ظفر اقبال نے کچھ عرصہ قبل لکھا تھا:
’’میرے سمیت،غزل کے نام پر جو کچھ تخلیق کیا جا رہا ہئے ،ٹریش،بکواس اور محض خانہ پری ہئے ۔اس میںکوئی شک نہیں کہ ٹریش لکھنے والے ہر دور میں موجود رہے ہیں کیونکہ انہیں ٹریش پسندکرنے والے بھی دستیاب تھے ۔تاہم ہر دور میں ،ایک آدھ ایسی آواز بھی موجود رہی ہئے ،جودوسروں سے الگ اورصاف پہچانی بھی جاسکتی تھی‘‘۔ ظفر اقبال ؛’’غزل میں کایا کلپ کی ضرورت ‘‘مشمولہ ’’دنیا زاد ‘‘ پاکستان ۔اکتوبر ۔ ۲۰۱۱ء۔ص۔۵۲۔ ریاست جموں و کشمیر میں اردو غزل کے حوالے سے مہجورؔ کے یہاں بھی ایک ایسی آواز تھی جو اپنے دور میں دوسروں سے الگ بھی تھی اور صاف پہچانی بھی جاتی تھی ۔ میر رسوا ؔ کو اردو کا پہلا کشمیر ی شاعر تسلیم کیا جاتا ہئے ۔رسوؔا ،فانیؔ اور قبول ؔسے لے کر حشمت ؔاور محشرؔ وغیرہ نے جموں و کشمیر میں اردو غزل کی بنیادیں مستحکم کیںلیکن فارسی غزل اور کشمیری غزل،گیتاور دوہوں کی شعریات کی آمیزش و آویزش سے ، اس غیر اردو منطقے میں اردو غزل کو نئے امکانات سے رو شناس کروانے کا فریضہ اول اول مہجور نے ہی انجام دیا۔ اب یہ با ت ثابت ہو چکی ہئے کہ شاعر کشمیر ؔمہجور(پیدائش۔۱۲۔شوال۔۱۳۰۵ھ۔۔۔وفات۔۱۹۵۲ء) فارسی اور کشمیری کے ساتھ ساتھ ایک عرصہ تک اردو شاعری کو بھی سیراب کرتے رہے ۔کشمیری زبان کے مستند محقق، نقاد ، شاعر اور مہجور ؔکے ہمعصر دوست عبدالا حد آزاد نے ’’کشمیری زبان اور شاعری ‘‘ میں لکھا ہے :
’’۱۹۱۲ء۔میں مہجور کو محسوس ہواکہ اب فارسی کا مذاق ملک میں روز بروز ختم ہوتا جا رہا ہے اور اس کی جگہ اردو لے رہی ہئے تو آپ نے بھی اردو میں شعر کہنے شروع کئے جس کی ابتدا یوں ہوئی کہ ۱۹۱۲ کے آغاز میں لداخ کی ملازمت کے بعد مہجوؔر موسم سرما میں پھر پنجاب گئے ،وہاں امرت سر سے لدھیانہ جانا پڑا ۔ان دنوں لدھیانہ میں ایک انجمن ’’بزم ادب ‘‘کے نام سے حضرت آفتؔ لدھیانوی کی سر پرستی میں قائم تھی،جس کے تحت پندرہ روزہ مشاعرہ منعقد ہوا کرتا تھا ۔مہجور کو بھی شمولیت کی دعوت دی گئی ۔۔۔ایک غزل کہنا پڑی۔
مصرعہ طرح یہ تھاطائر د ل کے پھنسانے کو یہ دام اچھا ہئے قوافی سے قطع نظر ،غالب سے مستعار زمین پر ۔ مہجور نے مشاعرہ میں ۹۔اشعار کی غزل سنائی ۔حاضرین بہت محظوظ ہوئے ۔خصوصاًً اس شعر کی آفتؔ صاحب نے بڑی داد دی اجڑے غاروں میںرہاکرتے ہیں رہزن چھپکے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دل مضطر ہی میں دلبر کا قیام اچھا ہئے جموں وکشمیر کے ممتاز دانشورموتی لال ساقیؔ نے اپنے مضمون ’’مہجور ۔۔۔تازہ معلومات کی رو شنی میں ‘‘ میں مذکورہ غزل کے حوالے سے لکھا ہئے ’’بقول آزاد ،مہجور نے ۱۹۱۲ء۔کے بعد فارسی کو ترک کر کے اردو میں شعر گوئی شروع کی ۔لیکن ان کے کلام سے ظاہر ہوتا ہئے کہ وہ ، ۱۹۱۲ء سے قبل بھی اردو میں شعر کہتے تھے کیونکہ ان کی ایک غزل پر ،۱۰۔مارچ،۱۹۱۱ء کی تاریخ درج ہئے۔بقول آزاد ؔ ، مہجور کی یہ غزل،۹ ۔اشعار پرمشتمل ہئے لیکن اس کے صرف چھ شعرمل سکے ہیں جو یہاں پیش کئے جاتے ہیں۔
