محمد امین میر
جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے واضح طور پر حکم دیا ہے کہ شاملات کی زمین، خاص طور پر وہ جو مویشی چرانے (کچچرائی) یا دیگر عوامی مقاصد کے لیے مخصوص ہیں، اور وہ سرکاری زمین جو کسی بھی شکل میں غیر قانونی طور پر قابض کی گئی ہے، فوری طور پر واگزار کرائی جائے۔یہ زمینیں عوام کی مشترکہ فلاح و بہبود کے لیے مختص ہیں اور ان کا مقصد اسکولوں، سرکاری اداروں، کھیل کے میدانوں اور دیگر ضروری عوامی انفراسٹرکچر کی ترقی ہے۔
تاریخی اور قانونی پس منظر:
تقریباً سو سال قبل جب زمینوں کی حد بندی (Settlement) ہوئی، تو ان زمینوں کو ’’شری سرکار دولت مند‘‘ کے طور پر درج کیا گیا، جس کا مطلب تھا کہ حکومت کے پاس عوام کی ضروریات پوری کرنے کے لیے وافر زمین موجود ہے اور کوئی بھی فرد ان زمینوں پر ذاتی ملکیت کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔قانونی اور آئینی طور پر ریاست پر لازم ہے کہ وہ اپنی زمینوں کی حفاظت کرے۔ اگر کسی بھی وقت یہ معلوم ہو کہ سرکاری زمین پر ناجائز قبضہ ہو چکا ہے، تو حکومت کو مکمل اختیار حاصل ہے کہ وہ اسے واپس لے۔ماضی میں عوام میں یہ خوف موجود تھا کہ اگر وہ سرکاری زمین پر قبضہ کریں گے تو سخت قانونی کارروائی ہو گی، لیکن گزشتہ تیس برسوں میں یہ خوف ختم ہوتا گیا، جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں سرکاری اور شاملات زمینوں پر قبضے بڑھتے گئے۔
ناجائز قبضے اور ان کی بڑھتی ہوئی شدت :
ابتدائی طور پر، زمین پر چھوٹے پیمانے پر غیر قانونی قبضے کیے گئے، جیسے:کچھ افراد نے زمین کو باڑ لگا کر گھیر لیا، درخت لگائے یا ذاتی کھیتی باڑی کے لیے استعمال کیالیکن وقت کے ساتھ، یہ قبضے بڑے پیمانے پر ہونے لگے، یہاں تک کہ لوگوں نے رہائشی مکانات بنا لیے، تجارتی عمارتیں تعمیر کر لیں۔یہ ناجائز قبضے کسی ایک طبقے تک ہی محدود نہیں رہے۔غریب اور نادار لوگوں نے امید پر مکانات بنائے کہ شاید حکومت انہیں قانونی حیثیت دے دے۔امیر اور بااثر افراد نے قانونی خامیوں اور انتظامی غفلت کا فائدہ اٹھا کر بڑی مقدار میں زمین پر قبضہ کر لیا اور وہاں کاروباری مراکز اور نجی جائیدادیں بنا لیں۔
ریاستی ردعمل اور قانونی دفعات :
ریونیو ڈیپارٹمنٹ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ شاملات زمینوں کی نگرانی اور حفاظت کرے۔حکومت کے پاس قانونی اختیار ہے کہ وہ ناجائز قابضین سے زمین واپس لے، چاہے قبضہ کتنے ہی سالوں سے کیوں نہ ہو۔ کچھ مخصوص قانونی شرائط کے تحت زمین کی منتقلی (Mutation) کی اجازت ہوتی ہے، لیکن یہ صرف کچھ خاص صورتوں میں دی جاتی ہے۔ لمبے عرصے تک کسی زمین پر قبضہ کرنے سے ملکیتی حقوق ثابت نہیں ہوتے۔حکومت تیزی سے زمینوں کی واپسی کا عمل مکمل کرنے میں مصروف ہے، اور ریونیو افسران ناجائز قابضین کو نوٹس جاری کر رہے ہیں، سروے کر رہے ہیں اور کارروائی کر رہے ہیں۔
ہر روز یہ اعلان کیا جا رہا ہے کہ کتنی زمین واگزار کرائی گئی ہے اور کتنی اب بھی ناجائز قبضے میں ہے۔یہ مہم قابلِ تعریف ہے، لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت صرف بیانات جاری کرنے کے بجائے عملی اقدامات کرے تاکہ زمین کی واپسی کو یقینی بنایا جا سکے۔
