کشمیر کی تاریخ کے مختلف ادوار مطالعہ کئی ایسے نام نظروں کے سامنے آتے ہیں جنہوں نے کشمیری قوم کی فلاح و صلاح عزت و قار اور ترقی و آزادی کے لئے ایک بڑا حصہ ادا کیا ہے، تاریخ کی انہی شخصیات میں سے کشمیر سے لاہور میں شعرو و ادب اور فکر و فلسفہ کی دنیا کا ایک معروف نام شاعری مشرق علامہ اقبال ؒ کا ہے، جنہیں اپنے کشمیری الا صل ہونے پر فخر و انبساط حاصل تھا۔ چنانچہ ایک موقعہ پر انہوں نے اپنے وجود کو تین حصوں میں تقسیم کر کے ایک خوبصورت تکون ترتیب دیا ہے فرماتے ہیں کہ میرا جسم خیابانِ کشمیر کا ایک پھول ہے اس جسم میں جہاں تک اس کے اہم ترین عضو دل کا تعلق ہے وہ حجاز یعنی جناب رسول مقبول صلی ا للہ علیہ وسلم کی پاک سر زمین کے ساتھ وابستہ ہے اور جہاں تک زبان کا سوال ہے وہ ایران کی اہم علمی شہر شیراز کے ساتھ پیو ستہ ہے۔ چنانچہ اقبال ؒ عہد نامہ لاہور سے عہد نامہ امرتسر تک تاریخ کا پورا مطالعہ کرنے کے بعد جموں کشمیر کی اس بد ترین غلامی نے بے چین کر دیا۔ اور کشمیریوں کی پریشانی غلامی اور اس قوم کو ستھر(70) لاکھ میں فروخت کرنے پر اظہار رنج و غم کرتے ہوئے اقبال ؒ باد صبا سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں: کہ اگر تیرا گذر مجلس اقوام جینوا لیگ آف دی نیشنز سے ہو جائے تو ہم کشمیریوں کی طر ف سے وہاں ایک درخواست پہنچانا کہ یہاں کے دیہاتی اس کے کھیت کھلیان ندی اور خیابان بیج ڈالے گئے ایک قوم بہت ہی سستے داموں فروخت کر دی گئی ؎
باد صبا اگر جینوا گذر کنی
حرفے زمابہ مجلسّ اقوام بار گوے
دہقان و کشت و جوئے و خیاباں فروختند
قومے فرو ختند و چہ ارزاں فروختند
باد صبا نے اپنے موقع پر کشمیریوں کا مسلٔہ لیگ آف نیشنز کے جانشین اقوام متحدہ میں اُٹھایا اور آج بھی وہ کشمیر قرار دادیں وہاں پر نفاذ کی منتظر ہیں۔ علامہ اقبال ؒ نے مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کی شاعرانہ زبان اور اشارہ و کنایہ میں ایک بشارت بھی چونکہ حقیقی شاعر کا وجدان مستقبل کے حالات سے باخبر ہو تا ہے ، اقبال ؒ کے عظیم آفاقی کلام میں درجنوں ایسے اشارات ملتے ہیں جو ان کی مومنانہ فراست کی عکاسی کرتے ہیں ۔ اقبال ؒ کے عہد میں کشمیر کی جو سیاسی معاشی اور سماجی صورت حال کی اس پر جلوت و خلوت میں فکر مند اور مضطرب سے رہتے تھے ،ان کے نزدیک ترین دوستوں کے بیانات پڑھ کر اس بات کا انداز ہو جاتا ہے کہ علامہ اقبال ؒ کے رگ و ریشے میں کشمیریوں کی محبت تھی ، وہ کشمیریوں پر روا رکھے گئے مظالم کا خاتمہ چاہتے تھے ۔ایک موقع پر ان کے احباب کی محفل میں کسی نے کشمیریوں کے افلاس کا ذکر کیا تو علامہ ؒ بولے غریبی اور جہالت قوت ایمان و حریت کی راہ میں نہ کبھی سد ّ راہ ہو سکے ہیںاور نہ ہوں گے ، ہم تو امی ّ پیغمبر ؐ کی اُمت ہیں ، مسلمان کے لئے غریبی اور جہالت کے آڑ میں لینا اس کی روحانی کمزوری کی دلیل ہے ۔کشمیریوں کے مفادات کے تحفظ اور یہاں ظلم وتشدد سے لوگوں کو نجات دلانے کی خاطر لا ہور میں کشمیر کمیٹی کا قیام اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اس زمانے میں بھی کشمیر سے بہت دور مختلف علاقوں میں کشمیریوں کے خیر خواہ موجود تھے۔ اقبال ؒ نے کشمیریوں کی غلامی پر ماتم کرتے ہوئے کہا تھا ؎
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیر
کہتے ہیں کہ انقلابِ روز گار کو دیکھو آج وہ کشمیری غلامی زند گی بسر کر رہے ہیں جو اپنی نفاست، ذہانت دانشمندی اور تہذیب و شائستگی کے لحاظ سے ایرانیوں کے ہم پلہ ّ ہیں۔واضح ہو کہ تیر ہویں صدی سے ستر ہویں صدی تک تبلغ اور تجارت کے سلسلے میں اس قدر ایرانی خاندان کشمیر میں آکر آباد ہو گئے کہ اہل نظر اس خطے بے نظیر کو بجا طور پر ایران صغیر کہنے لگے ؎
سینہ افلاک سے اُٹھتی ہے آہ سوز ناک
مر د حق ہو تا ہے جب مرعوب سلطان و امیر
اس میں کیا شک ہے کہ جب کوئی مسلمان بادشاہ یا نواب سے مرعوب ہو جاتا ہے اور کلمہ حق کہنے کے بجائے اس کی غلامی اختیار کر لیتا ہے تو فرشتوں کے سینوں سے بے اختیار آہ نکلتی ہے یعنی یہ حادثہ ساری دنیا کے لئے رنج و غم کا موجب ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان کو اسلئے پیدا کیا تھا کہ دنیا کو ملوکیت کی لعنت سے پارک کر دے ، لیکن اگر وہ خود ہی اس مصیبت میں گرفتار ہو جائے تو پھر بنی آدم کے حق میں اس سے بڑھ کر اور بدبختی کیا ہو سکتی ہے ؟ بالفاظ دیگرمسلمان کا غلام ہو جانا ساری دنیا کے لئے پیام ہلاکت ہے ؎
آزاد کی رگ سخت ہے مانند رگ سنگ
محکوم کی رگ نرم ہے مانند رگِ تاک
آزاد یا مرد حُرکی خودی یا شخصیت پتھر کی طرح سخت اور مضبوط ہو تی ہے، اسلئے جو مخالف اس کے سامنے آتا ہے وہ اس کی خود ی کی صلابت کی بنا پر پاس پاس ہو جاتا ہے یعنی دشمن مرد حُر کو مغلوب نہیں کر سکتا لیکن غلام کی خودی نہایت ضعیف ہو تی ہے اس لئے وہ اپنے دشمنوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے اور اگر کرتا ہے تو مغلوب ہو کر رہ جاتا ہے ؎
محکوم کا دل مرد ہ و افسردہ و نو مید
آزاد کا دل زند ہ دیر سوز و طرب ناک
غلامی کی وجہ سے محکوم کا دل مردہ افسر دہ اور نا امید ہو تا ہے ، نہ اس کے دل میں تسخیر کائنات کا جذبہ پیدا ہو تا ہے نہ سروری کی خواہش پیدا ہو تی ہے ۔ چونکہ وہ ذلت و خواری کی زند گی بسر کرتا ہے اس لئے قدرتی طور پر اس کے دل میں مایوسی اور نا امیدی کا غلبہ ہوجاتا ہے لیکن اس کے برعکس آزاد کا دل زند ہ ہو تا ہے اس میں دنیا کو فتح کرنے کا ولولہ موجزن ہو تا ہے اور مسر ت سے معمور ہو تا ہے کیونکہ حریت کا لازمی نتیجہ مسرت ہو تا ہے ؎
کہہ رہا ہے داستان بیدردی ٔ ایام کی
کوہ کے دامن میں وہ غم خانہ دہقا ن پیر
غلام ہو کر کشمیر کا مسلمان جن مصائب میں گرفتار ہو گیا اور جن آفات کا شکار ہو گیا، ان کی داستان کسی انسان سے دریافت کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کوہستان کے دامن میں دہقانوں کا ہر گھر غم خانہ بنا ہوا ہے اور زبانِ حال سے باشندوں کی غربت ، فلاکت اور مصیبت کی داستان سنا رہا ہے ؎
آہ یہ قوم نجیب و چرب دست و تردماغ
ہے کہاں روز مکافات اے خدائے دیر گیر
افسوس یہ ہے کہ یہ قوم جو حسب و نسب کے اعتبار سے اس قدر اعلیٰ ہے اور ایسی ہنرمندہے اور ا س درجہ ذہین اور طباع ہے وہ یوں غلامی کی زند گی بسر کر رہی ہے، اس آخری مصرع میں اقبال ؒ خدائے قدوس سے فریاد کرتے ہیں کہ روز مکافات بدلہ کا دن کب آئے گا۔ اے خدا !بے شک تو دشمنوں کو ڈھیل دیتا ہے ( دیر گیر )لیکن اب تو کشمیری مسلمانوں کی ذلت اور مصبیت کی انتہاہو چکی ہے ،اب تو ان کو غلامی سے نجات دے اور انہیں موقع عطا فرما کہ وہ اپنے دشمنوں سے زیادہ طاقتور بنا ئو اور ان کو اپنے دشمنوں کو شکست دینے میں کامیابی عطا فرما ؎
درّاج کی پرواز میں ہین شوکت شاہین