تشنئہ غم کے لئے وصل کا جام اچھا ہئے ۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔عندلیبوں کے لئے گل کا پیام اچھا ہئے ۔
در دولت پہ گئے بار نہ پایا اے دل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو ہئے بیکس تجھے عزت کا مقام اچھا ہئے ۔
راز سر بستہ کی دل میں ہئے حفاظت لازم ۔۔۔۔۔ مال رکھنے کے لئے مال گودام اچھا ہئے۔
اجڑے غاروں میں رہا کرتے ہیں رہزن چپکے۔۔۔۔۔۔قلب مضطر میں ہی دلبر کا قیام اچھا ہئے ۔
دل سے بہتر ہئے کہ آنکھوں پر بٹھائیں ان کو۔۔۔۔۔۔۔۔اوج پرہووے اگر طالع، تمام اچھا ہئے۔
زلف اور خال کو مہجور یہ سمجھا میں نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔طائر دل کے پھنسانے کو یہ دام اچھا ہئے
آزادؔ کے مطابق ’’اس پذیرائی کے بعد مہجورؔ کی جھجک دور ہوئی اور آپ نے بارہ سال یعنی ۱۹۲۴ء تک اردو زبان کو اظہار خیالات کا ذریعہ بنایا ۔اس عرصے میں کبھی کبھار فارسی شعر بھی کہتے رہے مگر اکثر اردو ہی ذریعہ اظہار ہوا کرتی تھی ۔اگر آپ کا اردو اور فارسی کلام جمع کیا جائے تو ایک ضخٰم کتاب ترتیب دی جا سکتی ہئے حالانکہ بہت سا کلام ضائع بھی ہوا ہئے ۔بہت سا اخبار و رسائل میں شایع ہو چکا ہئے کچھ غیر مطبوعہ ہئے ۔ غزل، مناقب،قومی اور تاریخی نظمیں لکھی ہیںاور ہر صنف کا پوراپورا حق ادا کیا ہئے ۔‘‘
عبد الاحد آزادؔ ۔کشمیری زبان اور شاعری ۔حصہ سوم۔ص۔۲۷۴
مہجور نے اردو میں شعر گوئی کا آغاز کب سے کیا ؟ اور اپنی فارسی شاعری کو حاشئے میں رکھنے کے بعد مہجور نے پہلے اردو میں شاعری شروع کی یا کشمیری میں، اس پر محققین کے درمیان اختلاف ہئے ۔موتی لال ساقی نے اس ضمن میں اپنے مذکورہ مضمون میںہی دعوی کیا ہے ۔
’’مجھے مہجور کی ڈائری میں ان کے اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے ایسے مادہ ہائے تاریخ ملے ہیں جن سے ان کی شاعری کی ابتدا کے بارے میں گرہیں کھل جاتی ہیں اردو میں شاعری کی ابتدا کے بارے میں مادہ تاریخ یوں ہئے ’’ سخن دا ن کشمیر ‘‘ ۔۱۳۳۵۔ہجری۔ کشمیری شاعری کی ابتدا کی نسبت ماد تاریخ اس طرح ہئے ’’کشمیری سخن دان۔۱۳۴۵۔ہجری حساب لگانے سے ۱۳۳۵ھ ۱۹۱۶ء۔اور ۱۳۴۵ھ۔۱۹۲۶ء بنتا ہئے۔اس طرح انھوں نے اردومیں شاعری کی ابتدا ، ۱۹۱۶ء میں اور کشمیری شاعری کی ابتدا ، ۱۹۲۶ء میں کی ہئے‘‘لیکن موتی لال ساقی نے مہجورؔ کے اس دعوے کو کہ انھوں نے ۱۹۱۶ء سے اردو شاعری کی ابتدا کی، مہجور کا مغالطہ قرار دیتے ہوئے مہجور کی ۱۹۱۱ء کی سات اشعار پر مشتمل ایک اردو غزل نقل کی ہے جو مہجورؔ نے ترال کے راجہ عبد الرحمن صاحب فارسٹر محکمہ جنگلات کی خاطرکہی تھی ۔یہ غزل شیرازہ کے مہجور نمبر میں صفحہ ۷۱،۷۲پر اس طرح شامل اشاعت ہے۔
