اودھ کے قصبات میں رودلی سندیلہ اور گاگوری اپنی تہذیب و تمدن کے اعتبار سے ایک خاص مقام کے حامل ہیں۔ فیض آباد جو اودھ کا دارالخلافہ تھا۔ رودلی وہاںسے قریب ترین قصبہ تھا۔ تقریباً بیس میل دور۔ اس لئے اودھ کی نفاشت ، مہمان نوازی، آداب وتہذیب کے اثرات رودلی پر نمایاںہیں۔ یہاں کے معاشتری نظام اور تعلیم و تربیت میں اودھ نظرآتاہے۔ شجاع الدولہ کے دورمیں دارالخلافہ اودھ کی منتقلی لکھنئو کے لئے رودلی کے راستے ہوئی اور اس طرح لکھنوی تہذیب سے رودلی فیضاب ہواا ور یہی تہذیب و تمدن اس کی میراث بن گئی۔ جاگیردارانہ نظام کی گہری چھاپ اس قصبے میں موجود تھی۔ آج کی اُجڑی ہوئی رودلی قدیم رودلی سے بالکل مختلف ہے۔ اس قصبے کا ہر شریف گھرانہ ایسا تعلق دار تھا۔ جس کے گزیٹر میں نام تھا۔ چودھری محمد علی ہوں۔ چودھری ارشاد حسین یا احمد حسین سب باعزت گھرانے تھے۔
اس قصبے کی ایک سہ منزلہ عمارت ، نیم منہدم حالت میں اپنے مکین چودھری احمد حسین کے گھرانے کے جاہ وجلال کی تاریخ بیان کرتی ہے۔ موصوف ا سرارالحق مجاز کے داداتھے۔ جو چھ سو روپے سالانہ کی مال گزاری ادا کیاکرتے تھے۔ اسرارالحق مجاز الحق کے بیٹے تھے۔ مجاز اسی گھرانے میں انیس اکتوبر انیس سو گیارہ میں پیدا ہوئے۔ مجاز نے اپنی تعلیم تعارف میںکہاہے ؎
خوب پہچان لو اسرا رہوںمیں
جنس اُلفت کا طلب گار ہوںمیں
عشق ہی عشق ہے دُنیا میری
فتنہ عقل سے بیزارہوں میں
خوب عشرت میںہیں ارباب خرد
اور ایک شاعر بیدارہوںمیں
چھیڑتی ہے جسے مضراب الم
ساز فطرت کا وہی تار ہوںمیں
مجاز ؔنے اپنے تعارف میں ’ عشق‘ اور الم دونوں کو اپنی زندگی کا ایک حصہ بتایاہے۔ ان سطور میں اس موضوع پرگفتگو ہوگی۔ مجاز 1929 میں لکھنئو سے آگرہ آگئے اور یہاں سینٹ جانسن کالج میںداخلہ لے لیا۔ آگرہ میں معین الدین احسن جذباتی اور مجاز کلاس فیلو تھے اور آل احمد سرور سینٹ جانسن کالج میں ان دوونں سے ایک سال سنئیر تھے۔ ایک مشاعرے میں جذبی آل احمد سرور اور مجاز نے غزلیات سنائیں ۔ لیکن مجاز کو گولڈ میڈل ملا۔ اس لئے کہ ان دونوں کے مقابلے میں مجاز بہترین غزل گو قراردئے گئے تھے۔ اس غزل کا مطلع تھا:۔
یونہی رہو بس درد دل سے بے خبرہوکر
بنو کیوں چارہ گرگیا کروگے چارہ گر ہوکر
مجاز نے آگرے میں فانی سے تلمند حاصل کیا۔
مجاز ؔکی ایک غزل کا شعرتھا:۔
قتل کرکے وہ مستیاں ان کی
خون دل بھی شراب ہوناتھا
فانیؔ نے پہلے مصرعہ میںاصلاح کردی۔
ہجر میںکیف اضطراب نہ پوچھ
خون دل بھی اضطراب ہوناتھا
اس شعر پرفانی نے صادر بنادیا ور جب مجازؔ نے فانیؔ کی ہی زمین میںغزل کہی ؎
سینے میں ان کے جلوے چھپائے ہوئے توہیں
ہم اپنے دل کو طوربنائے ہوئے تو ہیں
