شام کئی سال سے خون خو ار بشار الاسد اور اس کے حربی اتحادیوں کی جنگ، جارحیت اور آتشیں چنگیزیت میں جھلس رہاہے ، مر رہاہے ، تباہ ہورہاہے ، نمونۂ عبرت بن رہاہے ، دنیائے انسانیت ہے کہ اس کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ گزشتہ ہفتہ عشرہ سے جنگ زدہ شام کی دل دہلانے والی ایسی ہولناک تصویریں پوری دنیا میں دیکھی گئیں جن کو دیکھ کر روح کانپتی ہے اور جسم تڑپ اُٹھتا ہے ۔ اسد ی فوج اور روسی طیارے مظلوم شامی بچوں،نوجوانوں ،عورتوں اور بزرگوں سمیت شاندار اور خوبصورت عمارتوںپر بم اور توپیں برسا برسا کر بلاروک ٹوک اَن گنت لوگوں کو شہید اورزخمی کر تے جا ر ہے ہیں ۔ بم اور بارود کے انبار نہتوں پراستعمال کرتے یہ ظالم نہیں دیکھتے کہ اِن کی زد میں کس مسلک ومشرب کا آدمی آ رہا ہے بلکہ یہاں انسانیت کو ختم کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ آمراسد نے اپنی خباثتوں کو جمع کرنے میں آدم خور درندوں کو بھی مات دے ڈالی ہے۔حلب،حمات اور دیگر بڑے شہر راکھ کے ڈیر میں تبدیل ہو گئے ہیں اور اب غوطہ پر بموں اور بارود کی برسات کی جا رہی ہے۔بشارالاسد اپنی کرسی کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے ۔بی بی سی رپورٹس کے مطابق غوطہ میں موجود’’ باغیوں‘‘ کا تعلق کسی ایک گروہ سے نہیں بلکہ یہ کہیں چھوٹے گروہ ہیں جن میں جہادی بھی شامل ہیں ،حالانکہ یہ گروہ آپس میں بھی لڑ رہے ہیں۔اس کا فائدہ شامی حکومت کو ملا ہے ۔علاقے میں سب سے بڑا گروہ جیش السلام اور اس کا حریف گروہ فیلک الرحمان ہے ۔فیلک الرحمان ماضی میں جہادی گروہ حیات الشام کے ساتھ لڑتا رہا ہے جو کہ النصرہ فرنٹ کا ایک دھڑا ہے ۔ان چھوٹے سے باغی گروہوں سے اسد حکومت اپنی کرسی بچانے کا اتنا خوف ہے کہ اس نے غوطہ میں خون کے دریا بہا دئے ہیں ۔بچوں کی کٹی پھٹی لاشیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے کلیاں مسلی گئیں ہوں ۔ان زخمی بچوں کی روتی بلکتی تصویریں دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ کوئی پتھر دل انسان بھی درد انگیز تصویریں دیکھنے کی جرأ ت نہیں کر سکتا۔ایک رپورٹ کے مطابق تادم تحریر شام کے دارلحکومت دمشق کے نواح میں واقع علاقے مشرقی غوطہ میں اسدی فوج کی فضائی بمباری کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد چار سو سے بڑھ گئی ہے ۔شام کے لڑاکہ طیاروں نے گزشتہ چند دنوں کے دوران باغیوں کے زیر قبضہ مشرقی غوطہ کے علاقوں پر تباہ کن اور وحشیانہ بمباری کی ۔برطانیہ میں قائم شامی رصد گاہ برائے انسانی حقوق نے ایک بیان میں کہا ہے کہ شامی رژیم اور اس کے اتحادی روس کے تباہ کن فضائی حملوں اور توپ خانوں سے شدید گولہ بار ی سے پانچ روز میں 464شہری شہید کئے جا چکے ہیں جن میں 100؍بچے بھی شامل ہیں جب کہ2100 شہری زخمی ہوئے ہیں ۔ اس رنج دہ ساری صورتِ حال کا نظارہ ہ اُمت ایسے کر رہی ہے جیسے شام میں کچھ ہو ہی نہیں رہا۔ کیا ۵۷؍ مسلم ممالک کے حکمرانوں کو سانپ سونگھ گیا ہے ؟