آہ مجھ پر پھر ستم ہونے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دور جب سے وہ صنم ہونے لگا۔
حال زار قلب مضطر سینے پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خون دل سے اب رقم ہونے لگا۔
گلرخوں کی بے وفائی دیکھ کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔بار غم سے سرو ، خم ہونے لگا۔
جب سے وہ دلبر جدا مجھ سے ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ہم نشین رنج و الم ہونے لگا .
یار من محفل میں کچھ رونق نہیں ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شربت غم جام جم ہونے لگا۔
وصل کی شب قہر میں ساری کٹی ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مہر ہوتے صبح دم ہونے لگا۔
دیر سے رخ پھیر کر مہجو رؔ آج
داخل بیت الحرم ہونے لگا
موتی لال ساقی کا مزید کرم ہئے کہ انھوں نے مہجور کی سات اشعار کی ایک اور غیر مطبوعہ اردو غزل قارئین کی نذر کیا ہئے ،جو غالباًً مہجور کے ابتدائی دور کی تخلیق ہئے ۔ اس غزل کے اشعار ا س طرح ہیں۔
عاشق بیداد ہیں پر قیس بیاباں اور ہیں
شیر قالیں اور ہیں شیر نیستاں اور ہیں
قتل کا فتوی دیا قاضی نے اس سے کیا ہوا
نیم بسمل جس سے ہون وہ تیغ براں اور ہئے
باغ شالامار کا سودا مرے سر میں نہیں
جس چمن میں ہئے مرا گل ،وہ گلستاں اور ہئے
طعنہ اغیار جسم ناتوان پر تیر ہیں
جس سے زخمی دل ہوا وہ تیر مژگاں اور ہئے
دلبر طناز کا اس خاک پر منزل نہیں
شاہ خوباں کے لئے اک کاخ وایواں اور ہئے
مثل اسکندر نہیں ظلمات کا سودا مجھے
جس کا ہوں میں تشنہ لب وہ آب حیواں اور ہئے
نالہ مہجور سن کر ، بن کے بولا وہ صنم
شعر کہتے ہو اچھے پر داغ سخنداں اور ہئے
مہجور فارسی چھوڑ کر اردو شاعری کی جانب کیوں کر راغب ہو ئے اسکی ایک اور وجہ بھی سمجھ میں آتی ہئے۔در اصل ،مہجور کی اردو شاعری کا یہ دور علامہ اقبال کی شاعری اور ابوالکلام آزادؔ کی نثر کی سحر کاری کا دور ہئے۔جموں کشمیر میں شخصی ڈوگرہ حکومت کے خلاف بغاوت کی تخم ریزی کا زمانہ بھی یہی ہئے۔ انھیں دنوں کشمیرالاصل علامہ اقبال کشمیریوں کو خواب غفلت سے جگانے کیلئے شاعری کی شکل میں تکبیریں بلند کر رہے تھے۔
پنجہ ظلم و جہالت نے برا حال کیا
بن کے مقراض ہمیں بے پر و بے بال کیا
توڑ اس دست جفا کیش کو یا رب جس نے
روح آزادئی کشمیر کو پامال کیا
علامہ اقبال نے محض درد کی نشاندہی ہی نہیں کی ،دوا بھی بتائی
سو تدابیر کی اے قوم یہی ہےتدبیر
چشم اغیار میں ملتی ہئے اسی سے توقیر
در مطلب ہئے اخوت کے صدف میںپنہاں
مل کے دنیا میں رہو مثل حروف ’’کشمیر ‘‘
