سبزار احمد بٹ
بہادر کو کون نہیں جانتا تھا ۔ اس کا نام سنتے ہی لوگ کانپ جاتے تھے اور چھپ جاتے تھے ۔ لوگوں سے پیسے ادھار لینا اور پھر کبھی واپس نہ کرنا، بھائی کو بھائی سے جدا کرنا، باپ بیٹے کو لڑانا، میاں بیوی کو لڑانا، ہنستے مسکراتے خاندانوں کو منٹوں میں تنکوں کی طرح بکھیرنا اس کی عادت بن چکی تھی ۔ تھانوں اور عدالتوں کے چکر کاٹتے رہنا اب اس کا معمول بن چکا تھا ۔ شاید ہی کوئی گھر ہوگا ۔ جہاں اس نے آگ لگانے کی کوشش نہ کی ہو۔لوگوں کے کان بھرنا اس کی غذا بن چکا تھا ۔ جب تک کسی کے کان نہیں بھرتا تھا سکون ہی نہیں ملتا تھا چلتی پھرتی ماچس کی تیلی تھی ماچس کی تیلی۔
آج بھی جب اسے پتہ چلا کہ نورالدین اور اس کے چھوٹے بھائی میں تو تو میں میں ہوئی ہے تو اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا ۔
نورالدین کا گھر ایک خوش حال گھرانہ تھا ۔ اس گھر کی محبت اور بھائی چارہ دیکھ کر لوگوں کو رشک ہوتا تھا ۔ گھر میں جوان بہن تھی اور دونوں بھائی محنت کر کے اس کے ہاتھ پیلے کرنے کی تیاری کر رہے تھے ۔ کیونکہ باپ کا سایہ پہلے ہی اُٹھ چکا تھا ۔دونوں بھائی اپنی ماں کی خدمت کرتے تھے اور ایک دوسرے کا بے حد احترام کرتے تھے ۔گھر میں نہ جانے آج کس بات پر دونوں بھائیوں میں تو تو میں میں ہوئی ۔اور یہ بات بہادر کے کانوں تک پہنچ گئی ۔ بہادر اسی بات کے انتظار میں تھا۔
بہادر فوراً نوید کے پاس گیا اور اس کی نادانی سے فائیدہ اٹھایا ۔
تم تو کہتے تھے میرا بڑا بھائی باپ کے برابر ہے ۔ نبھایا اس نے باپ کا کردار ۔
نوید خاموش رہا تو بہادر نے ایک اور تیر چلایا۔
سنا ہے کہ تمہارے بھائی نے تمہارے خلاف تھانے میں رپورٹ لکھوائی ہے۔
“نہیں نہیں وہ ایسا ہرگز نہیں کریں گے ۔تھوڑی سی ہی تو ناراضگی ہوئی ہے، میں ابھی جا کر معافی مانگتا ہوں” نوید نے کہا ۔
یہ تمہارا بھولاپن ہے ۔ تم تو سادہ انسان ہو ۔ وہ تمہیں زمین جائیداد سے بھی بے دخل کرے گا۔
تم جسے چھوٹی سی ناراضگی کہہ رہے ہو، وہ معاملہ تھانے میں پہنچ چکا ہے ۔ تمہارے بھائی نے تمہارے خلاف تھانے میں رپورٹ لکھوائی ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ تم بھی رپورٹ لکھواؤ اس سے پہلے کہ تمہیں تھانے میں بند کیا جائے ۔
بہادر انکل تمہیں کس نے کہا؟
میں تھانے سے ابھی پتہ کر کے آیا ہوں ۔
چلو میں بھی آپ کے ساتھ تھانے میں جاتا ہوں۔
تھانہ پہنچا کر بہادر نے اپنی بہادری دکھائی، رپورٹ میں ایسا کچھ لکھوایا جو کبھی ہوا ہی نہیں ۔
نوید کو واپس بھیج کر بہادر خود تھانے کے ارد گرد گھومتا رہا ۔ دوپہر کے وقت نورالدین کو تھانے بلایا گیا ۔نورالدین کو دیکھتے ہی بہادر اس کے پاس آگیا۔
نور صاحب آپ یہاں کیسے؟ خیریت ہے؟؟
ہاں ہاں بس کسی کام سے آیا تھا ۔ نورالدین نے مختصر جواب دیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ بہادر مدد کرنے کی بجائے اسے کسی اور مصیبت میں پھنسائے گا ۔
لیکن بہادر بھی کہاں ماننے والا تھا ۔
نور صاحب آپ کو تھانہ آنے کی ضرورت کیوں پڑی ۔ بتائیے آپ کو میری قسم ۔ میرے ہوتے ہوئے آپ کو یہاں کیوں آنا پڑا ۔
کچھ نہیں دراصل چھوٹے بھائی نوید کے ساتھ کل تو تو میں میں ہوئی ۔ اس نے پولیس میں رپٹ لکھوائی ہے اب پولیس نے مجھے یہاں بھلایا ہے ۔
اچھا، اس احمق کی اتنی مجال ۔
نہیں نہیں کوئی بات نہیں ۔ چھوٹا ہے ۔ نا سمجھ ہے ۔اب دیکھتے ہیں کیا کہیں گے ۔ کہیں گے کیا میں ابھی دیکھتا ہوں ۔ یہ کہہ کر بہادر تھانے کے اندرونی حصے میں چلا گیا اور وہاں سے ایک پولیس والے کو اپنے ساتھ لایا ۔ نورالدین کے پاس پہنچتے ہی بہادر نے جیب سے رومال نکالی اور اپنے آنسوؤں پونچھتے ہوئے پولیس والے سے کہنے لگا۔
دیکھئے جناب، اسی فرشتہ صفت انسان کے خلاف اس کم بخت نے رپورٹ لکھوائی ہے ۔ یہ میرے باپ جیسا ہے ۔ میرے ہوتے ہوئے یہ تھانے میں نہیں رہے گا۔ آپ اسے میری ضمانت پر چھوڑ دیجئے ۔
بہادر، وہ تو ٹھیک ہے لیکن اس کے چھوٹے بھائی نے اس پر سنگین الزامات لگائے ہیں… بہت مشکل ہے اس کیس کا ختم ہونا…..
