واشنگٹن //واشنگٹن سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون اور وائٹ ہاؤس کے درمیان شام میں ممکنہ فوجی کارروائی کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔جن اقدامات پر غور کیا جا رہا ہے ان میں شامی طیاروں کو اڑنے نہ دینا، شامی ریداڈ کو نشانہ بنانا اور عام شہریوں کے لیے محفوظ زونز قائم کرنا ہے۔اس سے قبل امریکی وزیرِ خارجہ ریکس ٹیلرسن نے کہا تھا کہ شام کے مستقبل میں بشار الاسد کی کوئی جگہ نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ شام میں منگل کو مشتبہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ایک سنگین معاملہ ہے اور اس کے لیے سنجیدہ جواب کی ضرورت ہے۔لیکن شام میں مشتبہ کیمیائی حملے کی خبروں کے بعد امریکہ کی پالیسی میں تبدیلی آئی ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی شام میں بظاہر شامی فضائیہ کی جانب سے کیے جانے والے کیمیائی حملے میں درجنوں عام شہریوں کی ہلاکت کی مذمت کی تھی۔انہوں نے کہا کہ جب آپ معصوم بچوں کا قتل کرتے ہیں، چھوٹے معصوم بچوں کا، اس سے تمام حدود کی پامالی ہوتی ہے۔'ڈونلڈ ٹرمپ نے اس موقع پر روس کا ذکر نہیں کیا جس کا موقف ہے کہ شامی باغیوں کے پاس جو کیمیائی ہتھیار ہیں شاید انھیں استعمال کیا گیا ہوگا۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا اب شام کے حوالے سے امریکی پالیسی میں تبدیلی آئے گی تو اس کے جواب میں انھوں نے کہا: 'میں آپ کو بتاؤں گا، یہ پہلے ہی ہوچکا ہے، شام اور اسد کے حوالے سے میرا رویہ کافی حد تک بدل گیا ہے۔ اب آپ بالکل مختلف سطح کی بات کر رہے ہیں۔'واضح رہے کہ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ شام کے صدر بشار الاسد کا تختہ الٹنا اب امریکی حکومت کی اولین ترجیح نہیں ہے۔شام پر سکیورٹی کونسل کے اجلاس کے دوران انھوں نے کہا 'روس دمشق میں اپنے اتحادی سے توجہ ہٹانے کے لیے بار بار وہی جھوٹا بیانیہ استعمال کرتا ہے۔