دوسری جانب لاہور کے اخبارات ،کوہ نور،زمیندار ، اخبار عام اور پیسہ اخبار، کے علاوہ ابوالکلام آزادؔ کا ’’الہلال‘‘ وغیرہ جموںو کشمیر میں سیاسی بے داری کے شعلوں کو ہوا دینے میں اہم کردار ادا کر رہئے تھے۔محمدیوسف ٹینگ کے مطابق ’’مولانا ابوالکلام آزاد کا’الہلال‘ بجلی کا کڑکا تھا جس نے سارے ہندوستان کی طرح کشمیر کے اہل دل اور اہل دول حضرات کو بھی اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا، الہلال کی زبان اردو تھی اس نے کشمیر میں اردو نوازی کے ہی نہیں حریت پسندی کے تخم بھی بوئے‘‘
(محمد یوسف ٹینگ ۔پیش گفتار ،کشمیر میں اردو ۔ص۔۱۹۔)
۱۵۔ستمبر۱۹۳۴ء کوسرینگر کی نمائش گاہ میںکشمیری ،پنجابی اور اردو کا ایک ملا جلا مشاعرہ کرنل بھولا ناتھ صاحب کی صدارت اور خوشی محمد ناظر کی سرپرستی میں منعقد ہوا۔مہجوؔر بھی شامل ہوئے ۔پہلے مہجورؔ نے اپنی مشہور کشمیری غزل ’’باغ نشاط کے گلو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؛اپنے ذاتی مغنی (پرانی اصطلاح میں راوی) لحن داوودی سے سرفراز،محمودؔ شہری سے پڑھواکر کھچا کھچ بھرے ہوئے مشاعرہ گاہ میں موجود سامعین کو مسحور کیا اور پھر اپنی اردو غزل پیش کی ۔اردو غزل کے لئے مصرعہ طرح یہ تھا
’’گری ہئے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو‘‘
یہ مصرعہ غالب کی اس غزل سے لیا گیا تھا جس کا مطلع ہئے
کسی کو دے کے دل ،کوئی نوا سنج فغاں کیوں ہو
نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منھ میںزباں کیوں ہو
مہجور نے اسپر جو اردو غزل پڑھی اس کے چند اشعاراس طرح ہیں۔
دل درد آشنا میرا ،کسی کا ہم زباں کیوں ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔عیاں انجام ہو جسکا وہ میری داستاں کیوں ہو ۔
نہ سوچو پہلے کیا انجام ہوگا دل کے سودا کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔دم ہنگامہ آرائی ،غم سودوزیاںکیو ںہو۔
کیا باد صبا نے حسن کا ہر چار سو شہرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چمن میں آج گلچیں کو ہراس باغباںکیوںہو
نکالا گوشہ عزلت سے اس کو ،میرے نالوں نے۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔مری۔آہ و فغاںسنکر وہ مجھ پر مہرباںکیوں ہو بدل دی رخ کی زردی غازہ مغرب کی سرخی نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قدیمی وضع کا پابند اب ہندوستاں کیوں ہو ۔
نیاز و ناز کی باتیں، تکلف سے ہیں بالا تر۔۔۔۔۔۔۔۔تکلم میںگل و بلبل کے مالی ترجماں کیوں ہو
بہا ہئے اشک کے ہمراہ، میر کارواں ہو کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو سرمہ کی طرح ہو بے وفا وہ رازداں کیوں ہو
رہ کوئے صنم ،گوشہ نشیں زاہد بتائے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو منزل سے ہو نا واقف وہ میر کارواں کیوں ہو
………………………….
رابطہ :سابق صدر شعبئہ اردو ۱۔ کشمیر یونیور سیٹی ۔۲۔ سینٹرل یونیورسیٹی آف کشمیر
(بقیہ منگلوار کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)