حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ کی مبارک زندگی کے تعلق سے ایک حکایت مشہور ہے جو تمام انسانیت کیلئے نصیحت اور اعمال صالحہ کی ترغیب کا باعث ہوسکتی ہے۔واقعہ یوں ہے کہ حضرتؓایک بار اپنے گھوڑے پر سوار کہیں جارہے تھے۔راستے میں نماز کا وقت ہوا تورْک گئے، گھوڑے سے اترے ، وہاں ایک شخص کو دیکھا ، اْس سے کہا۔ ’’بھائی جان میں نماز پڑھنے جارہا ہوں، کیا آپ اتنی دیر میرے اس گھوڑے کا خیال رکھیں گے؟ ‘‘ اْس شخص نے اثبات میں سر ہلایا۔ حضرت علی ؓ نمازادا کرنے چلے گئے۔یہ سوچ کر کہ اتنی دیر گھوڑے کی نگرانی کرنے والے شخص کو کچھ نہ کچھ اجرت ملنی چاہئے، واپس آتے ہوئے آپؓ نے اپنی جیب سے دو درہم نکالے تاکہ اس شخص کو دے دیںلیکن وہاں صرف گھوڑا تھا۔وہ شخص بھی غائب تھا اور گھوڑے کی لگام وغیرہ بھی۔اب حضرت علیؓ پیدل گھوڑے کو ساتھ لئے بازار کی طرف چل پڑے تاکہ گھوڑے سے جو سامان چرایا گیا تھا اس کا بدل کہیں سے خرید لیں۔اتفاق سے وہ دو درہم جو انہوں نے اس شخص کو دینے کیلئے نکالے تھے ان کے ہاتھ میں ہی تھے۔ بازار پہنچے تو ایک دوکان دار کے پاس اپنا ہی سامان لٹکتا ہوا دیکھا۔اب دوکان دار سے وہ اپنی بپتا کیا بتاتے سیدھے مطلب کی بات پوچھی۔’’بھائی صاحب۔اس سامان کی کیا قیمت ہوگی؟‘‘ دوکان دار کا جواب ذرا مفصل تھا۔اس نے کہا کہ ابھی ابھی ایک شخص نے یہ مجھے دو درہم میں بیچا۔آگے آپ کی مرضی!حضرت علی ؓنے افسوس بھرے لہجے میں کہا، کتنا بدقسمت ہے وہ شخص ؟ میں نے بھی دو درہم اس کو دینے کیلئے رکھے تھے اور یہ اس کیلئے کلیتاً حلال ہوتے۔اس نے یہ سامان چوری کرکے کمایا صرف اتنا ہی ، لیکن اپنے لئے وُبال کا سامان بھی بنالیا۔اس کے لئے میرے دو درہم مکمل حلال ہوتے اور یہ مکمل حرام !
حقیقت یہی ہے کہ انسان کو ملنا اتنا ہی ہے جتنا مقدر میں لکھا ہو، اس میں ذرہ برابر فرق بھی ممکن نہیں ہے لیکن جو محدود آزادی اللہ نے اْسے دے رکھی ہے اور جو اس دنیا میں اس کا اصل امتحان ہے وہ یہی ہے کہ آیا وہ اسے حلال طریقے سے حاصل کرتا ہے یا حرام طریقے سے! اول الذکر عمل اسے جنت میں پہنچادیتا ہے اور موخرالذکر عمل جہنم میں اوندھا گرادے گا۔
ملک ِکشمیر کسی ایک نہ ایک طغیان میںہمیشہ گھرا رہتا ہے۔ آج ایک حادثہ، اس سے ابھی سنبھلنے بھی نہ پائیں تو دوسرا سانحہ، اس کی تعزیت پرسی بھی مکمل نہ ہوئی تو اس سے بڑا واقعہ درپیش۔یہی تو ہیں ہمارے لیل ونہار اور ہمارے صبح و شام۔ہمارے ہاں جو نسل پندرہ بیس برس کے آس پاس کی ہے ،انہوں نے اپنی زندگی کے ہر ایک دن کسی نہ کسی چھوٹے یا بڑے سانحہ کا مشاہدہ کیا۔جب کسی قوم پر اس طرح کی اْفتاد پڑتی ہے تو وہ اپنا محاسبہ کرتی ہے، اپنے اعمال کو درست کرنے کی کوشش کرتی ہے۔بارگاہِ الٰہی میں گڑگڑاتے ہوئے دستگیری کی درخواست کرتی ہے لیکن ہمارے ہاں کا بابا آدم نرالا ہے۔وہ ٹس سے مس نہیں ہوتا۔کوئی اْفتاد اس کے معاملات کو متغیر نہیں کرتی۔’تھم ہلے، ہم نہ ہلے ‘ والا محاورہ ہم پر سو فیصد درست ثابت ہوا ہے۔
