امام الانبیاء، رحمت اللعالمین ، شفیع المذنبین ﷺ کو رب تبارک و تعالیٰ نے اپنے فضل ِ عظیم سے سرفراز فرمایا ۔ ارشاد فرمایا: اپنی رحمت سے خاص کرتا ہے جسے چاہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔(القرآن ،سورہ آل عمران، آیت ۷۴) دوسری جگہ ارشادفرماتاہے:ترجمہ: اور اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت اتاری اور تمہیں وہ سکھا دیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے اور اللہ کا تم پر بڑا فضل ہے۔ (القرآن،سورہ نساء، آیت ۱۱۳) یہ شان مرتبت ، جاہ و حشم خود رب العزت نے عطا فرمایا اور تمام انبیاء کا سردار اولین و آخرین صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتبہ عنایت فرمایا اور یہ بھی اعلان فرمایا کہ میں نے آپ ؐکا درجہ بلند کیا اور ذکر بھی بلند کیا:اور ہم نے تمہارا ذکربلند کیا( الم نشرح )۔ ذکر جبھی بلند ہوتاہے جب انسان خود بلند ہوتا ہے اور جب خود بلند ہو بلکہ بلند کیا جائے تو پھر کیوںنہ زمین و آسمان کی ہر شے اس کی نگاہوںکے سامنے ہو جس طرح زمین پر بیٹھنے والے فضائی مسافروں کی نظر تک نہیں پہنچ سکتے ہیں اور جس طرح جاہل و اَن پڑھ، پڑھے لکھوں کی آنکھ نہیں لا سکتے اسی طرح پڑھے لکھوں کی نگاہ ان تک نہیں پہنچتی جو اللہ رب العزت کے فضل سے مستفیض ہو رہے ہیں ۔ محبوب رب العالمین ، سید المرسلین، خاتم النبیین، رحمۃ اللعالمین ، امام الا ولین والآخرین، شفیع المذنبین، شفیع الامم صلعم کو اللہ نے بے شمار فضائل و مراتب سے نوازا قرآن مجید آپ کی تعریف و توصیف سے مزین ہے بے شمار فضائل میں آپ کو شفیع الامم کا بھی بلند مرتبہ عطا فرمایا۔ رب اللعالمین فرمارہا ہے: ترجمہ : اور اگر وہ جب اپنی جانوں پر ظلم کریں تیرے پاس حاضر ہوں ۔پھر خدا سے استغفار کریں اور رسولؐ ان کی بخشش مانگے تو بے شک اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے( القرآن ) ۔ اس آیت کریمہ میں اللہ مسلمانوں کوارشاد فرمارہا ہے کہ گناہ ہوجائے تو نبیؐ کی سرکار میں حاضر ہو اور درخواست ِ شفاعت کرو، محبوبِ خدا تمہاری شفاعت، سفارش فرمائیں گے تو ہم یقینا تمہارے گناہ بخش دیں گے۔
شان شفیع المذنبین ورحمت اللعالمین:کلام الٰہی میں نبی رحمت ﷺ کی بہت سی صفات کا ذکر آیا ہے ۔ یہ تمام کی تمام صفات اپنی اپنی جگہ بے حد اہم ہیں جن کا ذکر کوئی بھی لکھے، بولے کما حقہٗ نہ بول سکتا ہے نہ ہی لکھ سکتا ہے لیکن ان میں سب سے اہم صفت یہ ہے کہ آپ تمام عالم کے لئے رحمت ہیں۔ ترجمہ: اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت ہی بنا کر بھیجا ہے(سورہ انبیاء،آیت ۱۰۷)۔اس آیت مبارکہ کی وسعت و ہمہ گیری پر غور فرمائیں کہ آپ ؐکی رحمت مکان و مقام کی وسعت کے لحاظ سے پوری کائنات یہاں تک کہ روز محشر تک شامل ہے۔ زمانہ و زمان کی ہمہ گیری کی وسعت سے قیامت تک آنے والے عرصہ تک حاوی ہے۔ کوئی معمولی دعویٰ نہیں اور شاید ہی پوری کائنات کی کسی اور شخصیت کے بارے میں یہ دعویٰ کیا گیا ہو۔ یہ دعویٰ جتنا بڑا ہے اسی قدر واقعہ کے عین مطابق بھی ہے۔ آپؐ کی رحمت شفاعت بن کر گناہ گاروں پر چھائی رہے گی۔