یونان کا جزیرہ لیس بوس میں سمندری طغیانی عروج پر ہے۔ ساحل کی پٹی پر ایک ریسکیو اہل کار ایک معصوم کلی کو اٹھائے کنارے کے اور بڑھ رہا ہے۔ نازک کلی کی آنکھیں بند ہیں۔ نیم بے ہوشی کے عالم میں یہ معصوم و بے زبان پھول چہرہ کون ہے؟ یہ سمند ر میں کیوں ڈوبا ہوا ہے؟ سمندر کی ہیبت ناک موجوں میں اپنی جان کی بازی لگانے والا کیا یہ صرف اکیلا ہے؟قارئین کرام! اس مرے ہوئے بچے کے بارے میں سوالوں کا گھنا جنگل جوں جوں اپنے طول وعرض کو پھیلائے گا، آپ جوابات کے جوار بھاٹا میں خود ڈواب ہو اپائیں گے۔ یہ شام کے واحد ایک بچے کی سرگزشت نہیں بلکہ ایسے اَن گنت معصوم پھول ہیں جو کبھی ترکی کے ساحل پر اوندھے منہ پڑے ساری دنیا کو رلا دینے والے منظر پیش کر گئے اور کبھی بمباری کے ہدف بن کر تصویروں کی زبانی اپنا حال احوال سناکر لوگوں کو اشک بار کر گئے۔ یہ ننھے ننھے مر جھائے ہوئے پھول ایسی کر ب نا ک داستانیں اپنے پیچھے چھوڑتے ہیں کہ دنیا کے سفاک و سنگ دل بھی بے اختیار رو پڑتے ہیں۔ آخر یہ کون لوگ ہیں جن کے ہزاروں خاندان دنیاسے حرف ِ غلط کی مانند یک بار مٹا دئے گئے؟ آج یہ چھ لاکھ بے حس وحرکت قبروں کو آباد کئے ہوئے ہیں ۔ آہ !ان بستیوںمیں رہائش پذیر آبادی پر ہزاروں کلسٹر بموں کی بارش کر کے بچوںو بزرگوں، خواتین وجوانوں کے خون کی ہولی کھیل گئی اور انہیں تڑپا تڑپا کر پیوند خاک کر دئے گئے ہیں ۔
آخر یہ مجرم ہیںکون جن پر کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار استعمال کر کے انہیں سفر عدم کی طرف فوج درفوج روانہ کر دیا گیا۔ سارے عالم نے دیکھا کہ شام کی ننھی کلیاں اور جوان مرد اور دوشیزائیں تڑپ تڑپ جانیں دے رہی ہیں۔ کیمیائی گیس کے زیر اثر اس دوران اُن کے جسم نیلے پڑ رہے ہیں، منہ سے جاگ اُگل رہے ہیں اور خون نکل رہاہے ، اُن کے خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں، ان کے کٹے پھٹے اعضا ٔبکھر رہے ہیں ، مر نے والوں کے پیارے ان پر پانی ڈال کر ان کی گنتی کی چند سانسیں بڑھا نے کے لئے تڑپ رہے ہیں، باپ کی گود میںاُس کے ننھے پھول پژمردہ ہورہے ہیں ، بیٹی ماں کی نگاہوں کے روبرو دنیا سے الوداع لے رہی ہے ، بیوی کےآغوش میں اس کا شوہر تڑپ تڑپ کر اپنی آخری سانس لے رہا ہےاور ہزاروں مائیں اپنے لخت ہائے جگر کو آنچل میں چھپائے سینے سے چمٹائے غاروں اور کھنڈروں میں چھپ کر زندگی کی بھیک مانگ رہی ہیں۔ نہ جانے ان بے خانمان لوگوں کے لیے پانی اور کھانا کدھر سے آتا ہوگا؟وہ کہاں اٹھتے بیٹھتے ہوں گے، کتنے دل کے ٹکڑے اپنے والدین کے کندھوں پر سوار ہو کر اپنی اور اپنے والدین کے لئے مہلت ِ زندگی کے لئے ترستے ہوں گے ۔ یہی کر تے کر تے شام کے ستم رسیدہ لوگ بشار الاسد اور اس کے ظالم و قاتل اتحادیوں سے اپنی جانیں بچانے کے رقص نیم بسمل میں کئی سال سے قربان ہو رہے ہیں،لیکن افسوس کہ ان کےدکھوں اور غموں سے کسی کا دل نہیں پسیجتا، کسی کی آنکھوں کا سمندر نہیں بہتا، کسی کے من میں انسانی ہمدردی کا سو تا پھوٹ نہیں پڑتا، کسی گوشت پوست والے تماشہ بین کو ان پر ترس نہیں آتااور نہ کسی اقوام متحدہ اور کسی عالمی رائے عامہ کے آرام میں خلل پڑتا!!! اس سے بڑھ کر المیہ اور کیا ہوسکتا ہے۔