پھر کیا تھا بہادر نے ایسی چال چلی کہ معاملہ عدالت تک جا پہنچا ۔
آج چار سال ہوگئے ۔ جن دنوں یہ جھگڑا ہوا ان دنوں دونوں بھائی اپنی بہن کی شادی کے لئے کافی فکر مند تھے ۔ ایک لڑکا بھی پسند آیا تھا اور شادی کی تمام تیاریاں بھی ہو چکی تھیں. بہن کے لئے دونوں نے محنت مشقت کر کے سونا بھی خریدا تھا۔
لیکن تھوڑی سے تو تو میں میں ہونے اور شاطر انکل کی مہربانی سے بسا بسایا گھر اُجڑ گیا۔ معاملہ چونکہ عدالت میں تھا ۔ عدالتی خرچے کے لئے دونوں بھائیوں نے نہ صرف اس سونے کا بٹوارہ کیا۔ بلکہ گھر کی ایک ایک چیز بیچ ڈالی ۔ بہن کے ہاتھ ابھی بھی پیلے نہیں ہوئے ۔
ماں کو اس سانحے کا ایسا دکھ پہنچا کہ آج وہ داعی اجل کو لبیک کہہ گئی۔
ونوں بھائی ماں کے جنازے میں شامل تھے۔
قبرستان سے لوٹے تو دیوار سے لگ کے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے کیونکہ ایک دوسرے کے کندھے پر سر رکھ کے رونے کے قابل تو رہے نہیں تھے ۔۔۔۔
لوگ تعزیت کے لئے آرہے تھے ۔ سب لوگ ایک کمرے میں جمع تھے ۔ اتنے میں حاجی سلام الدین اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور قرآن کی چند آیات کی تلاوت کیں ۔ دنیا کی بے ثباتی پر روشنی ڈالی اور بعد میں دونوں بھائیوں سے مخاطب ہوئے۔
ہائے افسوس اس گھر کو کس کی نظر لگ گئ ۔ تم دونوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے کیوں بن گئے ۔ آج تمہاری دشمنی اور آپسی رنجش کی وجہ سے ہی آپ کی ماں کا انتقال ہوا ۔
اگر اب بھی باز نہیں آئے تو وہ دن دور نہیں جب تمہاری بہن کا بھی یہی حال ہوگا ۔ تمہارے باپ نے کیا کیا خواب دیکھے تھے ۔ لیکن…….
سلام الدین نے ابھی اپنی بات مکمل نہیں کی تھی کہ نوید روتے ہوئے کہنے لگا ۔
سلام چاچا، پہلے انہوں نے ہی میرے خلاف تھانے میں رپورٹ لکھوائی… تھوڑی سی ہی تو تلخ کلامی ہوئی تھی ۔ میں انہیں معافی مانگنے والا تھا ۔
نہیں نہیں رپورٹ اسی نے لکھوائی تھی۔ مجھے تھانے میں بھلایا گیا ۔ اور جو الزامات لگائے گئے وہ……………
ایک منٹ……… تم دونوں خاموش رہو ۔
نوید تمہیں کس نے کہا کہ تمہارے بھائی نے رپورٹ لکھوائی ۔
مجھے میرے ہمدرد بہادر انکل نے کہا ۔
اچھا……..
بہادر انکل نہیں شاطر انکل کہو شاطر انکل ۔ تمہیں پتہ نہیں ہے کہ اس شاطر نے کتنے گھروں میں نفرت کی آگ لگائی ۔
ہائے افسوس اس کی چالوں کو تم نہیں سمجھ سکے ۔تم دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف اسی شاطر انسان نے رپورٹ لکھوانے کے لیے مجبور کیا……..
یہ سنتے ہی دونوں بھائی ایک دوسرے کے گلے ملے اور زاروقطار رونے لگے۔اتنے میں بہادر تعزیت کے لئے اندر آیا
ان دونوں بھائیوں کو گلے ملتے دیکھ کر اس کا منہ کالا ہوا۔ ایسا لگا جیسے ماں ان دونوں بھائیوں کی نہیں بلکہ بہادر کی ہی مری ہو ۔
���
اویل نورآباد ، کولگام،
موبائل نمبر؛70067384436