حیرت میں ہے صیادیہ شاہین ہے کہ درّاج
اس نظم میں اقبال ؒ نے حصول آزادی کی اس تحریک کی طرف اشارہ کیا تھا جو 1930ئمیں کشمیری مسلمانوں کے اندر پیدا ہو ئی تھی۔ اس تحریک کی بنا پر اس مظلوم اور محکوم قوم کے افراد میں باطل کا مقابلہ کرنے کی قوت پیدا ہو گئی یعنی تیتر کی زند گی میں شاہین کا رنگ پیدا ہو گیا۔ یہ انقلاب دیکھ کر کشمیری ظالم حکمران طبقہ ( صیاد) حیران ہو گیا کہ یہ وہی کشمیری مسلمان ہیں جو ہماری غلامی پر قانع تھے یاان کی جگہ کوئی اور قوم پیدا ہو گئی ہے ؎
ہر قوم کے افکار میں پیدا ہے تلاطم
مشرق میں ہے فروائے قیامت کی نمودآج
کہتے ہیں کہ کشمیری مسلمان اپنی آزادی کے لئے جو کوشش کر رہے ہیں یہ عین فطر ت کے مطابق ہے۔ خدا نے انسان کو اسلئے نہیں پیدا کیا کہ وہ انسانوں کی غلامی کرے، غلامی تو فطر ت انسان کے خلاف ہے، اسلئے کوئی تعجب یا حیرانی کی بات نہیں ہے ۔ کشمیر کے وہ مسلمان جو صدیوں سے غلامی کی زند گی بسر کر رہے تھے، آج آپنی آزادی کے لئے بہ ہوش وگوش جد و جہد کر رہے ہیں کیونکہ یہ زندہ انسان ہیں ؎
دگر گوں جہاں ان کے زور عمل سے
بڑے معر کے زند ہ قوموں نے مارے
اس نظم میں اقبال ؒ نے کشمیری مسلمانوں کو اس حقیقت سے آگاہ کیا ہے کہ تغیر اور انقلاب پیہم اس دنیا کا قانون ہے، اگر وہ اس دنیا میں ترقی کے آرزو مند ہیں تو انہیں جمود اور سکون کی زند گی کو ترک کرنا پڑے گا۔ گویا سب سے پہلے اپنے اندر تغیر پیدا کرنا چاہے ۔ اس کے بعد دنیا میں انقلاب بر پا کرنے کی طاقت حاصل کریں اور عملاً انقلاب بر پا کر کے دکھائیں اگر وہ اس اصول پر کار بند نہیں ہو ں گے تو وہ غلامی کی لعنت سے نہیں نکل سکتے کیونکہ آزادی ضمیر اور آزادی ملک بغیر جد و جہد کی حاصل نہیں ہو سکتی۔ انقلاب خود بہ خود پیدا نہیں ہو سکتا ، مثلاً سرور عالم ؐ کے غلام سر پر کفن باندھ کر بدر واُحد میں نہ آتے تو وہ انقلاب کیسے بر پا ہو تا جو دنیا کی تاریخ میں کمیت اور کیفیت دونوں کے اعتبار سے عدیم المثال ہے۔جب کسی قوم کے ضمیر کی گہرائیوں میں انقلاب رونما ہو جاتا ہے تو اس قوم پر ایک قسم کی دیوانگی کا عالم طاری ہو جاتا ہے اور ہر فرد کے دل میں ہر وقت دہی دھن سمائی رہتی ہے کہ جو انقلاب میرے اندر بر پا ہوا ہے، وہی دوسروں میں بھی رونما ہو جائے ؎
نصیب خط ہو یارب وہ بند ہ درویش
کہ جس کے فقر میں انداز ہوں کلیمانہ
اقبال ؒ کشمیری مسلمانوں کے حق میں یہ دعا کرتے ہیں اے اللہ کشمیر میں کوئی ایسا مرد مومن پیدا ہو جائے جس کے فقر میں حضرت موسیٰ علیہ اسلام کا رنگ ہو یعنی جس طرح انہوں
نے بنی اسرائیل کو مصریوں کی غلامی سے نجات دلائی تھی ،وہ مرد مومن کشمیریوں کے لئے مفید ثابت ہو( آمین) ؎
چھپے رہیں گے زمانہ کی آنکھ سے کب تک
گہرُ ہیں آبِ ولر کے تمام یک دانہ
گہرُ کنایہ ہے کشمیری مسلمانوں سے اور آبِ ولر کنایہ ہے، خط کشمیر سے علامہ اقبال ؒ کہتے ہیں کہ کشمیری مسلمان تو بڑی خوبیوں کے مالک ہیں اور ان میں بڑی صلاحیت محفی ہے لیکن غلامی نے ان کی خوبیوں پر پردہ ڈال دیا ہے اس کے بعد اقبال ؒ خدا سے دعا کرتے ہیں کہ کوئی ایسی صورت پیدا ہو جائے کہ کشمیری مسلمان آزادی سے ہمکنار ہو سکیں تاکہ ان کی خوبیاں دنیا والوں پر واضح ہو سکیں، ان اشعار سے واضح ہے کہ اقبال ؒ کو کشمیر ی مسلمانوں سے کس قدر محبت تھی اور کشمیری قوم کا عظیم مایہ ناز محُسن تھے۔
رابطہ :نوا کدل سرینگر
فون نمبر9906574009