دنیا ئے انسانیت کو صاف طورمحسوس یہ ہورہا ہے کہ سبھی شام کی بربادی کا تماشا دیکھ رہے ہیں اور عالمی غنڈوں اور بشار الاسد کے قاتل ہم نواؤں کی خواہش بلکہ تمنا یہ ہے کہ یہ خونی تماشا یو نہی قیامت تک چلتا رہے، شام کے قریہ قریہ بستی بستی میں خون کی ندیاں بہتی رہیں اور مسلمان آبادی کے شب و روز لہو کی سرخی میں ڈھل جائیں۔آب آپ سوچ رہے ہوں گےکہ یہ بدقسمت شامی مسلمان مظلومیت کے مارےا ور بے نوائی کے ستائے ،در در کی ٹھوکریں کھانے والے لوگ ہیںکون جن پر ملک کا قلیل التعداد حکمران طبقہ ہوس اقتدار کی بھوک میں سگِ حریص کی طرح مقامی مسلمانوں پرحملے آور ہے۔؟ عالمی امن و آشتی کی نام نہاد علمبردار تنظیم اقوام متحدہ ان بھیڑیوں کے سامنے بے بس کیوں بن کے رہ گئی ہے؟ عرب ممالک کے بادشاہ اور ڈکٹیٹر خاموش تماشائی بن کر کیوں شامی مسلمانوں کی تباہی پر مہر بلب ہیں ؟ دنیا کے تمام مسلم ممالک، جمہوریت کا دعوے دار مغرب ، انسانی حقوق اور خیر کثیر کے طرف دار لوگ شام کے نہتوں کی بربادی کا تماشا کیوں دیکھ رہے ہیں؟ ان کی رگ ِ حمیت کیوں پھڑکتی نہیں ، کوئی صدائے احتجاج کیوں کسی گوشہ سے بلند نہیں ہورہاہے ۔ کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ دنیا میں انسانیت کی تجہیز وتکفین ہو چکی ہے اور اب اس کی جگہ بہیمیت اور درندگی نے لی ہے ؟ دنیا کا خو د ساختہ اردلی امریکہ اور روس شا م میں ہوائی حملوں کے بغیر کوئی بات ہی نہیں کرتے ، وہ کھلے عام کیمیائی اسلحہ کی دھمکیاں بھی دیتے ہیں۔ کیا شام کی سرزمین ان کے باپ کی جاگیر ہے کہ انہوں نے اسے ایک ودسرے کو پچھاڑنے اور تاریخ کا انتقام لینےکے لئے ایک رزم گاہ بنایا ہو اہے؟یہ خطہ ٔ نور آج دنیا کے مظلوم و مجبور ترین قوم کا مسکن بنا یا گیا ہے مگر اس کی خاک ِ مطہر کا تعلق انبیاء کرامؑسے ہے۔ امام کونین صلی االلہ علیہ وسلم نے خصوصی دعافرمائی ہے :اے اللہ !شام والوں پر رحمت و برکت فرما(بُخاری)شام دنیا کے قدیم ممالک میں سے ایک ا ہم ملک ہے اور یہ مختلف تہذیبوں کا نورانی مرکز رہا ہے۔ اس پر یہاں کے کنعا نوں، عبرا نیوں، اسطو ریوں، بخت نصر، یونانیوں، رومیوں، ایرانی اور عربوں نے حکومت کی۔ ۶۳۶ ھ میں مسلمانوں نے اسے فتح کیا۔ ۶۶۱سے ۸۰ تک یہاں اموی سلطنت قائم رہی، پھر عباسیوں نے اسے فتح کیا ۔۱۰۱۷ میں سلطان سلیم عثمانی نے شام کو فتح کیا، اُس کے بعد بیسویں صدی کے شروع تک یہ سلطنت عثمانیہ کے ماتحت رہی۔ ۱۹۲۰ میں فرانس نے شام پر مکمل قبضہ کر لیا اور اُس نے برطانیہ کے ساتھ مل کر ایک سازش کے تحت خفیہ معاہدے کیے جس میں شام کو تقسیم کر کے ایک حصہ یہود کی ناجائزریاست کو دیا گیا اور دوسرا حصہ مسلم آبادی کے حوالے کیا ۔ عالم اسلام کی آنکھوں کا تارا سیف اللہ خالد بن ولیدؓ یہاں محو استراحت ہیں اور فاتح بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبی، سرخیل اسلام عثمان بن تنبیہ ، ابن قیم، عظیم مورخ ابن عساکر ان سب چمکتے ہیروں کا تعلق اس سرزمین شام سے ہے جو صدیوں سے حریت و غیرت فکر و فلسفہ کا درس دیتے تھے۔