اس وقت آپؐ کی رحمت کا خاص پہلو ’’شفاعت ‘‘ہے جس کے کچھ پہلوؤں پر چند سطروں میں روشنی ڈالتاہوں۔ مطالعہ فرمائیں۔ روز محشر جب سورج سوانیزے پر ہوگا ۔ کوئی کسی کا پرسان حال نہ ہوگا ، افراتفری ، مایوسی کا عجیب عالم ہوگا۔ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں اس کی صراحت موجود ہے۔ الامان والحفیظ! اللہ رحم فرمائے اور مصطفی ﷺ کی شفاعت نصیب فرمائے (آمین)۔ خدا کاغضب و جلال پورے عروج پر ہوگا۔ اس وقت صرف آپ ہی مہربان و شفیق ہوں گے جس کی دربارِ الٰہی میں سنوائی ہوگی کیونکہ آپ کو اللہ نے رحمت بنا کر شفیع الاممؐ (مسلموں کی شفاعت کرنے والا بناکر )اور مقامِ محمود عطا فرما کر اور رسولوںؑسے ممتازفرمایا۔ اس دن شفاعت کی کنجی صرف آپ ﷺ ہی کے ہاتھوں میں ہوگی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں: اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ جنت کے دروازے پر لکھا ہوا ہے کہ میں اللہ ہوں اور میرے سوا اور کوئی خدا نہیں ہے اور محمد (ﷺ )میرے رسول ہیں ۔ جس نے یہ کلمہ پڑھا میں اس کو عذاب نہیں دوں گا۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن جبرئیل امین بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئے اور عرض کی بے شک آپ کا رب فرماتا ہے ،اگرچہ میں نے ابراہیم کو خلیل ؑبنایا ہے لیکن میں نے آپ کو حبیبؐ بنایا ہے۔ میں نے آج تک کوئی چیز پیدا نہیںکی جو آپ (ﷺ) سے زیادہ میرے نزدیک مکرم ہو۔ میں نے دنیا اور اس کے رہنے والوں کواس لئے پیداکیاتاکہ آپ ﷺ کی کرامت اورآپ ﷺ کے درجہ مقام سے ان کوآگاہ کردوں۔ اگر آپ ﷺ کی ذات نہ ہوتی تو میںدنیا کوبھی پیدانہ کرتا۔ خدا کا اپنے محبوب پاک ﷺ سے لگاؤ ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حشر کے روز اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے درمیان فیصلہ کرنے کا ارادہ فرمائے گا تو منادی کرنے والا بلند آواز سے اعلان کرے گا کہاں ہیں محمدمصطفی ﷺ اور کہاں ہے اُن کی امت۔تو میں کھڑا ہوجاؤں گا۔ میری اُمت میرے پیچھے پیچھے ہوگی ۔ ان کی پیشانیاں اور ان کے پاؤں وضو کی وجہ سے چاند کی طرح روشن اور چمک رہے ہوں گے۔ اس کے بعد نبی رحمت ﷺ نے فرمایا کہ ہم سب سے آخر میں آنے والے ہیں اور جنت میں سب سے پہلے داخل ہونے والے ہیں اور ہمارا سب سے پہلے حساب ہوگا اور باقی امتیوں کو یہ حکم ہوگا وہ ہمارا راستہ صاف کریں۔ میری اور میرے غلاموں کی یہ شان اور عزت افزائی دیکھ کر باقی ساری امتیں حیران و ششدر رہ جائیں گی اور کہیں گی یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سارے انبیاء ہیں ۔ پیارے آقا، شفیع المذنبین ، رحمت اللعالمین کی شان اس حدیث مبارکہ سے اور بھی واضح اور بلند ہوجاتی ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور شفیع المذنبین ﷺ فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ نے مجھے تین سوال عطا فرمائے۔ میںنے دربار الٰہی میں عرض کی:الٰہی میر ی امت کی مغفرت فرما میری امت کی مغفرت فرمااور تیسری عرض اس دن کے لئے اٹھا رکھی جس میں مخلوق ِ الٰہی میری طرف نیاز مند ہوگی یہاں تک کہ ابراہیم خلیل اللہ علیہ االصلوٰۃ و السلام ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور شفیع المذنبیین ﷺ شب اسریٰ اپنے رب سے عرض کی رب کریم! تونے اورانبیاء علیہم السلام کو یہ یہ فضائل بخشے۔ رب العزت نے فرمایا۔ترجمہ: میں نے تجھے جو عطا فرمایا وہ ان سب سے بہتر ہے ۔ میں نے تیرے لئے شفاعت چھپا رکھی ہے اور تیرے سوا دوسرے کو نہ دی۔(بیہقی شریف) ابن ابی شیبہ وترمذی بافادہ شیخین و تصحیح اور ابن ماجہ و حاکم بحکم تصحیح ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے راوی حضور شفیع المذنبیین ﷺ فرماتے ہیں۔ ترجمہ :قیامت کے دن میں انبیاء کا پیشوا اور ان کا خطیب اور ان کا شفاعت کرنے والا ہوں اور یہ کچھ فخر کی راہ سے نہیںفرماتا۔ اللہ نے مجھے مقامِ محمود وشفاعت عطا فرمایاہے۔ حضرت زید بن ارقمؓ وغیرہ چودہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے راوی حضرت شفیع المذنبیین ﷺ فرماتے ہیں:ترجمہ: میری شفاعت روز قیامت حق ہے جواس پر ایمان نہ لائے گا اس کے قابل نہ ہوگا۔ سبحان اللہ ،سبحان اللہ! حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام لوگوں کومیدان حشر میںجمع فرمائے گا ۔ میں اور میری امت ایک اونچے ٹیلے پر ہوں گے ۔ میرا پروردگار اس دن مجھے سبز پوشاک پہنائے گا پھر مجھے لب کشائی کی اجازت دی جائے گی اور جو اللہ تعالیٰ چاہے گا میں وہ کہوں گا۔ یہ مقامِ محمودہے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سرورِ دوجہاں ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن مجھے عرش کی دائیںجانب ایسے مقام پر کھڑا کیا جائے گا جہاں کسی اور کو قدم رکھنے کی مجال نہ ہوگی۔ اس وقت اولین و آخرین میرے ساتھ رشک کریں گے ۔یہ ہے مقامِ محمود ۔ ترجمہ: قریب ہے کہ تیرا رب تجھے مقام محمود میں بھیجے ( سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر ۷۹)۔صحیح بخاری میں ہے ۔ شفیع المذنبیین ﷺ سے عرض کی گئی۔ مقامِ محمود کیا چیز ہے؟ فرمایا:وہ شفاعت ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے ۔ حضور شفیع المذنبیین ﷺ فرماتے ہیں۔ترجمہ: انبیاء کے لئے سونے کے ممبر بچھائے جائیں گے ۔ وہ ان پر بیٹھیں گے اور میرا منبر باقی رہے گا کہ میں اس پر جلوس نہ فرماؤں گابلکہ اپنے رب کے حضور سروقد کھڑارہوں گا اس ڈر سے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھے جنت میں بھیج دے اور میری امت بعد میں رہ جائے۔ پھر عرض کروں گا ۔ اے رب میری امت میری امت۔ اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا ۔ اے محمد تیری کیا عرض ہے۔ میں تیری امت کے ساتھ کیا کروں؟ عرض کروں گا اے رب میرے ان کا حساب جلد فرمادے۔ پس میں شفاعت کرتا رہوں گا ۔ یہاں تک کہ مجھے ان کی رہائی کی چٹھیاں ملیں گی جنہیں دوزخ بھیج چکے تھے ۔ یہاں تک کہ مالک داروغہ عرض کرے گا: اے محمد !آپ ؐنے اپنی امت میں رب کا غضب نام کونہ چھوڑا۔(حاکم بافادہ صحیح، طبرانی وبیہقی شریف، طبرانی معجم وغیرہ وغیرہ) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور شفیع المذنبیین ﷺ نے فرمایا:ترجمہ: میں جہنم کا دروازہ کھلواکر تشریف لے جاؤں گا وہاں خداکی تعریفیں کروں گا ایسی کہ نہ مجھے سے پہلے کسی نے کیں نہ میرے بعد کوئی کرے ۔