معاشرت
سبدر شبیر
شادی انسانی زندگی کا ایک اہم موڑ ہے۔ یہ صرف دو افراد کے ملاپ کا نام نہیں بلکہ دو خاندانوں کے قلوب کو قریب لانے اور معاشرتی رشتوں کو مضبوط کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ اسلام نے شادی کو نصف ایمان قرار دیا اور اسے برکت اور رحمت کا وسیلہ بتایا ہے۔ اس لیے شادی کے موقع پر خوشی منانا ایک فطری عمل ہے، مگر افسوس یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں خوشی منانے کے ایسے انداز اختیار کیے جا رہے ہیں جو نہ صرف دینی اعتبار سے قابل اعتراض ہیں بلکہ سماجی سطح پر دوسروں کے لیے وبالِ جان بن جاتے ہیں۔
آج کل شادیوں کے موسم میں سب سے زیادہ نظر آنے والا منظر یہ ہے کہ لاؤڈ اسپیکر پر رات بھر گانے بجائے جاتے ہیں۔ شادی والے گھر کا شور و غل پورے محلے کی نیند اور سکون کو چھین لیتا ہے۔ بچے روتے ہیں، بزرگ بے چین ہو جاتے ہیں، بیماروں کی حالت مزید خراب ہو جاتی ہے اور وہ لوگ جو صبح سویرے کسی ذمہ داری یا ملازمت کے لیے اٹھتے ہیں، نیند کی کمی کی وجہ سے شدید پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یوں ایک خاندان کی خوشی پورے محلے کے لیے مصیبت میں بدل جاتی ہے۔
اسلام اس طرزِ عمل کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ دین ہمیں خوشی منانے کی اجازت دیتا ہے مگر اس خوشی کو حدود و قیود کے ساتھ مشروط کرتا ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔ اسی طرح قرآن میں ارشاد ہے کہ اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ جب شادی میں شور و غل، نمود و نمائش، رات بھر لاؤڈ اسپیکر کا استعمال اور گانوں کی محفلیں ہوں تو یہ سب چیزیں اسراف اور دوسروں کو تکلیف دینے کے زمرے میں آتی ہیں، اور یہ وہ اعمال ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے۔
سماجی اعتبار سے بھی یہ رویہ نہایت نقصان دہ ہے۔ بیمار شخص کے لیے نیند دوائی کی حیثیت رکھتی ہے، مگر جب شادی کی خوشی میں رات بھر شور مچایا جاتا ہے تو اس کی بیماری بڑھ جاتی ہے۔ طلبہ جو امتحان کی تیاری کرتے ہیں، ان کی یکسوئی برباد ہو جاتی ہے۔ بزرگ اور خواتین سکون کی تلاش میں بے چین رہتے ہیں۔ کیا یہ انصاف ہے کہ ایک خاندان کی خوشی کے لیے درجنوں خاندانوں کی زندگی اجیرن کر دی جائے؟ یہ سوچ درحقیقت خود غرضی اور دوسروں کے حقوق پامال کرنے کی واضح مثال ہے۔
دینی نقطۂ نظر سے بھی اس عمل کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ جب ایک شادی کی تقریب پورے محلے کو اذیت دے تو یہ عمل سراسر گناہ ہے اور اس سے خوشی کے بجائے بیزاری اور بدگمانی جنم لیتی ہے۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ شادی ایک عبادت ہے اور اگر اس موقع پر اللہ کی نافرمانی کی جائے، دوسروں کے سکون کو برباد کیا جائے اور فضول خرچی کو رواج دیا جائے تو یہ خوشی برکت کے بجائے وبال میں بدل جاتی ہے۔ اسلام ہمیں خوشی منانے سے منع نہیں کرتا بلکہ ہمیں سکھاتا ہے کہ خوشی کو سادگی، اعتدال اور دوسروں کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے منایا جائے۔ شادی کو پر وقار اور یادگار بنانے کے کئی مثبت طریقے ہیں۔ گانے بجانے کے بجائے قرآن کی تلاوت، حمد و نعت یا دینی اشعار سے محفل کو رونق بخشی جا سکتی ہے۔ رات بھر جاگنے کے بجائے دن میں مختصر اور بابرکت تقریب رکھی جا سکتی ہے۔ نمود و نمائش کے بجائے سادگی اختیار کی جا سکتی ہے تاکہ یہ خوشی واقعی اللہ کی رحمت کا ذریعہ بنے۔
یہ ذمہ داری صرف شادی کرنے والے خاندان کی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی ہے۔ علماء کو چاہیے کہ وہ خطبات میں اس موضوع پر روشنی ڈالیں، والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کو اعتدال کی تعلیم دیں اور نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ خود بھی غیر ضروری رسم و رواج کے پیچھے نہ بھاگیں۔ جب تک معاشرے کے تمام افراد مل کر اس رویے کی اصلاح کے لیے آواز بلند نہیں کریں گے، یہ وبا بڑھتی ہی جائے گی اور ہماری خوشیوں کو گناہوں کے بوجھ میں بدلتی رہے گی۔خلاصہ یہ ہے کہ شادی واقعی خوشی کا موقع ہے مگر یہ خوشی ایسی ہونی چاہیے جو دوسروں کے سکون کو نہ برباد کرے۔ لاؤڈ اسپیکر پر رات بھر شور مچانا، گانے بجانا اور محلے والوں کی نیند حرام کرنا نہ صرف اخلاقی طور پر غلط ہے بلکہ شریعت کی نظر میں بھی بڑا گناہ ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی خوشیوں کو سادہ، بابرکت اور شریعت کے مطابق منائیں تاکہ وہ ہمارے لیے دنیا میں بھی راحت کا ذریعہ بنے اور آخرت میں بھی نجات کا سبب ہو۔
[email protected]