بہا ہئے اشک کے ہمراہ، میر کارواں ہو کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو سرمہ کی طرح ہو بے وفا وہ رازداں کیوں ہو۔
رہ کوئے صنم ،گوشہ نشیں زاہد بتائے کیا۔۔۔ ۔۔۔۔ جو منزل سے ہو نا واقف وہ میر کارواں کیوں ہو ۔
پئے تسکین دل لازم ہئے اے مہجور خاموشی۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔خیال بیش و کم ،تا کے،گمان ایں و آں کیوں ہو ۔
اسی سال ہولی کے ایام میں نوروز اور عید الفطر کے تہوار پڑتے تھے مہجور صاحب نے نشاط باغ میں بیٹھ کر ایک اردو غزل لکھی جو مارتنڈ میں،۴۔چیت۔۱۹۹۱۔بکرمی کے شمارے میں شائع ہوئی، چار اشعار پر مشتمل اس غزل کے اشعار اس طرح ہیں
اب کے آیا موسم گل لے کے پیغام نشاط ۔۔ ۔۔۔۔۔عید ہئے نوروز ہئے ہولی ہئے انجام نشاط آنکھ نرگس کی کھلی سُنبل نے زُلفیں کھول دیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہے گُل بادام مست لذ ت جا م نشاط
سبزئہ نوخیز پر رقص عروس نوبہار۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔جھومتا پھرتا ہئے گویا بادہ آشام نشاط
اے خوشا روزیکہ خوش دل ساکنان کاشمر ۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔عید اور ہولی منائیں مل کے باہم بے خطر
یہ با قابل ذکر ہئے کہ مہجور کی اردو اور کشمیری غزلوں میں ایسے اشعار بھی ملتے ہیں جن میں انھوں نے فارسی اور اردوکے متعدد ممتاز شعرا مثلاًًعرفیؔ شیرازی ،خان خاناں ، غنیؔ کاشمیری،غالب، ذوقؔ اورامجد حیدرابادی کے متون کی کہیں تجدید کی ہئے تو کہیں تحدید ۔ کہیں متن پر متن قائم کیا ہئے تو کہیں متن میں معنی و مفہوم اور کیفیت و تاثر میں ایسی تہہ د اری اور حسن خیزی پیدا کی ہئے کہ مہجور کے اشعار، اصل اشعار سے بلند ہوتے نظر آتے ہیں۔ ایسے کشمیری اشعار سے قطع نظر اردو سے صرف دو مثالیں دیکھئے۔
استاد ذوقؔ کا شعر ہئے
پائے نہ ایسا ایک بھی دن خوشتر آسمان
کھائے اگر ہزار برس چکر آسمان
مہجورؔ کہتے ہیں
نظیر اس کی دکھا سکتا نہیں یہ چرخ دولابی
اگر لاکھوں برس کرتا رہے گا چرخ گردانی
امجد حیدر ابادی کا بڑا عمدہ سا شعر ہئے ؎
نہ سمجھا تم نے کچھ انجام پہلے دل لگانے کا
ذ ریعہ اب نہیں ہئے کوئی دل کے واپس آنے کا
مہجور نے اپنے شعر میں اس مضمون کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہئے
نہ سوچا پہلے کیا انجام ہو گا دل کے سودا کا
دم ہنگامہ آرائی غم سودو زیاں کیوں ہو
یہ ایک دلچسپ حقیقت ہئے کہ مہجورؔاقبال سے بھی بے حد متاثر تھے ۔ اس کے بارے میں عبد الاحد آزادؔ نے تفصیل سے لکھا ہئے ۔لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہئے کہ مہجور نے علامہ اقبال کی وفات پر مادہ تاریخ بھی نکالا تھا،۲۳۔اپریل ۱۹۳۸ء کو مہجور نے اپنی ڈائری میں لکھا ہئے ’’سناگیا علامہ سر محمداقبال فوت ہوا ہئے ۔‘‘اس عبارت کے نیچے یہ مادہ تاریخ درج ہئے،
آہ اقبال ؛آفتاب آسمان شاعری
۱۳۵۷۔ہجری