ابھی تک کہیں سے یہ رپورٹ کیوں نہیں آئی کہ کسی ایک ملک میں اس کھلی جارحیت پر عوام کی طرف سے احتجاج ہوا ۔اس سارے ظلم و ستم کے بعد بھی دنیا کے مسلمان اور دنیا کے وہ ممالک جوخود کو تہذیب و تمدن ،آزادی ٔنسواں ،مساوات ،جمہوریت کے علمبردار اور امن کے دعوے دار جتلاتے ہیں ،ٹس سے مس نہیں ہو رے ہیں ۔اوروں سے کیا گلہ جب مسلم ممالک کی بے نیازی اور لاپروئی کا یہ حال ایسا ہو تو ہم غیروں سے کیا توقع رکھیں۔ حالانکہ نبیٔ مہربان ﷺ نے فرمایا ہے کہ مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں، اگر ایک عضو کو تکلیف ہو تو سارا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، اس لئے کوئی مسلمان نہ اپنے دوسرے بھائی پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اسے ظلم کرنے کے لئے کسی دوسرے کے حوالے کرتا ہے ۔اگر آج ہمارا دل ملک شام دشمن کے ہاتھوں زخم زخم ہو رہا ہے، ہماری آنکھ فلسطین میں پھوڑ ی جارہی ہے، ہمارا جگر برما میں کاٹا جارہاہے ، اس کے باوجود بھی ہم اس درد کو محسوس نہیں کر رہے ہیں ؟یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے ؟ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم ممالک کے سربراہان جلد از جلد شام کے مظلوموں اور مقہوروں کی مدد کے لئے آگے آئیں اور خود مسلم ممالک کی باغیرت آبادیوں کو دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں اپنی آواز بلند کرنی چاہیے ۔ اس وقت شام کے بے یار ومددگار کے بلکتے بچے ، روتی مائیں ، چادر اور چار دیوار سے محروم کی گئیںبہنیں ، شہید ہورہے نوجوان اور اشک بار بزرگ پھٹی پھٹی نگاہوں سے راہ تک رہے ہیں کہ کب مسلمان ان کی مدد کو آئیں ۔ وقت کی پکار یہی ہے کہ اُمت مسلمہ اُٹھے اور شام کے مظلوموں کے حق میں ہر محاذ پراستطاعت بھرمددگار کا کردارادا کرے ۔اگر ہم نے ایسا اب بھی نہیں کیا تو وہ وقت دور نہیں کہ جب ہمیں بھی ان ہی کی طرح اپنے بچاؤ میں اوروں کو مدد وحمایت کو پکارنا پڑے گا لیکن اس وقت ہماری مدد کو کوئی نہیں آئے گا تاکہ قانونِ قدرت ہم سے بدلہ لے کر رہے ۔
غور طلب ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ ایک وقت آئے گا جب اقوام عالم تم(مسلمانوں) پر یوں پل پڑیں گیں جیسے کہ بھوکے کھانے کے تھال پر ٹوٹ پڑتے ہیں ‘‘صحابہ نے عرض کیا:’’اے اللہ کے رسول ؐکیا یہ اس وجہ سے ہوگا کہ تب ہم تعداد میں کم ہوں گے ؟آپ ﷺ نے فرمایا :’’نہیں تعداد میں اس وقت تم بہت زیادہ ہوں گے، مگر تمہاری حیثیت خس و خاشاک جیسی ہوگی کہ جیسے خس و خاشاک سیلاب کی سطح پر (تیرتے ہیں )،اللہ تعالیٰ دشمنوں سے تمہارا رعب و دبدبہ ختم کرے گا اور تمہارے دلوں میں کھوکھلا پن (وہن)پیدا کر دے گا۔ایک سائل نے دریافت کیا :اے اللہ کے رسولؐ یہ ’وہن‘ کیا ہے ؟فرمایا دنیا کی محبت اور موت سے نفرت ۔ہم دیکھتے ہیںآج دنیا میں اُمت مسلمہ کی یہی حالت ہے۔امت مسلمہ اس وقت دنیا میں ۵۷ ممالک میں آباد ہے جو دنیا میں ہر طرح کے ذرائع اور وسائل سے مالامال ہے ،یہ چاہے تیل کے کنویں ہو ں یا سونے اور دیگر معدنیات کی کانیں، سائنس و ٹیکنالوجی ہو یا ایٹمی و نیوکلیائی ہتھیار لیکن یہ سب کچھ ہونے کے باوجود دنیا میں اس وقت اگر کوئی قوم وملت دنیا بھر میںمظلوم ومحکوم ہے تو وہ یہی اُمت مسلمہ ہے ۔