دمشق //شام میں جاری خانہ جنگی کے خاتمے اور دیر پا قیام امن کے معاملے پر امریکا اور روس کے درمیان ایک بار پھر شدید اختلافات سامنے آئے ہیں۔اگرچہ دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان شام میں جاری دہشت گردی کے خاتمے کے نکتے پر اتفاق ہے مگر دونوں ملکوں کا دائرہ کار الگ الگ ہے۔العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق حال ہی میں امریکی اور روسی وزرا خارجہ ریکس ٹیلرسن اور سیرگی لافروف کے درمیان ہونے والی ملاقات میں بھی شام کے ایشو پر اختلافات کھل کر سامنے آئے۔امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد نئی امریکی انتظامیہ نے شام کے حوالے سے سہ نکاتی پالیسی اپنائی۔ پہلے مرحلے میں شام میں داعش کی سرکوبی، شام میں پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے محفوظ زون کا قیام اور مستقبل میں دیرپا امن کا قیام ہے۔امریکا نے شام میں اپنی تزویراتی حکمت عملی پرعمل درآمد کے لیے روس کو ساتھ ملانے کا فیصلہ کیا مگر شام میں خان الشیخون کے مقام پر اسد رجیم کے کیمیائی حملے کے بعد امریکا نے شام کے حوالے سے اپنی حکمت عملی پالیسی تبدیل کی اور شامی فوج کے اڈے پر میزائلوں سے حملہ کر کے یہ تاثر دیا کہ واشنگٹن دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی پالیسی تبدیل کرسکتا ہے۔امریکی انتظامیہ کی طرف سے یہ تاثر دیا گیا کہ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی کسی صورت میں اجازت نہیں دی جائے گی اور وسیع پیمانے پر اسلحہ استعمال کرنے والے ملک کے خلاف کارروائی کا امکان موجود رہے گا۔امریکی مبصرین کا کہنا ہے کہ آستانہ میں چوتھے شامی مذاکرات میں شرکت صرف سفارتی مشق ہے۔ اس سفارتی مشق میں روس نے امریکی کردار چرایا اور جو پالیسی امریکا نے شام کے حوالے سے اختیار کی تھی اسے اپنے ایجنڈے میں شامل کیا۔امریکی حکومت نے شام میں جنگ بندی کے لیے ایرانی کردار پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔ امریکا کا موقف ہے کہ شام میں جنگ بندی کے لیے ایران کو اختیارات فراہم کرنا اور شام میں ایرانی مداخلت کو مستحکم اور اسد رجیم کے لڑکھڑاتے قدم مضبوط کرنا ہے۔امریکا نے شام میں ایرانی کردار کے حوالے سے اصولی موقف اختیار کیا ہے اور کہا ہے کہ ایرانی مداخلت سے شام میں دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر ہوگی۔ آستانہ مذاکرات کے دوران بھی امریکی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں واضح کیا کہ شام میں ایرانی سرگرمیاں اور مداخلت خون خرابے کو روکنے میں مدد دینے کے بجائے تشدد کو ہوا دے رہی ہیں۔اس باب میں سب سے بدتر عالمی سلامتی کونسل میں روس کی وہ قرارداد ہے جس میں عالمی برادری کو شام میں جرائم کو طول دینے کے ایرانی کردار کی حمایت پر قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔شام میں ایک طرف امریکا کرد اور عرب ڈیموکریٹک فورسز کے تعاون سے داعش‘ سے الرقہ شہر کو آزادی کرانے کے مشن پرعمل پیرا ہے۔ اگرچہ اس مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں وقت درکار ہوگا۔ دوسری طرف روسی حکومت عرب اور کرد فورسز کی مدد سے جنوبی شہر بوکمال سے شمال کی طرف آگے بڑھتے ہوئے شام اور عراق کی سرحد تک پہنچنا ہے اور اس دوران دیر الزور شہر تک اپنا قبضہ مستحکم کرنا ہے۔ دیر الزور پر روسی قبضے کا راستہ تہران سے ہوکر گذرتا ہے اور اس اہم تزویراتی شہر پر روسی فوج کے کنٹرول کا اگلا ہدف ’دیر الزور‘ پر ایران کا اثرو نفوذ قائم کرنا ہے۔اسی دوران اسد رجیم ’تدمر‘ شہر کا کنٹرول دوبارہ اپنے ہاتھ میں لینے کے ساتھ ساتھ دیر الزور کی طرف پیش قدمی کرنا اور شام اور عراق کو ملانے والی بین الاقوامی شاہراہ کو باغیوں سے چھڑانا ہے۔