اقبال اور مہجور کے مابین مراسلت بھی تھی ۔’’اقبال نامہ‘‘ اور’’ انوار اقبال ‘‘ میں ،علامہ اقبال کا مہجور کے نام ۱۹۲۲ء کا وہ خط شامل ہئے جس میں اقبال نے ’’تذکرہ شعرائے کشمیر ‘‘ لکھنے کے ارادے پر مہجورکو مبارک باد پیش کی ہئے اورتذکرہ لکھنے کے لئے بعض مشورے بھی دئے ہیں۔پاکستان کے کلیم اختر نے اپنے ایک مضمون میں مہجور کو اقبال کا کشمیری ترجمان قرار دیا ہئے ۔ مہجورؔ نے اردو میں جو چند ایک قومی ،وطنی اور انقلابی نظمیں لکھی ہیں ا ن میں علامہ اقبال کی نظموں کی طرح جوش و ولولہ اور تفکر و تفلسف کی حرارت کے ساتھ ساتھ تغزل کی چاشنی بھی ملتی ہئے ۔اس ضمن میں مہجور کی ایک نظم’’خطاب بہ مسلم کشمیر‘‘ خاص طور پر مشہور ہئے جو ۔۶ ۔جون ۱۹۲۴ کو لاہور کے ’’ اخبارکشمیر میں شائع ہوئی تھی ۔صاف ظاہر ہئے کہ یہ نظم علامہ اقبال کی نظم ’’خطاب بہ مسلم ‘‘ کے زیر اثر لکھی گئی تھی ۔ریاست جموں و کشمیر کی موجودہ صورت حال میںمہجور کی اس نظم کی عصری معنویت کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہئے ۔ تبرکاًً اس نظم کے ایک دو شعرپر نظر ڈال لیں
بتا اے مسلم کشمیر کبھی سوچابھی ہئے تو نے۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ تو ہے کس گلشن رنگیں کا برگ شاخ عریانی
ترے اسلاف وہ تھے جن کے علم و فضل کے آگے۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ادب سے جھکتے تھے دانشوران ہند ایرانی
عبد الاحد آزاد نے ’’کشمیری زبان اور شاعری ‘‘میں اس نظم کے نو(۹) اشعار نقل کیئے ہیں لیکن موتی لال ساقیؔ نے شیرازہ مہجور نمبر میں شامل اپنے مذکورہ مضمون میں ایک نایاب مخطوطے کی بنیاد پر، اس نظم کے گیارہ اشعار پیش کئے ہیں ۔ پھر بھی قیاس ہئے کہ اس نظم میں کچھ اور اشعار بھی ضرور ہونگے جن کا منظر عام پر آنا ابھی باقی ہئے ۔مہجور کی اردو نظم نگاری ایک ا لگ مطالعے کا موضوع ہئے اس لئے گریز اختیار کرتے ہوئے یہاں گفتگو کو صرف مہجور کی اردو غزل گوئی تک ہی محدود رکھا جاتا ہئے ۔
کہنے کی ضرورت نہیں کہ مہجور کی شہرت عرف عام میں کشمیری زبان کے شاعر اعظم کے بطور ہئے لیکن انھوں نے فا رسی کے بعد جموں کشمیر میں اردو غزل کے فروغ و ارتقا میں وہی کردار ادا کیا جو ولیؔ دکنی (گجراتی)نے دکن اور شمالی ہندمیں ا ردوغزل کو عروج پر پہنچانے کے لئے کیا تھا۔دکن میں بھی (دکنی) اردو غزل کے ابتدائی نمونے تو محموؔد، فیرؔوز ،محمدقلی قطب شاہ اور حسن شوؔقی وغیرہ کے یہاں ملتے ہیں لیکن غزل کو جدید رنگ و آہنگ ولیؔ دکنی نے ہی دیا۔ اسی طرح جموں کشمیر میں( ریختہ ) اردو غزل کی شروعاتی کوششیں، ملا محسن فانی،عبدالغنی قبول، وغیرہ کے یہاں ملتی ہیں ۔لیکن زمانی تقدم اور فنی، لسانی اور جمالیاتی خوبیوں کی بنا پر میر کمال الدین رسواؔ جمو ں و کشمیر کے پہلے اردو غزل گو قرار دئے جا نے کا پورا حق رکھتے ہیں کیونکہ رسوا ہی ہیں جنکے یہاں اردو غزل کا وہ ترقی یافتہ روپ نمایاں ہوتا ہئے جو اٹھارہویں صدی کی اردو غزل کاخاصہ ہئے۔ لیکن اب اس کو کیا کہئے کہ اب تک رسوؔا کی گنی چنی اردو غزلیں ہی دستیاب ہو سکی ہیں رسوا کے چند معاصرین اور بعد میں آنے والے شاعروں نے بھی اردو میں غزلیہ اشعار کے چند ایک ہی نمونے چھوڑے ہیں اس صورت حال میں تار یخی حقیقت یہ سامنے آتی ہئے کہ اردو غزل کے ہند ایرانی مزاج و منہاج ، رواج و رسومات اور خالص کشمیری ارضیت کے ساتھ جموں و کشمیر میں جدیداردو غزل کی جتنی بھی موضوعی ،لسانی ،فکری اور اسلوبیاتی جہتیں ملتی ہیں ان میں سے بیشتر کے سوتے شاعر کشمیر پیر زادہ غلام احمد مہجور کی اردو(بشمول فارسی، کشمیری )غزلوں سے ہی پھوٹے ہیں مہجور کی غزل کی شعریات کے عناصر روائتی اردو غزل کے عناصر سے قدرے الگ ہیں۔ان عناصر کی جڑیں ،رودکیؔ اور سعدیؔ، عرفیؔ اور شیرازیؔ اور شیخ ا لعالم کی فارسی غزل کی شعریات کے علاوہ ، لل عارفہ،شیخ نورالدین ریشی ، حبہ خاتون اور محمود گامی سے لے کر درویش عبد لقادر قادری اور رسول میرؔتک کی کشمیری شاعری کی شعریات میں بھی پیوست ہیں ۔ مہجور، رسول میر کے تئیں کچھ زیادہ ہی عقیدت رکھتے تھے ۔انھوں نے اپنے ایک کشمیری شعر میںیہاں تک کہا ہئے کہ’’ در اصل یہ رسول میر ہی ہیں جو میری ذات کے حوالے سے دردو سوز کے جوت جلا رہے ہیں‘‘۔ غزل کے حوالے سے خاص طور پر حبہ خاتون کے غزل نما کشمیری ’’ لولوگیت‘‘کشمیر میں غزل کے لئے میدان ہموار کر چکے تھے اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ جموں کشمیر میں غزل کی صنف فارسی سے کشمیری میں اور کشمیری سے اردو میں آئی۔علی جواد زیدی نے لکھا ہے۔
’’غزل کا مختصر سا سانچہ اورہلکے پھلکے جذبات اور خیالات ،جوفارسی کی وساطت سے کشمیر آئے تو لوک ادب سے اس کے سلسلے جا ملے اور ’’لو لو گیت‘‘ وغیرہ کے زیر اثرکشمیری غزل ہر ٹوٹے مکان تک پہنچ گئی‘‘
علی جواد زیدی ۔مقدمہ ؛کشمیری زبان اور شاعری ۔حصہ دوئم۔ص۔۷۲۔
محمد دین فوق نے ’خواتین کشمیر‘‘ میں لکھا ہئے ’’ حبہ خا تون نے اپنی کشمیری غزلیں،جو کہ فارسی طرز پر تھیں اس فارسی موسیقی کےاصول و قواعد میں شامل کر لیں‘‘ پروفیسرمحب الحسن نے بھی SULTANS KASHMIR UNDER THEمیں لکھا ہئے ۔
’’ایک صوفی سید مبارک شاہ کے مشورے پر اس(حبہ خاتون)نے فارسی بحور میںتجربے شروع کئے‘‘ فارسی کی بعض روایات و اقدارکے پیش نظر شاعری میںنئے تجربے کرنے کے عمل کو تقلید یا پیروی کی بجائے اجتہاد کا نام دینا زیادہ مناسب ہوگا اور حبہ خاتون نے اپنی کشمیری غزلوں میں اجتہاد ہی کیا ہئے فارسی غزل کے اوزان و بحور کی من و عن تقلید نہیں کی ہئے ۔روش عام پہ چلنا حبہ خاتون کا مزاج ہی نہیں تھا عبد الاحد آزاد بھی کہتے ہیں کہ’’لل عارفہ کے دل و دماغ میں دوسرے صوفی شعرا سے گریز کا جوش اور جذبہ نسبتاًً تیز اور گہرا ہئے ‘‘امین کامل نے بھی اپنی تصنیف ’’حبہ خاتون ‘‘ میں اور علی جو ا د زیدی نے کشمیری زبان اور شاعری کے مقدمے(ص۔۷۶) میںیہ ماناہئے کہ’’ فارسی طرز ‘‘ حبہ خاتون کے گیتوں پر صادق نہیں آتی۔۔۔۔