یو این آئی
نئی دہلی//شام میں آنے والی نئی حکومت نیک شگون قرار دیتے ہوئے پروفیسر محسن عثمانی سابق صدرشعبہ عربی ایفلو، حیدرآباد نے کہا کہ شام میں پچاس سالہ ظلم و جبر کا خاتمہ ہوا ہے۔ یہ بات انہوں نے اسلامک فقہ اکیڈمی کے زیر اہتمام مسلم امت کے مسائل مشرق وسطی کی حوالے سیکے عنوان کے تحت منعقدہ محاضرہ کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔انہوں نے کہا کہ شام کی بربادی میں ایران اور حزب اللہ کا سب سے بڑا ہاتھ تھا، مصر میں اخوانیوں کے موقف کی حمایت اور فلسطین میں حماس کی حمایت ایران کا قابل تعریف موقف ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ شام میں میں ایران کا نصیریوں کی حمایت کرنا قابل مذمت بھی ہے۔انھوں نے شام کے اپنے تجربات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شام میں ظلم کا عالم یہ تھا سیرت النبی کے جلسوں پر پابندی عائد تھی، وہاں کے علما کھل کرکوئی بات نہیں کرسکتے تھے، ہر وقت ان کی جاسوسی کی جاتی تھی، یہاں تک کہ ٹیکسی ڈرائیوروں کو ان کی جاسوسی پر لگا دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہاکہ مدارس کے نظام کو تباہ و برباد کردیا گیا تھا۔پروفیسر عثمانی نے مزید کہا کہ اسلام نے شورائی نظام سکھایا تھا لیکن خلافت کے بعد ایک ایسی غلطی ہوئی یعنی باپ کے بعد بیٹے کو حکمران بنانے کی غلطی جس کا خاتمہ آج تک نہ ہوسکا اور یہ بدعت آج تک چلی آرہی ہے۔ترجمان آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ڈاکٹر قاسم رسول الیاس نے محا ضرہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت مشرق وسطی میں جو صورتحال ہے مثلا بشار الاسد اور سیریا میں بمباری کے واقعات، اور عرب ممالک خاص طور سے سعودی عرب اور امارات وغیرہ میں عریانی اور مغربی کلچر کی تقلید وغیرہ یہ دردناک ہیں۔ موجودہ حالات میں اسرائیل اور فلسطین جنگ میں ایران کا رول قابل تعریف رہا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایران کی حمایت بشار کو بھی حاصل رہی ہے جس نے شام میں سنی مسلمانوں اور اسلام پسندوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیئے اور ایسی ایسی خوفناک سزائیں دی جس سے روح کانپ جاتی ہے۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب مسلم حکمرانوں مثلا کرنل قذافی، اور صدام حسین وغیرہ سے کافی امیدیں وابستہ کی گئیں، لیکن وقت کے ساتھ وہ امیدیں ٹوٹ گئیں۔
موجودہ حالات میں ترکی کی اردغان کی قیادت سے امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے وقت میں جبکہ اسرائیل فلسطین پر حملے کر رہا ہے ترکی نے اسرائیل سے اپنے تعلقات بھی قائم کھے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس وقت شام میں جو تبدیلی آئی ہے وہ چالیس سالہ ظلم کا خاتمہ ہے ور اس وقت جوحکومت آئی ہے وہ ایک عبوری حکومت ہے۔ شام کی نئی حکومت کا استقبال تو سبھی ملکوں نے کیا ہے چاہے وہ عرب ممالک ہوں یا دوسرے، لیکن اس نئی حکومت کی مدد کون کرے گا، یہ ابھی واضح نہیں ہے اس تبدیلی سے اتنی بات کہی جاسکتی ہے کہ یہ خوش آئند ہے، اور اس واقعہ سے ایک بدترین ڈکٹیٹر کی حکومت کا خاتمہ ہوا ہے اور اس کے ظلم سے راحت ملی ہے۔ الیاس نے اپنے محاضرہ میں کہا کہ شام کو ایک تاریخی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں بڑے بڑے صحابہ دفن ہیں، اللہ کے رسول بھی تجارت کے لیے یہاں آچکے ہیں، یہ اسلام کے لیے تاریخی ہے۔ لیکن یہاں جو لوگ حکومت پر قابض تھے وہ اسلام مخالف لوگ تھے، جبکہ یہاں کی غالب شہریت سنیوں کی تھی لیکن مطلق عنان حکومت اسلام مخالف لوگوں کے ہاتھ میں ہے جنھوں نے اسلام پسند لوگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔انہوں نے اسرائیل فلسطین جنگ کے حوالہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے جنگ کے بہانے معصوم لوگوں، بچوں، عورتوں، تعلیم گاہوں، اسپتالوں کو نشانہ بناکر برباد کردیا، آج فلسطینی عوام کے پاس کھانے، پینے اور زندگی گزارنے کے سامان نہیں ہیں، وہ کھلے آسمان کے نیچے زندگی گزارنے اور گندے پانی پینے پر مجبور ہیں، ان کے علاج کے لیے اسپتال اور دوائیاں نہیں ہیں، لیکن ان کے حوصلے ابھی پست نہیں ہوئے ہیں، پوری دنیا میں کوئی ایسی قوم نہیں ہے جس نے اس طرح سے ہمت و حوصلہ اور ایثار کا مظاہرہ کیا ہو۔محاضرہ کی نظامت ڈاکٹر صفدر زبیر ندوی نے کی۔محاضرہ میں علاقہ کے اہل علم اور دینی اداروں کے اساتذہ و طلبا نے شرکت کی۔