قیصر محمود عراقی
اگر ’’شادی‘‘پر سے نقطے ہٹا دیئے جائیں تو وہ ’’سادی‘‘بن جاتی ہے، لیکن یہ تین نقطے ہٹانے کیلئے عزم وحوصلے کی ضرورت ہے۔ نبی پاکؐ کی تعلیمات کے مطابق مسلمان کو شادی کرنے کیلئے دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ایک ’’حق مہر‘‘اور دوسرا ’’ولیمہ‘‘ ، لیکن آج کے مسلمان نے اپنے پیارے دین کی تعلیمات کو بھلاکر غیر مسلموں کی رسومات کے غیر ضروری پھندے لگادیئے ہیں کہ شادی کو انتہائی مشکل بنادیا ہے۔جیسے کسی کے بھی گھر میں بیٹی کی شادی کی تاریخ مقرر ہوئی تو ان کے گھر میں گویا بونچال آگیا ، یعنی پورے زور شور سے شادی کی تیاریاں شروع ہوگئیں، جب سنوںماں اپنی بیٹی سمیت کبھی بازاروں میں، کبھی درزن کے پاس ، کبھی شادی ہال پسند کرنے تو کبھی کیٹرنگ والوں کے پاس جارہی ہیں، تین مہینے لگاتار اسی جدوجہد میں صرف کرنے کے بعد بھی تیاری مکمل نہیں ہوسکی اور شادی سر پر آگئی تو ان لوگوں کی دوڑ دھوپ میں مزید تیزی آگئی۔ پھر دوسری فکروں کے ساتھ ساتھ یہ فکر بھی سوار ہوگئی کہ دور سے آنے والے مہمانوں کو ٹھہرانے کے انتظامات کیسے کئے جائیں، اس کے لئے گھر کی صفائیاں بھی ہونی ہیں، ان کے لئے بستر ، برتن ، ناشتے اور کھانے کے لوازمات بھی تیار کرنے ہیں ۔ گویا گھر کے بکھیڑے سمیٹتے سمیٹتے سر میں درد ، تھکن سے جسم چور چور ہوجاتے ہیں، اس کے باوجود بھی شادی کے فنکشنز کی ترتیب کچھ یوں بنائی جاتی ہے کہ بارات سے دس دن پہلے ڈھولکیاں شروع ہوجائیں گی اور سارے خاندان والے روز آیا کرینگے اور نوجوان بچیاں رقص کرینگی اور شادی کی گیت گائینگی، پھر شادی کے ایک دن پہلے قرآن خانی کی جائیگی یا میلاد شریف ہوگی، اس کے بعد مایوں، مہندی، بارات ، ولیمہ وغیرہ ہوگی۔
عصر حاضر کے بے ضرورت لوازمات اختیار کرنے کی وجہ سے تقریباً ہر شخص ایک اضطراب وپریشانی میں مبتلا ہے، مگر ہر شخص ان تکلیفوں کو خوشی سے برداشت کئے جارہا ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنی عزت عزیز ہے، خواہ غریب آدمی ہو یا امیر ، چھوٹا ہو یا بڑا، ذمہ دار ہو یا غیر ذمہ دارہر ایک اپنی پوزیشن بنانے یا باقی رکھنے کیلئے ان تمام غیر ضروری رسوم کو اختیار کرتا ہے، جو شادیوں کو ایک جزبن چکی ہیں۔ معاشرہ میں سمجھدار لوگوں کی کمی نہیں، الحمداللہ علماء، صلحاء، اتقیاء ٔ ، حکمہ ، دانشورانِ قوم موجود ہیں مگر سبھی اپنی حیثیت برقرار رکھنے کی مجبوری سمجھ کر رسم ورواج کے سامنے سپر ڈال دیتے ہیںاور یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام نے اس سلسلے میں ہماری کوئی رہنمائی نہیں کی، یا پھر تعلیمات ، ہدایات موجود ہوںتو ہم ان کو اختیار کرنے سے عاجز ہیں۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ رسوم رواج کی قباحت ، شناعت کو عمومی سطح پر اجاگر کیا جائے، تمام لوگوں کو غیر اسلامی طریقوں کے نقصانات کو خوب اچھی طرح دل ودماغ میں بٹھایا جائے، معاشرے میں دینی ، اسلامی روح پیدا کی جائے ،اسلامی احکام کی اہمیت و عظمت دلوں میں اتاری جائے، آخرت کاخوف پیدا کیا جائے، متائے دنیا کی حرص دور کی جائے، اس بات کو دل ودماغ میں راسخ کیا جائے کہ مومن کی سرخروئی اور کامیابی اسی میں ہے کہ وہ خداکی قائم کی ہوئی حدود کے اندر رہ کر جائز اور وبیشتر طور پر اپنی دنیا بھی خوشحال بنائے اور آخرت بھی سنوارے، ناانصافی اور ظلم وستم سے پرہیز کرے، ورنہ اس کا انجام بڑا بھیانک اور خطرناک ہے۔ یہ ذہن نشین کرایا جائے کہ نکاح ایک پاکیزہ رشتہ ہے، جو انسان کی حفاظت وبقا اور اس کے فطری جذبات کی مناسب تحدید کیلئے وضع ہوا ہے، اس رشتے کے بعد دو خاندانوں میں قرابت اور محبت اور اتحاد ویگانگت بھی برپا ہوتی ہے اور مرد وزن پر بہت سی ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ اسی طرح نوجوانوں کو بتایا جائے کہ مرد کی عزت اور وقار کا تقاضا یہی ہے کہ مرد خود اپنی کمائی ، اپنی محبت اور اپنی دولت پر بھروسہ کرے، بیوی یا اس کے ماں باپ اور اہل خاندان کی کمائی اور دولت پر حریصانہ نظر رکھنا گھٹیاطبیعت کی غماز ہے۔
فی الحال جو بُرائیاں پیش نظر ہیں ان میں شادی کے موقع پر سنت وشریعت کو چھوڑ دینا ہے جس کی وجہ سے ہم غضب الٰہی کے مستحق ہورہے ہیں۔ ممنوعات شرعیہ ، رسوم ورواج کا ارتقاب کیا جارہا ہے، اسلامی طریقے مٹ رہے ہیں، فضول خرچی ، بے پردگی، غیروں کی مشابہت، اختلاط مع النسا، ویڈیوں گرافی، رقص وموسیقی، نمود ونمائش ، شہرت طلبی جیسے مفاسد نے اپنا دائرہ بہت وسیع کرلیا ہے۔ اکثر مسلم گھرانوں پر ان برائیوں کے سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام ذمہ داران قوم ،خصوصاً علماکرام اس سلسلے میںقوم کو متوجہ کریں، انہیں سدھارنے کی کوشش کریں، ورنہ وہ وقت دور نہیں کہ خداوند قدوس اسلام کی ناقدری کی وجہ سے ہمیں محروم کرکے دوسروں کو نواز نہ دے۔ اس لئے بہتر ہے کہ ابھی سے ہی ہمارے علماکرام شادی بیاہ کے موقع پر خصوصاً دولت مندوں کو سمجھائیں کہ خدا نے آپ کو دولت دی ہے اور آپ اپنی بیٹی داماد کو جو چاہے دے سکتے ہیں لیکن اس کا بھی خیال رکھیں کہ اس سے غریبوں کی دل شکنی نہ ہو ، کیونکہ آپ کی اس فعل سے غریب خاندانوں کی لڑکیاں اس رسم جہیز کی وجہ سے بیٹھی رہ جاتی ہیںاور ان کا کوئی پرُسان حال نہیں رہتا ۔ آپ کو دینا ہی ہے تو بعد میں پوشیدہ طور پر دے لیںلیکن خدارا اپنے جہیز اور دولت کی نمائش کرکے تنگ دست لڑکیوں کی زندگی کو اجیرن نہ بنائیں۔ نوجوانوں کو بتائیں کہ تم اگر اپنی محنت سے دولت کے مالک بن سکے تو یہ دولت تمہارے لئے راحت وعزت کا باعث ہوسکتی ہے، لیکن ظلم وستم کے طریقوں اور ناجائز راستوں کو اپنا کر بھیک کی طرح جہیز مانگ کر مال واسباب جمع کرنا کوئی شریفانہ طریقہ نہیں ، تمہاری عظمت اور وقار اسی میں ہے کہ تم دکھی اور غریب پریشان حال کے لئے باعزت زندگی کا سہارہ بنو اور اسے اپنی زوجیت میں لاکر اس کا دکھ درد ، رنج والم دور کرو ، نہ یہ کہ وہ خود اپنے جہیز سے تمہاری محتاجی اور غربت کا علاج کرے۔
آخر میں بس اتنا ہی کہ ہم کیسے مسلمان اور عاشق رسولؐ ہیں کہ تمام رسم ورواج اور طور طریقے غیروں کے اپناتے ہیں ، مگر مسلمان اور اس کے دعوے میں پھر بھی سچے ہیں۔ ہم الحمد اللہ مسلمان ہیں ، ہمارے پاس دین اسلام کا مکمل جامع اور تنہائی آسان نظام حیات اور طرز زندگی موجود ہے، جو بے شمار آسانیاںلیکر آیا ہے ، زندگی کے ہر مسئلے ومعاملے میں ہمیں آسانی کی راہیں دکھاتا ہے۔ شریعت مطہرہ نے ہمیں وراثت کا پاکیزہ نظام دیا ہے جس میں والدین کے ترکے میں بیٹی کا حصہ مقرر اور طے ہے۔ لہٰذا ہمیں جہیز کی یہ رسم بد اپنانے کی چنداںضرورت نہیں بلکہ ہمیں وہ افعال واعمال اپنانے ہیں، جس کا ہمیں اللہ اور اللہ کے رسول ؐ نے حکم دیا ہے۔ ہم خودہی آسانیاں چھوڑ کر مشکلات میں گھرے جارہے ہیں، کاش ہم سوچیںاور سمجھیں ، ذرا سوچئے ، سمجھئے ، غور کیجئے اوراپنے حصے کا چراغ روشن کیجئے۔
رابطہ۔6291697668