ہاں فارسی غزل کے چند اثرات ابھرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں لیکن یہ نقش بہت ہی دھندلا ہئے اور دقت نظر کے بغیر محسوس نہیں ہو سکتا‘‘۔یہی بات مہجور کی کشمیری اور اردو غزلوں کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہئے ، مہجور اگر اپنی اردو غزلیہ شاعری میں بھی ممتاز و افضل ثابت ہوتے ہیں تو اسی وجہ سے کہ انھوں نے فارسی اور کشمیری شعریات سے رنگ و روغن لے کر اپنی اردو غزل کو ایک نیا روپ دیا ہئے ۔مہجور کی جو اردو غزلیں اب تک سامنے آسکی ہیں ان کی داخلی ہئیت میں کشمیری شعریات کی حرارت صاف محسوس کی جاسکتی ہئے۔مہجورکی غزلوںمیںکشمیر کے تاریخی اور دیومالائی واقعات،کردار تلمیحا ت اور استعارات کا استعمال سے ایک طرف جہا ان کی غزلو ں میںتخلیقی وجمالیاتی تہ داری پیدا ہوتی ہئے وہیں رومانی اور عشقیہ مضامین میں خیالی اور تصوراتی کی جگہ جیتے جاگتے زندہ و متحرک کردار تراشنے کا عمل ان کی غزلوں میں ارضیت پیدا کرتاہے اس دو آتشہ کیفیت کے سبب مہجور کی غزل سنتے یا پڑھتے ہی دل میں اتر جاتی ہئے ۔ یو ں تو مہجور کی غزل میں تصوف و اخلاق ،احتجاج و انقلاب ،فطرت پسندی اور وطنیت وغیرہکے متعدد دائرے اور زاوئے ملتے ہیں لیکن اکثر ناقدین نے مہجور کی غزل میں عشق و رومان کو ان کی شناخت قرار دیا ہئے ۔ٹیگور کا مہجور کو ،کشمیر کا ور ڈسورتھ قرار دینا اسی بنا پر ہئے ۔حالانکہ ورڈسورتھ کے ’’لیریکل بیلیڈس‘‘اورمہجور کی عشقیہ غزل یا لو لو گیت میں زمیں آسمان کا فرق ہئے در اصل مہجور کی عشقیہ شاعری میں ، ورڈسورتھ کی عشقیہ شاعری کے بر عکس روحانیت اور ارضیت کی تہذیب و تطہیر کا غلبہ ہئے ، حامدی کاشمیری ا س کی تصدیق ان الفاظ میں کرتے ہیں، ۔ ’’ان(مہجور ) کے یہاں ذاتی نوحہ فریاد بن کر نہیں رہ جاتا ، بلکہ اپنی تشکیلی صورت میں جذباتی وفور کی تہذیب کا باعث بن جاتا ہئے ۔۔۔۔عشق ان کے پورے تخلیقی وجود کو متحرک کرتا ہئے اور تخلیق شعر کابیادی محرک بن جاتا ہئے ۔۔۔۔۔عشقیہ جذبہ مہجور کی داخلی زندگی کی گہرائیوں میں اتر کر شعور اور لا شعور کی حد فاصل کو پگھلا دیتا ہئے ،اور تخلیقی سوتوں کو جگاتا ہئے وہ۔۔۔۔اس جذبے سے نہ جانے اور کتنے خوابیدہ یا بیدار جذبوں کو متحرک کرتے ہیں اور ایک وحدت میں سمو دیتے ہیں ۔ وہ تخلیق شعر کے عمل میں جذبے کے بجائے وقوعوں اور پیکروں سے زیادہ نسبت رکھتے ہیں جو جذبے کے متنوع رنگوں کی تجسیم کاری کرتے ہیںاور قاری کو حیرت اور مسرت سے ہمکنار کرتے ہیں‘‘ مہجور کا ایک وژن۔تجزیاتی مطالعہ ۔حامدی کاشمیری ۔شیرازہ ۔مہجور نمبر ۔ص۔۲۲۴۔