اس غزل کو فانیؔ نے بار بار سنا اور کہا کہ تمہاری غزلوں میںنشاط کا رنگ ہے۔ میرا غم میری جوانی اور نشاط کو روند ڈالے گا۔ اس لئے آئندہ مجھ کو اصلاح نہ لیا کرو۔ صرف الفاظ اور ترکیبوں کا اشتباہ دور کرلیا کرو۔
مجاز کی مقبولیت کا تذکرہ عصمت چغتائی نے مجاز ایک آہنگ میںکیاہے۔ علی گڑھ میں علمی اور تہذیبی ماحول کے علاوہ انہیں وہ ماحول ملا۔ جس میںلڑکیاں ان کے نام پر لاٹری ڈالا کرتی تھیں۔ علی گڑھ کے ماحول میں حسن و نغمہ ساز و جام اور تیغ وسنان کی بڑی خوبصورت آمیزش پائی جاتی تھی۔ اس ماحول نے مجاز کی فکری پرواز کی راہیں متعین کیں۔ مجاز علی گڑھ کا وہ طالب علم ہے۔ جس نے وہاں کا ترانہ علی گڑھ لکھا۔ جسے طلبا ء گاتے تھے۔ مجاز نئے خیالات کی رو سے علی گڑھ میں پیدا ہوئے۔ جس کی بنیادیں سوشلزم اور اشتراکیت پر تھیں۔ یہاںانہوں نے بہت کامیاب نظمیں لکھیں۔ مجاز علی گڑھ میں اُرود ایم اے کررہے تھے۔ اسی دوران انہیںآل انڈیا ریڈیو کا ایک رسالہ ’’آواز ‘‘ نکلتاتھا۔ اس میںہندوستان کے مختلف سٹیشنوں سے نشر ہونے والے پروگراموں کی تاریخ اور وقت شائع ہوتا۔ اس کے علاوہ اچھی اور بہتر تقاریر اور نشریہ بھی شائع ہوتے۔ اس طرح نشر یہ صرف ہوامیں نہیں بکھرتاتھا۔ بلکہ محفوظ بھی رہتاتھا۔ اس رسالے کانام ’آواز‘ مجاز نے ہی تجویز کیاتھا۔ وہ اس رسالے کے سب ایڈیٹر بھی تھے۔ ان پروگراموں کاآغاز مجاز کی ایک غزل سے ہواتھا۔
سارا عالم گوش برآواز ہے
آج کن ہاتھوںمیںدل کاراز ہے
مجاز ملازمت کے دوران آل انڈیا ریڈیو سے معطل بھی کردئے گئے تھے۔ انہوںنے ریڈیو کی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ اور 1945میں ہارڈنگ لائبریری میں ملازم ہوگئے ۔ وہ دہلی میںتھے اور انہیں ایک صاحبہ سے عشق ہوگیا۔ مجاز کی بہن حمیدہ سالم نے جگن بھیا میںلکھاہے۔
’’دلی کے چوٹی کے خاندان کی اکلوتی بیٹی چنچل البیلی خوبصورت لاڈ پیار میںپلی ہوئی۔ عشق و عشرت کی عادی ایک عدد بھاری بھر کم شوہر کی ملکیت یہ بیل منڈھے چڑھتی تو کیونکر۔
آل احمد سرور نے ان محترمہ کے بارے میں لکھا کہ دہلی میں ایک ایسا زخم کاری لگا کہ اس کی چوٹ ساری عمر نہ گئی‘‘۔
اس ذیل میں فرحت اللہ انصاری نے لکھا۔
’’جب تک مجاز کے قدم ایوان عشرت میں نہیں پہنچتے تھے۔ وہاں نیندنہیں آتی تھی۔ اس کے اشعار گنگنائے جاتے تھے۔ اس کے شانے پر سر رکھ دیا جاتاتھا۔ یا مجاز کے دور کی غزل خوانی میں بھی رسوائیاں جھلکنے لگیں۔ اسے آوارہ اور مجنوں کے خطاب ملنے لگے۔ آخردربان کو حکم ہوا کہ مجاز پھاٹک میںبھی قدم نہ رکھنے پائے۔
آوارہ نظم جس میں عشق کی ناکامیاں جیتی جاگتی سڑکوں پر آوارہ پھرتی ہیں۔ اس کی دور کی ۔ اس نظم میںجو تشبہیات ہیں۔ اس سے مجاز کی تخیل اور فنی دسترس کا اندازہ ہوتاہے۔
اک محل کی آڑ سے نکلا وہ پہلا مہتاب
