قیصر محمود
جہیز جیسی دینی ، معاشرتی اور اخلاقی برائی کو ڈکیتی اور چھینا چھپٹی سے تعبیر کیا جا ئے تو زیادتی نہیں ہو گی ۔ بے شمار ایسے واقعات سامنے آچکے ہیں کہ جن میں بچیوں کی منگنیاں صرف اور صرف جہیز کے معاملے پر آکر یا تو ٹوٹ چکی ہیں یا پھر التوا کا شکار ہیں ۔ یہ صورت حال پیدا کر دی گئی ہے کہ بچیوں والے اب بچی کی شادی کا سوچ کر دل سے آہ بھرتے ہیں اور اپنی بچی کو بس دیکھتے رہ جا تے ہیں ۔ نہ جا نے دل میں کیسے کیسے ارمان اور خدشات ہو تے ہیں جو زبان پر لاتے ہو ئے شاید طوفان آجائے اور اس ب کی بڑی وجہ رشتوں میں بے جا تکلفات اور جہیز ہے ۔
آج ہمارے مسلم معاشرے میں جہیز جیسی لعنت ختم ہو نے کے بجائے ایک روایت بنتی جا رہی ہے کہ آج بغیر جہیز کے لڑکی کی رخصتی ممکن نہیں ہے ، اب تو کئی جگہوں پر لڑکی والوں کو بلیک میل کر کے جہیز لیا جا تا ہے ۔ پہلے یہ معاملہ بڑے شہروں اور نام نہاد پڑھے لکھوں میں پا یا جا تا تھا مگر اب تو نچلے طبقے تک سرایت کر چکا ہے ۔ یہ ایک الگ معاملہ ہے کہ اگر بچی کے گھر والے اپنی مرضی سے کچھ دینا چاہتے ہیں تو وہ ان کی مرضی، مگر باقاعدہ مطالبہ رکھنا یقینا ًغیر اخلاقی ہے ۔ یہ بات کتنی عجیب ہے کہ جہیز کا مطالبہ کر نے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ان کے گھر میں بھی بہن اور بیٹی ہے ، یا یہ ہی سوچ لیں کہ وہ جس طرح کے مطالبات رکھ رہے ہیں ،اس سے بچی کے گھر والوں پر کیا بیتے گی ۔ ان کے حالات کیسے ہیں ، کہیں ایسا تو نہیں کہ باقی بچیوں کا حق مارا جائے ، بہت سے مسائل ہیں جو صرف ایک جہیز کی وجہ سے جنم لیتے ہیں ۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم دوسروں کی بچیوں کو اپنے لئے بوجھ سمجھتے ہیں ، جبھی بوجھ لینے سے قبل ہم ایسی بے ہودہ ڈیمانڈ رکھتے ہیں ۔ اللہ نے لڑکی کو رحمت بنا کر بھیجا ، اس لئے کہ یہ جہاں بھی جا تی ہے وہاں رحمت کے در کھلتے چلے جا تے ہیں ، وہ بچی اپنا مقدر خود لے کر بابل کی دہلیز پار کر تی ہے اور پھر اپنے مقدر کے ساتھ اس گھر کو چار چاند لگاتی ہے ۔ دانشور لوگ کہتے ہیں کہ بیٹیاں سب کی ساجھی ہو تی ہیں مگر دولت و شہرت کے پجاری لوگوں کی آنکھوں پہ تو لالچ کی پٹی بندھی ہو تی ہے ۔ تبھی تو اس ظالم سماج میں کسی کی بیٹی کو اپنی بہو بنانے کے لئے جہیز مانگا جا تا ہے ، کسی کی بیٹی کو اپنی بہو بنانے کے لئے ڈیمانڈ کی جا تی ہے کہ شادی کے دن فلاں طرح کا شادی ہال ہو نا چاہئے، فلاں طرح کا کھانے ہو نے چاہئے، اگر اس طرح نہ ہوا تو ہماری برادری میں ناک کٹ جا ئے گی ، عجیب و غریب طرح کی شرائط عائد کی جا تی ہیں اور فلاں دن فلاں مہینے میں شادی کر نی ہے ، ان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ جس کی بیٹی ہے، وہ اتنا بوجھ اُٹھا بھی سکتا ہے کہ نہیں۔ اگر ایسے ظالم وبے حس لوگوں کی شرائط نہ مانی جا ئے تو کہیں بیٹی کا رشتہ ٹھکرا دیا جا تا ہے، تو کہیں رشتہ توڑ دیا جا تا ہے ۔ ایسے لوگوں کو خدا یاد نہیں ان کو یہ بھی یاد نہیں کہ ایک دن موت آنی ہے اور سب کچھ دنیا میں چھوڑ کر اللہ پاک حضور پیش ہو نا ہے اور دنیا میں جو کچھ کیا اس کا حساب دیتا ہے ۔