پھر دوزخ سے ہر اس شخص کو نکال لوں گا جس نے خالص دل سے لا الہ الا اللہ کہا (طبرانی معجم)حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما کہتے ہیںکہ شفیع المذنبیین ﷺ نے فرمایا:جس شخص نے اذان سن کر یہ دعا پڑھی،اللھم رب ہذہ الدعوۃ التامۃ ۔۔ ۔۔ ۔۔الخ۔(ترجمہ: اے اللہ ! اس مکمل پکار اور قائم ہونے والی نماز کے مالک،محمد ﷺ کو وسیلہ اور فضیلت عطافرما ،آپ کو اس مقام محمود تک پہنچا جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے ) تو اس کے لئے قیامت کے دن شفاعت حلال ہوگی۔ (سنن ابن ماجہ، جلد اول باب مؤذن کی اذان کے جواب میںکیا کہا جائے؟حدیث نمبر۷۲۲، سنن الترمذی ،۲۱۱، تحفۃ الاشراف ،۳۰۴۶، مسند احمد،۳۱۳۵۴ وغیرہ وغیرہ) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہر نبی کی (اپنی امت کے سلسلے میں ) ایک دعا ہوتی ہے ،تو ہر نبی نے جلدی سے دنیا ہی میں اپنی دعا پوری کرلی اور میں نے اپنی دعا کو چھپا کر اپنی امت کی شفاعت کے لئے رکھ چھوڑا ہے ،تو میری شفاعت ہر اس شخص کے لئے ہوگی جو اس حال میں مرا ہو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا رہا۔(سنن ابن ماجہ، جلد پنجم ، باب شفاعت کا بیان ، حدیث نمبر ۴۳۰۷، صحیح مسلم ، الایمان ۸۶/۱۹۹، سنن ترمذی ۳۶۰۲، صحیح البخاری ۶۳۰۴،تحفۃ الاشراف۱۲۵۱۲، مسند احمد۲۷۵/۲، سنن الدارمی ۲۸۴۷ وغیرہ وغیرہ) اسی مضمون کی اور حدیثیں سنن ابن ماجہ میں حدیث نمبر ۴۳۰۷، ۴۳۱۷ وغیرہ میں موجود ہیں۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ شافع محشر ﷺ نے فرمایا:روز محشر تمام لوگوں سے پہلے میں مرقد انور سے باہر نکلوں گا جب لوگ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونے کے لئے جائیں گے تو اس خاص وقت میںان سب کا قائد ہوں گا جب لوگ مہر بلب ہوں گے ۔ اس وقت میں ان کا خطیب ہوں گاجب انہیں روک دیا جائے گا اس وقت میں ان کی شفاعت کروں گا اورجب وہ مایوس ہوجائیں گے، اس وقت میں ان کو مغفرت کی خوشخبری سناؤں گا ۔ اس دن ساری عزتیں اور سارے خزانوں کی کنجیاں میرے ہاتھ میں ہوں گی۔ حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہوگا۔ روز محشر بارگاہِ الٰہی میں خدا کے دربار میں حضرت آدم علیہ السلام کی تمام اولاد میں ہی زیادہ محترم ومکرم اور شان والا ہوں گا ۔ اس دن ایک ہزار خادم میر ی خدمت کے لئے جنت میںدست بستہ حاضر ہوں گے ۔ وہ خادم اتنے زیادہ خوبصورت ہوں گے جسے چھپائے ہوئے انڈے ہوں یا چمکتے ہوئے بکھرے ہوئے موتی ہوں ؎
جس کے ماتھے شفاعت کا سہرا رہا
اس کی نافذ حکومت پر لاکھوں سلام
شفاعت و رحمت و مقام محمود کی بے شمار احادیث موجود ہیں ۔ راسخ العقیدہ مسلمان کے لئے اتنا ہی کافی وشافی ہوگا ۔ اللہ اہمیںہدایت نصیب فرمائے تاکہ ہم شفاعت ِ رسول ؐ کے قابل ہوجائیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اور تمام ایمان والوں کو حضور شفیع المذنبیین شافع الامم کی شفاعت نصیب فرمائے۔ آمین !۔
( Mob.:09386379632)
e-mail: [email protected]
������