جیسے مفلس کی جوانی جیسے بیوہ کا شباب
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
ان محترمہ کانام لکھنا مجاز کے معاصرین نے مناسب نہیں سمجھا۔ اس لئے کہ مجاز نے بے روزگار اور پستی کی طرف بڑھ رہاتھا۔ مشاعروں کے علاوہ آمدنی کا کوئی اور سلسلہ باقی نہ تھا۔ ان محترمہ کے شوہر اپنے عہدے میںاور ترقی کرتے چلے گئے۔ اس لئے ان کا لکھنے کی جرات کون کرتا۔ صرف زہرہ جینیوں کے لفظ سے کام لے لیا گیا ۔ مجاز کی شاعری کو وصف یہ ہے کہ ان کی محبوبہ اُردو شاعری کی روایتی محبوب کی طرح نہ تو چلمن سے جھانکتی ہے اور نہ ہی عاشق کا دل جلانے کے لئے ۔ تازہ غمزہ سے کام لیتی ہے اور وہ حسین بھی نہیںہے کہ خورشید میں بھی اس کاہی ذرہ ظہور ہو۔ وہ اختر شیرانی کا آسمانی خواب بھی نہیں ہے۔ تو اس سنسار میں آسمانی خواب ہے۔ سلمی مجاز کی محبوبہ اسی دنیا کی عورت ہے۔ ملاحظہ ہو ؎
بتائوںکیا تُجھے اے ہمنشیں کس سے محبت ہے
میںجس دنیا میںرہتاہوں وہ اس ُنیا کی عورت ہے
مجاز کے تصور عشق کے سلسلے میں ان کی نظم ’’ ایک غمگین یاد‘‘ کے چند شعر ملاحظہ ہوں ؎
میرے باز و پہ جب وہ زُلف شب گوں گھول دیتی تھی
زمانہ نکہت خلد بریں میں ڈوب جاتاتھا
وہ میرا شعر جب میری ہی لے میں گنگناتی تھی
مناظر جھومتے تھے بام دور کو جدآتاتھا
وہ جب ہنگام رُخصت دیکھتی تھی مُجھ کو مُڑ مُڑ کر
تو خود فطرت کے دل میں محشر جذبات ہوتاتھا
وہ جب محو خواب ہوتی تھی اپنے نرم بسترپر
ۜتو اس کے سرپر مریم کامقدس ہاتھ ہوتاتھا
عشق کی ناکامی کے باوجود عورت کے تقدس کو مجاز نے قائم رکھا۔ یہ مجاز کی اُردو شاعری کو ایک اہم دین ہے۔ ان کی نظم کے ایک بند کا شعر ملا۔ ملاحظہ ہو ؎
دفن کر سکتاہوں سینے میںتمہارے راز کو
اور تم چاہو تو افسانہ بنا سکتاہوں میں
معاشقہ کی ناکامی کے بعد اندر ہی اند رمجاز کاوجود سلگ کر رہ گیا اور یہ سُلگتا آتش فشاں خود کو شراب میں ڈبوتا چلاگیا۔ ان کے دماغ پر دومرتبہ جبون کا اثر بھی ہوا۔ اس کے جنون کے سلسلے میں الوالخیر کشفی نے ’’مجاز ایک آہنگ‘‘ میںلکھاہے۔
’’مجاز ایک گھٹیا قسم کے شراب خانہ میںبیٹھے ٹھرے سے کلیجے کو جلار ہے تھے‘‘ ایک دم سے چیخ پڑے۔
’’سنتے ہو! میری شراب نوشی میرا احساس شکست ہے۔ میں نے شراب میںپناہ ڈھونڈی ہے۔ وہ مجھ سے اونچے ہیں۔ جنہیں غم روزگار شراب نہ پلاسکا۔ وہ لڑناچاہتے ہیں۔ وہ عارضی زندگی کا سہارا نہیں لیتے۔ تم شراب ہر گز نہیں پینا۔ میرا شراب تسکین کے لئے پیتاہوں۔ اگر تمہیں نماز پڑھنے سے تسکین ہوتی ہے تو نماز پڑھو۔ وہ بھی تو بے خود ی ہے۔ ہم دونوں کے مقصد ایک ہے۔ راستے الگ الگ ہیں۔ کشفی کے بموجب اگر یہ واقعہ صحیح کہ مجاز نے اپنی شکست کوتسلیم کرلیاتھا۔ لیکن ’انڈردل ‘ جو 1926کی ان کی نظم ہے۔ اس سے کشفیؔ صاحب کے دعویٰ کی نفی ہوتی ہے ؎