عثمانی خلافت کے چھن جانے کے بعد غیر اقوام نے اُمت مسلمہ کو تہہ تیغ کرنا شروع کر دیا ۔اُمت مسلمہ جو کہ اصل میں اُمت مرحومہ ہے، اس وقت دنیا میں ہر طرح سے غیروں اور اپنوں کے ہاتھوں پٹ رہی ہے اور ساری دنیا اس طرح تماشائی بنی ہوئی ہے جیسے یہ کوئی سرکس کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔اُمت مسلمہ کو ایک سازش کے تحت قوموں ملکوں ،مسلکوں ،جماعتوں اور گروہوں میں غیروں نے ایسے بانٹ دیا جیسے کہ یہ ایک اُمت ہے ہی نہیں۔اُمت کو بانٹ کر کے ہم دیکھتے ہیں دنیا کی بڑی بڑی شیطانی طاقتوں نے اُمت مسلمہ کو گاجر مولی کی طرح کا ٹ دیا۔ کہیں پہ نام نہاد مسلمانوںمیں سے ہی ایسے درندے تیار کیے گئے جنہوں نے اُمت کا قتل عام کار ِ ثواب جان کر کیا اور کہیں پہ ان شیطانی طاقتوں نے براہ راست مسلمانوں کو چن چن کر مار ڈالا ۔ہم دیکھتے ہیں دینا کی ایک شیطانی طاقت جسے ہم امریکہ کے نام سے جانتے ہیں، نے عراق پر ہزاروں ٹن بارود برسایا وہاں کی منبر ومحراب ،اسکول اور ہسپتال اور عالی شان عمارتوں کو زمین بوس کر کے لاکھوں مسلمانوں کو شہید کر دیا ۔اُس وقت کے شیطان صفت صدر جارج بش نے عراق کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے کی یہ دلیل دی کہ وہاں پر ویپن آف ماس ڈسٹرکشن weapons of mass distraction)) موجود ہیں اور پھر دنیا نے دیکھ لیا امریکہ وہاں سے ایک سوئی بھی برامد نہیں کر سکا ۔اسی طرح سے ہم نے یہ بھی دیکھا کہ اسی شیطان نے افغانستان پر بم اور بارود کی بارش کر کے افغانستان کے لاکھوں بچوں کو یتیم اور ہزاروں ماوئوں بہنوں کو بیوہ کر دیا اور یہ سلسلہ اب بھی شدومد سے جاری ہے۔امریکہ نے اتنا بارود افغانستان پر برسایا کہ بلوں میں چھپے کیڑے مکوڑے بھی نہ بچ پائے ۔اسی امریکہ کی ناجائز اولاد جسے دنیا اسرائیل کے نام سے جانتی ہے ،نے فلسطین کے ایک ایک بچے کو جیسے اپا ہچ کرنے کا ٹھیکہ لے رکھاہے، بموں اور میزائلوں کی برسات کر کے فلسطین سے مسلمانوں کے خاتمے کی کوشش کے ساتھ ساتھ یہ دہشت گرد ملک قبلۂ اول کو گرانے کی ناکام اور نامراد کوششیں کر رہاہے۔ ادھر انڈیا کشمیر کاز کو دبانے کے لئے لاکھوں یتیموں اور ہزارہا بیوائوں کی ایک فوج تیار کر چکا ہے اور ایسے نہ جانے کتنے جوان ہیں جن کو تعذیب خانوں اور جیلوں میں دھکیل دیا گیا ہے اور برما میں مسلمانوں کو جانوروں کی طرح کاٹا جارہاہے اور جو زندہ بچے وہ ملک بدرہو نے میں ہی عافیت سمجھ رہاہے ۔ اس سارے ظلم و ستم کے باوجود مسلم دنیا خاموش تماشائی بن کر اس قتل عام کا نظارہ کر رہی ہے جب کہ کہیں ایک بے ضمیر اور سنگ دل مسلم حکمران امت کو تہ تیغ کر نے والے قاتلوں اور ظالموں کا کھلم کھلا ساتھ بھی دے رہے ہیں، انہیں ملکی تمغے بھی عطاکر رہے ہیں اور بت خانے بنانے کے لئے زمینیں بھی دے رہے ہیں۔ ایسے میں شام کی گھمبیرصورت حال ہم سب کے لئے ایک تازیانۂ عبرت ہے ۔
رابطہ نمبر 9906664012