر نظریاتی اور مالی حمایت تک محدود ہےاور عملی میدان میں ان کی جگہ دوسرے گروہوں نے لے لی ہے۔(جاری )
رابطہ۔09422724040

[email protected]

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Elvis The new Queen Lifetime Video slot Enjoy Totally free WMS Online slots
Nordicbet Nordens största spelbolag med gambling enterprise och possibility 2024
blog
Elvis the new king Gambling establishment Online game Courses
Find Better On the web Bingo Web sites and you may Exclusive Also provides in the 2025

Related

کالممضامین

’’چاول کی آخری وصیت‘‘ جرسِ ہمالہ

July 14, 2025
کالممضامین

! اسرائیلی مظالم کے خلاف بڑھتا ہوا عالمی دباؤ | غذائی تقسیم کے مراکز پر بھی بھوکے فلسطینیوں کو قتل کیا جارہاہے

July 14, 2025
کالممضامین

چین ،پاکستان سارک کا متبادل پیش کرنے کے خواہاں ندائے حق

July 13, 2025
کالممضامین

معاشرے کی بے حسی اور منشیات کا پھیلاؤ! خودغرضی اور مسلسل خاموشی ہمارے مستقبل کے لئے تباہ کُن

July 13, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?