عصر حاضر میں جہاں کچھ اہل مغرب اور مغرب متاثرین نے شادیوں کو غیر اہم بنادیا ہےاور انسان اس بات کا حق دیا ہے کہ اپنے فطری جذبات کو جیسے چاہے پورا کرے،اور وہ لوگ اس تعلق سے کسی بندھن کے قائل بھی نہیںہیں، اُن کے ہاں نہ گھر گرہستی کی سوچ ہے اور نہ ہی کسی خاندان کا تصور۔جس کے نتیجے میں مغرب کے حساس اور سنجیدہ طبقہ پریشان حال ہیں۔جبکہ حقیقت یہی ہے کہ شادی قانون فطرت ہے، تسکین نفس کا حلال طریقہ ہے، افزائش نسل کا ذریعہ ہے، انسانی معاشرہ کی بنیاد ہے، پیار ومحبت، الفت دانستہ گی کی عمدہ مثال ہے، خود کے پاؤں پر کھڑے ہونے، ذمہ داری کا بوجھ اُٹھانے اور نیا گھر آباد کرنے اور خاندان بڑھانے کی علامت ہے، ایک نئی زندگی کی شروعات ہے۔ اس لئے شادی بیاہ کے موقعہ پر دُلہا دُلہن ، ماں باپ، بھائی بہن، عزیز واقارب دوست و احباب کا خوش و خرم ہونا فطری بات ہے۔ شادی بیاہ کے موقعہ پر فرط مسرت کا اظہار کرنا انسانی طبیعت میں داخل ہے۔جبکہ اسلام میں نکاح کے اعلان کا حکم ہے، دعوت ولیمہ کا اہتمام کرنا ازروئے شرع مسنون قرار دیا گیا ہے۔ دوسرے کی خوشی میں شریک ہونا، دعاء خیر کرنا، مبارکبادی کے تبادلے کی ترغیب دی گئی ہے۔تاہم دین اسلام نے جہاں انسانیت کی سیدھی راہ بتائی ہے وہیںاچھائی اوربُرائی میں تمیز کرنے اور عدل و اعتدال و میانہ روی کا سبق بھی دیا ہے۔اسلام نہ بخالت کو پسند کرتا ہے اور نہ ہی فضول خرچی کا روادار ہے۔اسلام نکاح کو روحانی اور اخلاقی ترقی کے لئے رکاوٹ نہیں بلکہ ترقی کی شاہراہ قرار دیتا ہے۔ اس لئے اس نے نکاح کو بہت آسان بنا کررکھ دیا ہے۔ ایجاب و قبول ، عورت کے لئے ولی کا ہونا ، کچھ مہر کی ادائیگی ، دو گواہوں کا ہونا، یہ نکاح کے بنیادی شرائط ٹھہرے ہیں۔اس کے لئے بھاری بھرکم اخراجات اُٹھانا ، شاہ خرچیاں ، بڑی باراتیں ، ٹھاٹھ باٹھ ، یا نام ونمود کے اظہار کی کوئی بھی شرائط موجود نہیں اور نہ اسلام فضول خرچیوں اور اسراف وتبذیر کی اجازت دیتا ہے۔ہمارے پیارے نبیؐ ؐ کا ارشاد گرامی ہےکہ میانہ روی کو اختیار کرو، تم منزل مقصود کو پہنچ جائوں گے۔اس لئے یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ دین اسلام کی بنیاد اعتدال اور میانہ روی پر ہے۔ لہٰذا شریعت اسلامی میں نہ غلو و مبالغہ کی اجازت ہے اور نہ ہی تنقیص و کوتاہی کی۔ بطور خاص شریعت مطہرہ میںاسراف اور فضول خرچی کی سخت وعیدیں آئی ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ تم رشتہ دار، غریب اور مسافر کا حق ادا کرو اور ذرا بھی اسراف مت کرو۔کیونکہ اسراف کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔ شادی بیاہ کے موقعہ پر شرعی حدود میں اظہار خوشی کی اجازت ہےتا ہم اظہار خوشی میں اسراف و فضول خرچی کرنا ،زیب وزینت پر ہزاروں لاکھوں روپے ضائع کرنا، بڑے بڑے شادی خانے لیکر سینکڑوں افراد کو دعوت دینا اور متنوع و ہمہ اقسام کے کھانے بنانا اور اس پر فخر و مباہات کرنا، اس کو اپنی حیثیت اور وقار کا مسئلہ بنانا ،لڑکی والوں کو زیر ِبار کرنا، بے جا رسوم و رواج پر اوقات کو ضائع کرنا، پیشہ ورخواتین کے ذریعہ گانا بجانا ، رقص و سرور کی محفلیں سجانا، زن و مرد کا باہم ملنا، نو جوان لڑکے لڑکیوں کا مذاق و دل لگی کرنا، آتش بازی اور پٹاخوں اور غیر ضروری لائٹنگ میں پیسوں کو برباد کرنا، خوشنمائی اور دکھاوے کے لئے مہنگے سے مہنگے اسٹیج بنانا، جھوٹی شان میں قرض کے بوجھ کواٹھانا، دودن کی خوشی کیلئے سالہا سال قرض کی ادائیگی میں پریشان ہونا ۔ کیا یہ سب ایک مسلمان کو زیب دیتا ہے؟ کیا یہ امور ایک نئی زندگی کے شروعات میں خیر و برکت کا باعث بن سکتی ہیں؟ دلہا، دلہن اور ان کے ماںباپ، بھائی بہن سنجیدگی سے غور کریں کہ کیا یہ اعمال اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں؟ کیا ایسی خوشی کے ذریعہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوں گے؟ اسلام نکاح کو ایک فطری انسانی ضرورت سمجھ کر ، اس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مرد اور ایک عورت کو قواعد وضوابط کی روشنی میں شادی کی بندھن میں باندھنے کیلئے سادگی کا ہی درس دیتا ہے۔ لیکن شادی بیاہ کے معاملے میں جو طرزِ عمل ہم نے شروع کردیا ہے ۔وہ بہر صورت معاشرے میں اخلاقی انارکی اور بگاڑ پیداکرنے کا ضامن بن رہا ہے اور اس کے منفی نتائج بھی ہمارے سامنے آرہے ہیں۔