تم کہ بن سکتی ہو ہر محفل میں فردوس نظر
مجھ کو یہ دعویٰ کہ ہر محفل پہ چھاجاتاہوںمیں
آئو مل کر انقلاب تازہ پیدا کریں
دہر پر اس طرح چھاجائیں کہ سب دیکھا کریں
1937میںمجاز کی نظم اندھیری رات کامسافر شائع ہوئی۔ چند شعر ملاحظہ ہوں ؎
حکومت کے مظاہر جنگ کے پرحول نقشے ہیں
کدالوں کے مقابل توپ بندوقیں ہیں نیزے ہیں
سلاسل ’بیٹریاں‘ تازیانے پھانسی کے تختے ہیں
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتاہوں
ان کی مشہور نظم ’’آوارہ‘‘ میں بھی ان کا عزم اور حوصلہ برقرار ہے ۔ ملاحظہ ہو ؎
لے کے ایک چنگیز کے ہاتھوں سے خنجر توڑدوں
تاج پے اس کے دمکتا ہے جو پتھر توڑدوں
کوئی توڑے نہ توڑے میں ہی بڑھ کر توڑدوں
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیاکروں
جوشخص اپنی زندگی سے ہار ما ن لیتاہے یا شکست تسلیم کرلیتاہے۔ نہ تو وہ اپنی منزل کی طرف بڑھنے کی جرات کرسکتاہے اور نہ ہی چنگیز کے ہاتھوں سے خنجر چھین کر اس کے تاج کے پتھر کو توڑ سکتاہے۔ انقلاب کے لئے مجاز مشترکہ جدوجہد کو اہمیت دیتے ہیں۔ ’اندھیری رات کامسافر‘ میںسرمایہ دارانہ نظام کو توڑ کر اپنی انقلاب کی منزل تک پہنچ جانا چاہتاہے۔ ’گرجتی آندھیاں‘ ’آگ کے میدان‘ جبر کے شیطان اس کی منزل میںحائل ہیں۔ لیکن وہ اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتاہے۔ ان کی نظم نوجوان سے میںہرگام پر انقلاب پیدا کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ انقلاب لانے کی خواہش اتنی تیز ہوجاتی ہے کہ مجاز کہہ اٹھتے ہیں ؎
انقلاب کی آمد کا انتظارنہ کرو
ہوسکے تو ابھی انقلاب پیدا کر
مجاز نوجوان خاتون کو قیود اور فرسودہ رواج سے باہر آنے کی دعوت دیتاہے اور نوجوان خاتون سے ’انقلاب تازہ میںبرابر کا شریک بنانا چاہتاہے۔
سنائیں کھینچ لی ہیں سر پھرے باغی جوانوں نے
توسامان جراحت اٹھالیتی تو اچھاتھا
ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے۔ لیکن تو اس آنچل سے پرچم بنالیتی تو اچھا تھا
مجاز نے پہلی جشن آزادی نظم 1947میںلکھی۔ اس میںکہتے ہیں ؎
یہ انقلاب کا مژدہ ہے انقلاب نہیں
یہ آفتاب کا پرتو ہے آفتاب نہیں
اور 1950میںانہوںنے وطن آشوب لکھی اور اس سے پہلے ہی شعر میں کہا ؎
سبزہ برگ ولارو سروسمن کو کیاہوا
سارا چمن اداس ہے ہائے چمن کوکیاہوا
اس نظم کے آخری بند میںکہتے ہیں
کوئی بتائے عظمت خاک وطن کہاںہے
اب کوئی بتائے غیرت اہل وطن کوکیاہوا
کوہ وہی دمن وہی دشت وہی چمن وہی
پھر یہ مجاز جب وطن کوکیا ہوا
جومجاز آزادی کے بعد حُب وطن کی بات کرتاہے۔ مزدور کے افلاس کی بات کرتاہے۔ سرمایہ داری نظام کے خاطمہ کی بات کرتاہے۔ وہ مجاز شکست تسلیم نہیںکرسکتا۔