شام میں حافظ الاسد نصیری نے نومبر ۱۹۸۰ میں اقتدار پر قبضہ کیا۔ اس شخص نے یہاں خوف و ہراس پھیلا کر اپنا سکہ جمایا ۔حمات کے شہر والے باشندوں نے اس ظلم کے خلاف احتجاج کیا تو ۱۹۸۶ میں حمات کی جامع مسجد کو شہید کیا گیا۔ اس پندرہ روزہ خونی آپریشن میں بیس ہزار سے زائد مسلمان شہید کر دئے گئے۔۲۰۰۰ میں حافظہ الاسد مر گیا ،اس کے بعد اس کا بیٹا ڈاکٹر بشار الاسدحکومت میں اس کا جا نشین ہوا۔ آج سے چار سال قبل مشرق وسطیٰ میں عوامی انقلاب ’’عرب بہاریہ ‘‘ کے نام سے برپا ہوا جس نے پورے مشرق وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ ان ملکوں میں شام بی سر فہرست تھا۔ یہاں انقلاب کا آغاز جنوبی شہر درعا سے ہوا جس کو ازرات شام بھی کہا جاتا ہے جو دمشق سے ۱۰۱ ؍کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس شہر کے ماڈل سکول کے طلبہ نے آزادی شام کے نعرے کلاس روم دیواروں پر لکھے لیکن یہ حرکت بشارکے لیے ناقابل معافی جسا رت تھی۔ چنانچہ خفیہ پولیس نے اس سکول سے دو سو بچوں سمیت ۵۰۰ طلباء کو گرفتار کر لیا اور ان پر بدترین تشدد کیاگیا، جب کہ معصوم بچیوں کی بے حرمتی کی گئی۔ ۱۰۰ بچوں کی انگلیاں کاٹ دے گئیں، یہاں تک کہ خفیہ ادارے کے غنڈوں نے آٹھ سالہ بچوں تک کاتھرڈ ڈگری ٹارچر کیا۔ مزید ظلم یہ کہ جب والدین نے پولیس سے اپنے لخت جگروں کی رہائی کا مطالبہ کیا تو ان درندوں کا جواب تھااب وہ تمہیں اگلے جہاں میں ملیں گے۔ اس جواب پر عوام مشتعل ہو گئے اور پورا درعا سڑکوں پر نکل پڑا۔ اس کے جواب میں سفاک حکومت نے ان لوگوں پر ٹینکوں اور توپ خانوں کا بھر پور استعمال کیا جس سے یہ ہنستا بستا چھوٹا سا شہر خون کی بہتی ندی میں بدل گیا۔ ۲۰۰ ؍ سے زائد معصوم شہری برسر موقع شہید کر دئے گئے۔ تاریخی مسجد عمر بن خطابؓؐ کو شدید نقصان پہنچا یا گیا۔ اہل درعا سے اظہار یکجہتی کے لئے مسلمان حمص، حلب، انطاکیہ، اور دارلحکومت دمشق کے شہر بھی سڑکوں پر نکل پڑے تو ان کی آواز دبانے کے لئے انہیں بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ساحلی شہر با نیّا س کی خواتین مظاہرے میں آگے آگے تھیں جن کو ڈپٹی چیف آف سٹاف جنرل آصف شوکت (اسد کا بہنوئی) نے اپنی موجودگی میں تمام خواتین مظاہرین کو مشین گنوں سے بھون ڈالا ۔ ساحل سمندر سے جنگی جہازوں سے بھی مظاہرین پر گولے داغے گئے۔ اسی طرح حمص کے شہر میں خونی آوپریشن شروع کیا گیا۔ یہ ایک لاکھ کی آبادی کا شہر تھا جو لبنان کی سرحد کے قریب تھا، یہاں نصیریوں نے اپنے مخالف مسلک والوں پر اندھا دھند بمباری کر دی۔ چشم فلک نے بھی یہ منظر دیکھا جب حمص کے شہر کی گلیوں میں خون کی ندیوں بہہ رہی تھیں، اور درندگی کی انتہا یہ تھی کہ بچے کچھے لوگ جب ہلاک شدگان کا جنازہ پڑھنے لگے تو ظالموں نےگلی سڑی لاشوں پر دوبارہ بمباری کر دی۔ حکومت شام نے قاتلوں ، لٹیروں،شہوت پسندوں اور ظالموں کی اسد ملیشیا تشکیل کر کے خون ریزیوں کی وہ سیاہ تاریخ رقم کردی ہے جس سے انسانیت پر کالک پوت دی گئی ہے۔ یہ مسلح لوگ سر سے پاؤں تک سیاہ وردی زیب تن کر کے گویا موت کے چلتے پھرتے کارندے لگتے ہیں۔ ان کے بازو ؤں پر بندھی سرخ پٹی ان کی خونخواری کی علامت کے علاوہ عزتوں کے لٹیرے کا اشارہ دیتی ہے ۔ یہی ظالم کئی سال سے شام کے طول وعرض میں معصوموں کا قتل عام بھی کر رہے ہیں اور عزت ریزیاں بھی کر تے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۱ سے اب تک شام میں لاکھوں شہری ہالک کئے جاچکے ہیں ، تباہیوں کے اعداد وشمار کا احاطہ کر نا ممکن نہیں ، جب کہ ۷۰ ؍ہزار سے زائد شہری لاپتہ ہیں۔ اسکے باوجود کسی بھی مسلم یاغیر مسلم ملک میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں کہ اس سرکاری دہشت گردی اور سفاکیت کے خلاف اپنے لبِ اظہار پر پڑے تالے کو کھول دے تاکہ انسانیت کے ان کھلے دشمنوں کی نکیل کسی جاسکے۔ اس وسیع پیمانے پر قتل وغارت گری اور خون خرابے کے پس پردہ امریکہ کا پروردہ جارحیت پسندگندا یہودی دماغ دخیل ہے جو اسد کی پیٹھ ٹھونک کر اس کی محاذ جنگ پر ہر نوع کی کمک پہنچا رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ انتشارِ امت کا نشانہ بھی پورا کر رہاہے ، تاکہ سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ یہ فتنہ پرور دماغ اسد کے تخت وتاج کو حفاظت کا ہالہ بھی فراہم کر رہاہے اور اس کاتختہ ٔ مشق بننے والے مسلمانوں کو تہِ تیغ کروارہاہے تاکہ گریٹراسرا ئیل کا خواب شرمندہ ٔ تعبیر ہو ۔ صیہونیت کےآلہ ٔ کار مڈل ایسٹ کے حکمران ڈرا ر ہے ہیں تاکہ ایک ہاتھ اس جنگ وجدل کے اصل مہیب چہرے زیر حجاب رہیںاور ودسرے ہاتھ مفت میں شام میں اغیار کے ظلم وتعدی کو جوازیت فراہم ہو سکے ۔ حالانکہ امریکہ اور یہود کی جانب سے کھڑی کی گئی داعش عراقی عوام پر حملے کرتی ہے، شامی لوگوں پر دھاوا بولتی ہے ، افغانستان اور دوسرے ممالک میں مسلم آبادیوں کا جینا حرام کررہی ہے ، حرمین شریفین پر قبضہ کرنے کی دھمکیاں دے رہی ہے اور پوری دنیا میں خون کی ہولی کھیلنے کے مسلم ممالک کو روند رہی ہے۔ دنیا کی آنکھوں پر یہ حقیقت حال اظہر من الشمس ہے کہ شام میں داعش کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑنے کی آڑ میں اسرائیل ، امریکہ اور روس اسد سے مل کر مسلم آبادی والےشہروں اور قصبوں کو تاراج کر تے جارہے ہیں اور ان کی اینٹ سے اینٹ ملاکراپنی اصل شیطانی خصلت کا بے تکان مظاہر ہ کر تے جارہے ہیں ۔ ان کا اصل ہدف یہ ہے اسرائیل کو دوام بھی ملے اور اس کے جغرافیائی حدود کی توسیع ہو اور عرب دنیا امر یکہ اورا سرائیل کی بندھوا مزدور بن کر رہے۔ بہر حال قانون مکافاتِ عمل یہی کہتا ہے کہ اس گیم پلان کے برعکس ہوگا یہ کہ دیر سویر بشارالاسد کی شام رسواکن ہزیمت ہوگی ، ساتھ ہی اس کے حلیفوں اور اتحادیوں سمیت منافقت کی ماری عرب بادشاہتوں کو برے انجام سے دوچار ہونا ہوگا ، جب کہ شام میں امریکہ ، روس اوریہود کی سلگائی ہوئی بدترین آگ سے خود ان تینوں کا وجود بھسم ہو جائے گا۔ انشاءاللہ۔
فون نمبر 7051252465