ہر فرد اور ہر قوم کا ایک ہدف ہوتا ہے۔اسی ہدف کو حاصل کرنے کیلئے ان کی ساری کاوشیں جاری رہتی ہیں۔ہمارا اجتماعی اور انفرادی ہدف کیا ہے؟ ہماری ساری تگ و دو کس لئے؟ ہمارا مطمح نظر کیا؟ ایک اچھا سا بنگلہ، اس میں دنیا کی تمام سہولیتیں میسر ہوں، لمبی چوڑی گاڑیاں ہوں، بچوں کی شادی کے موقع پر ہر پڑوسی اور رشتہ دار کا ریکارڑ توڑنا اور اپنے بچوں کی ایسی اعلیٰ تعلیم جو کل ان کی اَن گنت آمدنی کا وسیلہ بنانے کیلئے کوئی کسر باقی نہ چھوڑنا۔اس کے علاوہ اور کوئی مقصد نظر نہیں آتا۔۲۰۰۸ء میںجب کشمیر میں حالات خراب ہوئے تو اچانک لوگوں کو محسوس ہوا کہ شادی کے موقع پر ان کے ہاں جو افراط ہونے کا پروگرام تھا اْسے پورا کرناممکن نہیں ہوسکتا۔پھر اخباروں کے دفاتر اور ٹی وی چینلز پر اشتہارات کی بھر مار ہوئی۔یہاں تک کہ ایک دن کا ’’گریٹر کشمیر‘‘ شمارہ ، جو میں نے سنبھال کر رکھا ہوا ہے ،وہ اخبار کم اور دعوتوں کی منسوخی کا اشتہار زیادہ لگ رہا تھا۔جہاں نظر پڑی وہاں دیکھا کہ کوئی نہ کوئی دعوت منسوخ ہوئی ہے ہاں البتہ نکاح کی مجلس سادگی سے مقررہ تاریخ پر منعقد ہونے‘‘ کی یقین دہانی بھی ہوتی تھی۔حالات میں ذرا سی ’’بہتری‘‘ واقع ہوئی تو وہی طوفانِ بدتمیزی پھر سے برپا !اس کے اگلے سال پھر وہی سلسلہ شروع ہوا۔طمطراق، نمودونمائش،تبذیر کی معراج، سینکڑوں کاروں کا باراتی بریگیڈ، جہیز سے بھرے ٹرک وغیرہ وغیرہ۔جیسے کہ اب حالات ’’ٹھیک ‘‘ہوگئے تھے۔اچانک شوپیاں کا وہ سانحہ ہوا جس کے تصور سے روح کانپ اْٹھتی ہے۔ایک جملہ جو میری زبان پر آسکتا ہے: جگر زخمی، اشِس لجی دھار أخر…
ماضی ٔ قریب کو فی الفور بھلاکر اس سال جب شادیوں کا سیزن شروع ہوا تو نمود ونمائش اور تبذیر کے سابقہ ریکارڑ ٹوٹنے لگے۔ فضولیات کا کوئی عمل ہماری شادیوں میں چوک نہ جائے اس کا بھر پور اہتمام نظر آیا لیکن اچانک حالات نے کروٹ بدلی۔ نوجوانوں کا گرم گرم لہو وادی کی سڑکوں پر بہنے لگاجو معصوم بچے گھر سے کتابوں کا تھیلا کاندھے پر لٹکائے اْستاد کے ہاں زانوئے ادب تہہ کرنے نکلا،اس کا تھیلا تو واپس آیا لیکن تھیلے والانہیں آیا۔ اب وہ کبھی نہیں آئے گا۔ایک ایک کرکے ڈیڑھ درجن کے قریب نوجوان، جو کل اپنے امی ابا کے ساتھ کھیل رہے تھے آج جنت مکانی ہیں۔
کشمیر ایک بار پھر تھم گیا۔ساکت اور سوگوار، ہر آنکھ نمناک، حساس حضرات و خواتین کی زبانیں گنگ،اور اخباروں میں اشتہارات! نا مساعد حالات کی بناء پر شکم سیری، شکم پرستی معطل، (جیسے گذشتہ بیس سال میں یا اس سے بہت پہلے سے حالات کبھی ساز گار یا نارمل بھی رہے ہوں!) اب مسئلہ معدہ کہیں اور حل کرلو، ہاں البتہ ہم تو نکاح کی تقریب سادگی سے ضرور انجام دیںگے!
