افتخار ساقی، اسلامک اسکالر
بے شک عورتوں کے بغیر معاشرے کا وجود ممکن نہیں ہے کیوں کہ عورت ہی نسلِ انسانی کی افزائش کا سبب ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معاشرے کی تشکیل شادی و نکاح کے ذریعے ہوتی ہے۔ کیوں کہ جب مرد و زن آپس میں ملتے ہیں اور ان سے جو نسل انسانی کی افزائش ہوتی ہے، وہی معاشرے کی شکل اختیار کرتی ہے۔ اب جب معاشرے کا وجود ہو گیا تو اس میں اچھائیاں بھی ہوگی اور برائیاں بھی لیکن دور ِحاضر میں معاشرہ اچھائیوں کی بنسبت برائیوں کا مرکز بنا ہوا نظر آتا ہے۔ تقریباً 1500 سال پہلے جن برائیوں کو محسن انسانیتؐ نے معاشرے سے نکال پھینکا تھا، وہی برائیاں آج عام ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ ہم اگر اچھا معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے معاشرے میں چلتی برائیوں کو ختم کرنا ہوگا اور خاص کر ہمارے معاشرے میں جو شادی کا ماحول ہے اس کو یکسر تبدیل کرنا ہوگا۔ آپ کے ذہن میں سوال اٹھ رہا ہوگا کہ اچھے معاشرے کا شادی سے کیا کنکشن ہے؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ جس سے معاشرہ بنتا ہے، وہ اصل میں کسی اور سے نہیں بلکہ شادی کے ذریعے ہی بنتا ہے۔ نسلِ انسانی کی افزائش شادی کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ سب سے پہلے شادیوں میں جوبیماریاں ہیں، ان سب کا مکمل طور پر خاتمہ کرنا ہوگا تبھی جا کر ایک اچھا اور عمدہ معاشرہ وجود میں آئے گا۔
ہمارے معاشرے میں یہ بات عام ہے کہ لڑکے والوں کی طرف سے جتنے باراتی لڑکی والوں کے یہاں پہنچتے ہیں تو ان کے کھانے پینے کا سارا خرچہ و انتظام لڑکی والے کو اٹھانا ہوتا ہے۔ معاشرے سے اس بیماری کو ختم کرنا بہت ضروری ہے اور بہت ساری خرابیاں ہیں جن کا خاتمہ کرنا بے حد ضروری ہے مثلاً ناچ، گانے اور ڈھول باجے وغیرہ ان سب کا بھی اپنی شادیوں سے نکال پھینکنا ہوگا۔ کیوں کہ یہاں سے فیزیکلی معاشرے کو ایک پیغام پہنچتا ہے۔ جیسی فیزیکلی ایکٹیوٹیز ہوں گی ویسا ہی پیغام پہنچے گا اور آنے والی نسلیں اسے سیکھتے اور عمل کرتے ہوئے نظر آئے گی۔ انہیں خرابیوں اور بیماریوں کی وجہ سے ایک خراب و برباد معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ ایک جہیز کا بھی مسئلہ ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ اسلام میں جہیز کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ آپ کے ذہن میں سوال ہوگا کہ اگر اسلام میں جہیز کا کوئی تصور نہیں ہے تو پھر محسن انسانیت ؐ نے اپنی لخت جگر حضرت فاطمہؓ کو شادی میں خانہ داری کے کچھ سامان کیوں دئیے؟ ایک روایت میں یہ ملتا ہے کہ جب حضرت علیؓ نے حضور اکرمؐ کی بارگاہ میں حضرت فاطمہؓ کے لیے نکاح کا پیغام بھیجا تو حضور اکرمؐ نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ مہر کی ادائیگی کے لیے تمہارے پاس کیا ہے؟ اس کے جواب میں حضرت علیؓ نے فرمایا ایک گھوڑا اور ایک زرہ ہے۔ محسن انسانیتؐ نے فرمایا، گھوڑا تو جہاد میں کام آئے گا، ایسا کرو زَرہ بیچ دو۔ تو حضرت علیؓ نے زرہ بیچ دیا اور ساری رقم حضور اکرمؐ کی بارگاہ اقدس میں پیش کر دی۔ تو اُسی رقم سے حضور اکرمؐ نے خانہ داری کے سامان حضرت علی ؓ کو عطا کیے۔ چلو اگر مان بھی لیتے ہیں کہ محسن انسانیتؐ نے اپنی لخت جگر سیدہ فاطمہؓ کو جہیز دیا تھا۔ تو سوال یہ ہے کہ جس نبیؐ نے اپنی پوری حیات مقدسہ میں عدل و انصاف اور برابری سے کام لیا ہو، اس نبیؐ پر ناانصافی کا الزام عائد کرنا ہوگا؟ دوسرا سوال یہ ہوگا کہ محسن انسانیت ؐنے اپنی ایک شہزادی کو جہیز دیا اور باقی شہزادیوں کو کیوں نہیں دیا؟ تو آپ کہیں گے باقی شہزادیوں کے شوہر مالدار تھے، اس لیے انہیں نہیں دیا گیا۔ لیکن ہمارے معاشرے میں چل یہ رہا ہے کہ جو سب سے زیادہ مالدار اور امیر ہے وہی لوگ جہیز کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ اس بیماری اور خرابی کو معاشرے سے ختم کرنا ہوگا، تبھی ایک اچھا، عمدہ اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آئے گا۔ رہا یہ سوال کہ ’’حضور اکرمؐ نے اپنی لخت جگر سیدہ فاطمہؓ کو جہیز دیا ہے‘‘ تو اس کا ایک جواب یہ بھی ہے کہ حضرت علیؓ کی مالی حالت صحیح نہیں تھی، دوسری بات یہ کہ حضرت علیؓ بچپن سے حضور اکرم ؐ کی پرورش میں تھے۔ ایک ذمہ دار کی حیثیت سے دئیے نہ کہ جہیز کے طور پر۔ یہی وجہ تھی کہ محسن انسانیتؐ نے خانہ داری کے ضروری سامان عطا فرمائے۔ آج بھی معاشرے میں یہ حسن عمل پایا جاتا ہے کہ لوگ اپنے غریب داماد کو خانہ داری کے ضروری سامان دیتے ہیں۔
دوسری خرابی یہ ہے کہ عورت جب اپنے سسرال میں کسی چیز کی ضرورت محسوس کرتی ہے، اکثر سسرال والے کہتے ہیں میکے سے لے آؤ یا خود عورت اپنے میکے چلی جاتی ہے اور اس چیز کا مطالبہ کرتی ہے۔ والدین تو والدین ہوتے ہیں اگر ان کے پاس سہولت نہ بھی ہو تو اپنی جائداد یں بیچ کر اپنی بیٹی کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ تو میں ایسی بیٹیوں اور ایسے والدین سے کہوں گا کہ محسن انسانیت ؐ نے جس قدر اپنی شہزادیوں سے محبت فرمائی ہے ،اُن سے زیادہ آپ اپنی بیٹیوں سے محبت کرتے ہیں؟ جو نبی ؐاپنی اُمّت سے اس قدر محبت کرتے ہوں کہ کبھی ان کے لیے اپنے پیٹ میں پتھر باندھ لیتے ہیں تو کبھی اُمت کی بخشش کے لیے اپنے ربّ کی بارگاہ میں آنسوؤں کے دریا بہا دیتے ہیں۔ اب آپ بتائیں کہ وہ نبیؐ اپنی بیٹیوں سے محبت نہ کریں ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ تیسری خرابی مہر ادا نہ کرنے کی ہے۔آج کل معاشرے میں لوگ عورت کو اس کا مہر تک ادا نہیں کرتے ہیں، یہ تو شریعت کی طرف سے شوہر پر مہر ادا کرنا ضروری ہے۔ یاد رہے کہ مہر عورت کو ہی دینا ہے نہ کہ ان کے سرپرست کو ،کیوں کہ مہر کی مستحق عورت ہے۔
چوتھی خرابی فضول خرچی کی ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ بیماری بہت عام ہے، لوگ قرض لے کر فضول خرچی کرتے ہیں۔ جیسے قسم قسم کی ڈشیں بنانا، جس کی جیسی استطاعت ہو ویسا کریں۔ قرض لے کر ڈشیں نہ بنائیں۔ آتش بازی کی بیماری بھی بہت عام ہو چکی ہے۔ ایک عقل سلیم رکھنے والا بندہ بھی آتش بازی کوبُرا سمجھتا ہے کیوں کہ اس میں جان کے نقصان کا قوی اندیشہ ہے اور یہ فضول خرچی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فضول خرچی کرنے والے کو شیطان کا بھائی کہا ،کیوں کہ شیطان مردود، جہنمی اور ناشکرا ہے اور کسی کا ناشکرا ہونا کتنی بڑی ذلت کی بات ہے۔
پانچویں خرابی ’’دیر سے شادی کرنا‘‘ہے۔آخر سرپرست لڑکے اور لڑکی کی شادی میں تاخیر کیوں کرتے ہیں؟ یا تو معاشرے میں چلتی ہوئی غیر ضروری رسموں کو ادا کرنے کے لیے تاخیر کرتے ہیں کہ ابھی ان کے پاس ان غیر ضروری رسموں کو ادا کرنے کے لیے پیسے نہیں۔ یا یہ کہ ابھی میرا بیٹا سیٹل نہیں ہوا ہے، سیٹل ہونے کے بعد شادی کرائیں گے، یا علم حاصل کرنے کی وجہ سے۔ جب اتنی وجوہات ہوں گی تو ظاہر سی بات ہے لڑکے اور لڑکیوں کی عمر زیادہ نہیں ہوگی تو اور کیا؟ جبکہ والدین جوانی کی عمر سے گزر چکے ہیں کہ کس طرح جوانی کی عمر میں نفسانی خواہشات کو کنٹرول کرنا مشکل ہوتا ہے؟ اتنے سارے تجربات، جانکاری اور معلومات ہونے کے باوجود بھی اپنے بچوں کی شادی میں تاخیر کرتے ہیں اور اکثر بچے اس بھری جوانی میں موج مستی کرتے ہیں اور اپنے لیے مفاسد اور فتنوں کے دروازے کھول دیتے ہیں۔ تو کیسے ہمارا معاشرہ ایک اچھا، عمدہ اور پاکیزہ معاشرے کی صورت اختیار کرے گا؟ اسی لیے محسن انسانیتؐ نے فرمایا کہ ’’جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص پیغام لائے جس کا دین اور اخلاق تمہیںپسند ہے تو اس سے نکاح کر دو اور اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد پیدا ہوگا۔‘‘ (ترمذی شریف:1084) اگر ہم ایک اچھا،عمدہ، خوبصورت اور پاکیزہ معاشرہ چاہتے ہیں تو ان خرابیوں اور برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔
[email protected]