عوامی غلط فہمیاں اور سرکاری ہدایات :
ریونیو ڈیپارٹمنٹ نے بارہا ہدایت دی ہے کہ تمام غیر قانونی اندراجات (Unauthorized Entries) کو زمین کے ریکارڈ سے حذف کیا جائے۔تمام شاملات سروے نمبروں کو سرخ سیاہی (Red Ink) سے نشان زد کیا جائے تاکہ واضح ہو کہ یہ سرکاری زمین ہے۔لیکن عوام میں ایک عام غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اگر کسی کا نام زمین کے پرانے ریکارڈ یا جمعبندی (Jamabandi) میں درج ہے تو اس کا مطلب ہے کہ زمین اس کی ملکیت ہے۔ یہ غلط فہمی فوری طور پر دور کرنے کی ضرورت ہے!حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی فرد کا نام پرانے ریکارڈ میں درج ہونا، اسے زمین کا قانونی مالک نہیں بناتا۔ غیر قانونی قبضہ، چاہے کتنے ہی سالوں پر محیط ہو، ملکیتی حقوق نہیں دیتا۔لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ تمام غلط اندراجات کو مستقل طور پر حذف کرے۔ ڈیجیٹل ریکارڈ میں بھی درستگی لائے تاکہ عوام میں مزید الجھن پیدا نہ ہو۔
شاملات زمین:
سیکشن 4 اور سیکشن 5 کی وضاحت : عوام میں سب سے بڑی غلط فہمی ’’سیکشن 4‘‘ اور ’’سیکشن 5‘‘ شاملات زمینوں میں فرق نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔
سیکشن 4 شاملات زمین :
یہ سرکاری زمین ہے اور صرف عوامی فلاح و بہبود کے لیے مخصوص ہے۔ یہ بیچی، رہن رکھی یا نجی ملکیت میں نہیں دی جا سکتی۔ چاہے کسی نے دہائیوں سے قبضہ کر رکھا ہو، وہ اس زمین کا مالک نہیں بن سکتا۔
سیکشن 5 شاملات زمین :
یہ زمین ذاتی ملکیت میں ہو سکتی ہے۔ اسے خریدا، بیچا یا رہن رکھا جا سکتا ہے، مگر صرف قانونی طریقہ کار کے تحت۔ عوام میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ تمام شاملات زمینیں سیکشن 5 میں آتی ہیں، جب کہ حقیقت میں زیادہ تر زمینیں سیکشن 4 کے تحت ہیں اور سرکاری ملکیت ہیں۔لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ واضح طور پر عوام کو آگاہ کرے کہ کون سی شاملات زمین سرکاری ہے اور کون سی نجی ملکیت میں جا سکتی ہے۔نتیجتاًسیکشن 4 شاملات زمین پر کوئی نجی ملکیت نہیں ہو سکتی۔
خلاصہ:کسی بھی فرد کا نام شاملات کے سروے نمبر میں درج ہونا، اسے زمین کا قانونی مالک نہیں بناتا۔ سرکار نے غیر قانونی قبضوں کے خاتمے کے لیے مہم شروع کر دی ہے۔ پرانے جمعبندی ریکارڈ میں نام درج ہونا، ملکیتی حق ثابت نہیں کرتا۔ لمبے عرصے تک زمین پر قابض رہنا، کسی کو اس کا مالک نہیں بناتا۔ شاملات زمین صرف حکومتی منظوری کے تحت قانونی طریقہ (Mutation) سے ہی منتقل ہو سکتی ہے۔حکومت کو سیکشن 4 شاملات زمین پر مکمل اختیار حاصل ہے اور وہ کسی بھی وقت اسے واپس لے سکتی ہے۔لہٰذا، جو لوگ ناجائز قبضہ کر چکے ہیں، چاہے وہ امیر ہوں یا غریب، انہیں قانونی کارروائی کے لیے تیار رہنا چاہیے، کیونکہ حکومت یہ زمینیں واپس لینے کا پختہ ارادہ کر چکی ہے۔زمین پر دعویٰ کرنے سے پہلے، قانون کو سمجھیں، اپنے حقوق اور غیر قانونی قبضے کے نتائج سے آگاہ رہیں۔قانون بالکل واضح ہےکہ سیکشن
4 کی شاملات زمین ہمیشہ حکومت کی ملکیت رہے گی۔
[email protected]