اسی لئے مہجور کی غزل (فارسی ،کشمیری اور اردو ) کی شعریات ، جموں و کشمیر کی اردو غزل کیلئے امکانات کے نئے دروازے وا کرتی ہئے ۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہئے کہ کشمیر کی اردوغزل( شاعری) نے فارسی اور اردوشعریات کے بعض ہئیتی ،فنی،لسانی ۔اسلوبیاتی اور کرداری عناصر ضرور اپنائے ہیں لیکن اردو غزل میں خالص کشمیری شعریا ت اور ارض کشمیر سے مخصوص سماجی و ثقافتی اسما، علائم ،پیکر،محاورات ،ضرب الامثال، تلمیحات اور اساطیر بھی شامل کئے ہیں ۔ کشمیر کی اردو غزل کو یہ بالخصوص مہجور اور مہجور کے اثر سے بالعموم دبستان جموںو کشمیر کے اردو شعرا کی دین ہئے ، مہجورؔ، نازؔکی ، رساؔ ،حکیم منظور،حامدی کاشمیر ی ، عرش صہبائی ،شبیب رضوی ، فاروق نازکی ،ہمدم کاشمیری اور سلطان الحق شہیدی ؔجیسے اساتذہ سے قطع نظر ریاست کے معاصر اردو شعرا، رفیق رازؔ ، خالد بشیر ، ایاز نازکی ، احمد شناسؔ ،شفقؔ سوپوری ، اور نذیر آزادؔ سے آگے لیاقت جعفری اور خالد کرار وغیرہ تک کے یہاں اس کی مثالیں بھری پڑی ہیں لیکن سچ تو یہ ہئے کہ جموں کشمیر کی اردو غزل میںکشمیری شعریات ،بلکہ یوں کہیں کہ ’’کشمیریت ‘‘کی رنگ آمیزی کی ایسی ساری ادائیں اول اول مہجور کی غزلوں میں ہی نمایاں ہوتی ہیں ۔المیہ یہ ہئے کہ مہجور کی اردو غزل (شاعری) پر اب تک خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی ہئے ۔ اور تو اور مہجور کا اردو کلام بھی ابھی تک یکجا اور محفوظ نہیں شیرازہ کے مہجور نمبر میں اور غلام نبی خیال کی ذاتی لائبریری میں مہجور کی متعدد غزلیں محفوظ ہیں ۔مہجورکے پوتے ابدال مہجور کہتے توہیں کہ ان کے پاس مہجور کی سو سے زائد اُردو غزلیں ہیں لیکن نہ تو وہ انھیں کسی کودکھاتے ہیں نہ شائع کرتے ہیں۔ پھر بھی یہ بات طئے ہے کہ مہجور کے زمانے تک آتے آتے کشمیر میں اُردو غزل کا ڈنکابجنے لگا تھا۔ مہجور کی غزلوں میں روایتی واردات و کیفیات کے بجائے موضوعی جدت ہے لیکن ساتھ ہی تغزل کے ماہرانہ برتاو کے اعلیٰ نمونے بھی ہیں۔ ان کی غزل یہ احساس دِلاتی ہے ۔کہ غزل سے بھی انسانی سوچ فکر اور نفسیات کو خوبصورت تعمیری موڑ دیا جا سکتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو مہجور نے جموںو کشمیر میں اُردو غزل کو ایسے باوقار فنی و فکری ، لسانی اور جمالیاتی امتیازات سے مالا مال کیا کہ بعد میں بہت دور تک ، اُردو کے دوسرے مراکز کی طرح کشمیر کی غزل ، کسی بھی زاوئے سے بے راہ روی کا شکار نہیں ہوئی۔ مہجور کے بعد غلام رسول نازکی ،رسا جاودانی ،نند لال کول طالبؔ،شہہ زور،اور مہندر رینہ سے لے کر رفیق راز ، ایاز نازکی اور شفق سوپوری کے بعد کی نسل میں بھی ایسے کئی شعرا ہیں جن کی غزلوں کو کسی بھی زاوئے سے ٹریش نہیں کہا جاسکتا ۔آج کی تاریخ میں جموں و کشمیر کی اردو غزل نے وقت کے ساتھ ،بر صغیر کے دوسرے مراکز کی غزل کی، نہ صرف ہمسری کی ہے بلکہ اردو دنیا سے اپنے مخصوص و منفرد تشخص کا اعتراف بھی کروایا ہے لیکن نہیں بھولنا چاہئے کہ جموں و کشمیرکی اردو غزل کو یہ سعادت اگر حاصل ہوئی ہئے تو اس میں شاعر کشمیر میرغلام احمد مہجورؔ کے زور قلم کا نمایاں کردار رہا ہئے ۔ ( ختم شد)
(رابطہ :سابق صدر شعبئہ اردو ۱۔ کشمیر یونیور سیٹی ۲۔ سینٹرل یونیورسیٹی آف کشمیر)