خداوندا! ہمارے جاگ جانے کی کوئی تو سبیل کر! ہمیں کوئی ٹھوکر کوئی سانحہ جگا نہیں پاتا ! حضرت رحمتہ للعالمین کی اْمت ہونے کے ناطے اگر تمہارا بے پناہ فضل و کرم ہم پر نہیں ہوتا تو ہم تو قومِ عاد اور قومِ ثمود یا قومِ فرعون اور قوم نوح ؑکی طرح تیرے انتہائی غضب کے کب سے مستحق بنے ہوئے ہیں۔ہم پر تو غضب تو نہیں کرتا، یہ تمہارا کرم ہے۔ تو ہی ہمیں ہدایت عطا فرما۔ ہم سے یہ امید کہاں کہ ہم اس کی خود بھی تگ و دو کریں ؟
مضمون کی ابتداء میں حضرت علیؑ کی مبارک زندگی کا جو واقعہ عرض کیا گیا اس کو ایک بار پھر پڑھیں۔پھر ذرا سوچیں کہ کس قدر بد قسمت تھا وہ شخص جو اپنی بد طینت کی وجہ سے حلال کے دو درہم سے محروم ہوا اور حرام کی اتنی ہی رقم حاصل کرکے اپنی عاقبت برباد کردی۔اْس واقعہ کو نظر میں رکھتے ہوئے سوچئے کہ اگر ہمارے یہ بھائی جو آج کل ’’سادگی سے نکاح‘‘ کے اشتہارات شائع کروارہے ہیں، پہلے ہی یہ فیصلہ کئے ہوتے کہ شادی کی تقریب ضرور ہوگی اْسی لائحہ کے مطابق جو ہمارے پیارے نبی نے ہمیں عطا فرمایا ہے۔ آپ نے جو کچھ کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے وہ ضرور کریںگے ،چاہے حالات سازگار ہوں یا نامساعد۔لیکن آپ نے جس عمل سے منع فرمایا ہے اس کو ہرگز ہرگز نہیں کریںگے تو ان کا اجر بے پایاں ہوتا۔یہ اشتہارات کشمیری مقولہ ’’پیلم نہ تے ڑوکی گام‘‘کی عملی تفسیر ہوتے ہیں۔ آپ نے کبھی کسی کو یہ کہتے سْنا کہ میں اپنی غربت کی وجہ سے شراب نہیں پیتا۔ایسے شخص کا شراب سے پرہیز کوئی معنی نہیں رکھتا۔اللہ کی نظر میں ارادہ اْس کا درست ہے جس کے پاس دولت بھی ہو، صحت بھی ہو ، اور (خدانخواستہ) شراب پسند بھی ہو لیکن…میں نہیں پیتا، نہیں پیوں گا، چھو بھی نہیں سکتا…کیونکہ میری شریعت میں یہ میرے لئے حرام ہے!
ہمارے ہاں شادی بیاہ کے معاملات میں جو کچھ خرافات ہوتی ہے، اُس کے خلاف پچھلے کئی سال سے اتنا کچھ لکھا گیا جتنا شائد تیس سال میں بھی نہ لکھا گیا ہو۔بد قسمتی سے ہمارے ہاں ا ن تقریبات پر نہ صرف یہ کہ لاکھوں کروڑوں روپے کا ضیاع ہوتا ہے بلکہ ایک جانب شریعت ِمطہرہ سے روگردانی اور دوسری جانب سماج میں انتہائی موذی بیماریوں کی ترویج ہوتی ہے۔بارہا یہ واضح کیا گیا کہ نکاح کی تقریب ، مستحسن یہ کہ مسجد میں ہو۔ مہر کی مقرری اور ادائیگی اور صاحب فرزند کے ہاں ولیمہ کی دعوت۔ بس یہی ہے اسلامی طرز پر شادی انجام دینے کا نسخہ۔جہیز اور برات کی دعوت جو ہمارے ہاں کی شادیوں کا مرکزی مضمون ہے ، غیر مسلموں کی رسومات ہیں اور شریعت کی رُو سے ممنوع۔ اسی طرح چراغاں، ویڈیو ریکارڈنگ، اختلاط مردوزن اور باقی وہ تمام معاملات جو ہمارے ہاں اس موقعہ پر انجام پاتے ہیں روح اسلام کو پامال کرنے والے ہیں۔
اگر صرف گذشتہ بیس سال کا ریکارڑ دیکھیں تو یقینا کشمیر ماتم زدہ ہے۔چاہئے تو یہ تھا کہ اگر کچھ اخراجات کے کرنے یا نہ کرنے، دونوں کا اختیار شریعت میں ہوتا تو ہم ان اخراجات میں کٹوتی کرتے۔اسراف کی تو بات ہی نہیں،عام زندگی کو ہم سادگی سے رنگ لیتے۔لیکن ہمیں سادگی اختیار کرنے کیلئے(وہ بھی قطعاً عارضی طور)کوئی ایسا حادثہ چاہئے جس سے انسانیت دہل جائے۔ہم تباہی کے اس دہانے پر پہنچ چکے ہیں جہاں مکمل اندھیرا اور دردناک سزا کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا۔اس سے قبل کہ اللہ اپنی رحمت ہم سے واپس کھینچ لے ہم کو سنبھلنا ہوگا۔دربار خداوندی میں گذشتہ گناہوں کیلئے توبہ اور مستقبل کیلئے فرمانِ نبی کی خلوص کے ساتھ پیروی ! بس یہی ایک بچاوکا راستہ ہے جسے فی الفور اختیار کرنا ہے!
������