ایسا لگتا ہے کہ اکیسویں صدی میں سفر کرتے کرتے ہم اسلامی طرزحیات کو زیادہ تر بھلا چکے ہیں ، جدھر بھی دیکھا جا ئے غیر مذہبی طریقے رائج ہو رہے ہیں یا پھر کر نے کی کوشش کی جا رہی ہے ، سہولت اور آرام کو مد نظر رکھکر زندگی بھی گزاری جا تی ہے جب حیثیت اس بات کی اجازت دے ،و گر نہ اسلامی سادہ زندگی کوئی مشکل کا م نہیں ، اسلام سے پہلے عربوں کی طرح حالت آج بھی ہمارے معاشرے میں سرائیت کر چکی ہے ۔ جہاں عورت کو اسلام نے ایک بہترین مقام دیا ،وہاں ہم عربوں کی طرح حواکی بیٹی کو اپنے سامنے جھکانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ہر والدین کی خواہش ہو تی ہے کہ ان کی بیٹی کی شادی ہو جا ئے اور وہ اپنے گھر کی ہو جا ئے مگر شادی میں سب سے بڑی رکاوٹ جہیز ہے ، ایسا کیوں ہے ؟ موجودہ دور میں جہیز ایک ناسو ر بن گیا ہے۔ جو ایک مہلک وبا کی طرح معاشرے میں پھیلتا جا رہا ہے ، جس سے طرح طرح کے مسائل جنم لے رہے ہیں ۔ جہیز ہمارے معاشرے میں ایسے زہر گھول رہا ہے کہ جہیز نہ ہو نے کی صورت میں پڑھی لکھی ، خوب سیرت اور سلیقہ مند لڑکیاں آنکھوں میں خواب سجائے ماں باپ کی دہلیز پر ہی بیٹھی رہتی ہیں اور بعد میں ،وہ روز روز کی ذہنی اذیت سے نجات پانے کے لئے خودکشی تک کر لیتی ہیں ،جبکہ کئی والدین اپنی بیٹیوں کے جہیز دینے کے لئے قرض لیتے ہیں اور پھر ان کی ساری زندگی قرض چکاتے چکاتے گذر جا تی ہیں ۔
شادی ایک خوبصورت بندھن ہے ،جسے ہم لوگوں نے لالچ اور خود غرضی کی وجہ سے اتنا بڑا مسئلہ بنا لیا ہے ۔ ہم لوگ یہ تو بہت کہتے ہیں کہ جہیز ایک لعنت ہے مگر پھر بھی جہیز کی ڈیمانڈ کر تے ہیں اور جہیز لے لیتے ہیں ۔ شادی کا خواب دیکھنا ہر لڑکی کا حق ہو تا ہے ، اسے محض اس وجہ سے اس حق سے محروم کر نا کہ وہ غریب ہے جہیز نہیں لا سکتی تو یہ بہت ہی غلط بات ہے ۔ آج کے دور میں لگتا ہے لوگ رشتہ کر نے نہیں سودا کر نے جا تے ہیں ،اپنے بیٹوں ،کا دنیا میں بہت سے لوگ مفاد پر ست ، دولت و شہرت کے پجاری ، جھوٹ، شان و شوکت کے لالچ اور دنیاوی زندگی کی بھاگ دوڑ میں اپنے رشتوں کو بھی بھول چکے ہیں ۔ یہ تو بیٹی جیسے عظیم رشتے سے بھی ناواقف ہیں ۔ اسی لئے آج انسانیت ایک لاوارث لاش کی شکل میں بدروح بن کر چہار جانب گھومتی دکھائی دے رہی ہے۔
لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ غور کریں اور اپنی اپنی بیٹیوں کا رشتہ اچھی جگہ کریں اور کبھی بھی کسی دبائو، لالچ ، جہالت اور نا عاقبت اندیشی سے بچی کی زندگی تباہ نہ کریں ۔ بیٹی کا رشتہ کر تے وقت سوچ سمجھ اور دیکھ بھال کر کے ایسے لوگوں کے ہاتھ میں اپنی بیٹی کا ہاتھ مت دیں ،جو دولت کے پجاری ہو ں ،جن کو جہیز جیسی لعنت کی لالچ ہو ۔ جن کی شکل مومناں کرتوت منفقانہ اور دل کافراں ہو ں ۔ ایسے لوگوں سے بچناوقت کی اہم ضرورت ہے ، کیونکہ بیٹی کی زندگی کا سوال ہے ۔اس لئے بطور ایک اچھاشہری اور ایک مسلم ہو نے کے ناتے جہیز جیسی بھیانک بُرائی کو جڑ سے نکال پھینکیں ، یاد رکھیں ! اس کے لئے صرف ایک نہیں بلکہ سب کو مل کر جدوجہد کر نا ہو گی ۔ شریعت اسلام میں جہیز کی کوئی گنجائش نہیں ۔ جہیز جیسے ناسور کا خاتمہ کر نے کے لئے اگر ہم میں ہر انسان اپنی اصلاح کر لے، خود کو اس برائی سے بچالے، اگر ہر نوجوان اپنے اندر خوداری پیدا کر لے اور جہیز کے خلاف آواز اُٹھا ئے کہ وہ جو بھی کر ے گا، اپنے بل بوتے پر کرے گا اور سب لوگ اگر یہ کریں تو انہیں صرف دین دار اور سلجھی ہو ئی لڑکی چاہئےاور کچھ نہیں اور دوسروں کی بیٹیوں کو اپنی بیٹی مانیں تو یقین جا نئے معاشرے سے اس برائی کا بہت جلد خاتمہ ہو جا ئے گا اور بہت سی غریب لڑکیا ں اپنے اپنے گھروں کی ہو جائیگی اور جہیز جیسی لعنت سے جھٹکارا حاصل کیا جا سکے گا ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس برائی سے بچائے اور مسلمان گھرانوں کو جہیز کی لعنت سے محفوظ رکھے۔ آمین
رابطہ۔ 6291697668