شادیوں کی تقریبات، آمد ِعیداور ناجائز منافع خوری

شہر سرینگر میں شادی بیاہ کی تقریبات کا موسم اگرچہ ستمبر سے نومبر تک جوبن پر آجاتا ہے تاہم اب اس میں بھی کافی حد تک تبدیلی آگئی ہے۔شادی بیاہ کی تقریبات منعقد کرنے میں بھی لوگوں کی نہج بدل گئی ہےاور یہ تقریبات اب اپریل ،مئی اور جون کے مہینوں میں بھی بڑے پیمانے ہورہی ہیںجبکہ موسم میں زیادہ تمازت ہونے کے پیش ِ نظر جولائی اور اگست کے مہینوں میں یہ تقریبات محدود پیمانے پر ہوتی رہتی ہیں۔اب جبکہ رواں مہینے میں شادیوں کی تقریبات کا انعقاد زوروں پر ہےتو ان تقریبات میں استعمال ہونے والی اشیائے ضروریہ کی تقریباً تمام چیزوںکی قیمتوں میں اضافے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔بیشتر تاجروں اور دکانداروں نے شادی بیاہ کی تقریبات کی آڑ میں اپنے روایتی کھیل کے تحت ناجائز منافع خوری کا جو طرزِعمل اختیار کیا ہے ،عید الاضحی کی آمد پراُسے مزید وسیع کردیا ہے۔ایک منصوبہ بند طریقے شادی بیاہ کی تقریبات میں استعمال ہونے والی بعض اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا کرکے حد سے زیادہ ناجائز منافع خوری شروع کردی ہے۔چاول ،کھانے کے تیل،گھی،مصالحہ جات ،کھانڈ ،خشک دودھ اور بالن کے بھاو بڑھالئے ہیں۔وازہ پکانے کے لئے بالن (جلانے کی لکڑی) فی کونٹل آٹھ سو روپے تک فروخت کی جارہی ہے۔جبکہ سوکھے لہسن و پران کی قیمتیں آسمان پر پہنچادی گئی ہیں۔کرایے پر ٹینٹ،تجیرے اور دوسرے تانبے اور اسٹیل کا سامان فراہم کرنے والوں نے بھی لوٹ مچادی ہے۔ڈیکوریشن ،فرش اور دوسرے سجاوٹی سامان کی فراہمی میں بھی یہی پالیسی اپنائی جارہی ہے۔ستم ظریفی کا عالم یہ ہے کہ ان معاملات میں یہاں کی سرکاری انتظامیہ کی طرف سے کوئی ریٹ لسٹ بھی مقرر نہیں کی گئی ہے،جس کے نتیجے میں اگر کوئی گاہک ان معاملات میں متعلقہ دکانداروں یا تاجروں سے مزاحمت کی کوشش کرتا ہے تو اُسے مُنہ کی کھانا پڑتی ہے۔جانکار حلقوں کے مطابق شادی بیاہ کی تقریبات کے سلسلے میں مختلف ضروری سامان کرایے پر فراہم کرنے والے مالکان اور دکاندارسالانہ لاکھوں کروڑوں روپے کمارہے ہیں لیکن پھر بھی حکومتی نظروں سے اوجھل ہیں اور ٹیکسز اور ویٹس سے مستثنیٰ ہیں۔آشپازوں کا بھی یہی حال ہے فی کوئنٹل گوشت پکانے کے لئےسات سے دس ہزار روپےتک کی اُجرت وصول کرکے شادیوں کے سیزن میں لاکھوں روپےکمارہے ہیںلیکن پھر بھی حکومتی نظروں میںلاچار بنے ہوئے ہیں۔ڈرائی فروٹ جوکہ شادی بیاہ کی تقریبات کا لازمی حصہ بن چکا ہے ،بیچنے والے بھی من چاہے نرخوں پر
خشک میوے فروخت کررہے ہیں۔اسی طرح طلائی زیورات فروخت کرنے والے تاجر،دکاندار اور سونارکِس گریڈ اور کِس کریڈٹ کے تحت زیورات فروخت کررہے ہیں ،اس کی جانچ پڑتال کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ظاہر ہے کہ اپنے یہاں معاشرے میں ایمانداری ،ہمدردی اور انصاف نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی ہے،اس لئے معاشرے کے زیادہ تر لوگ ہر وقت ،ہر معاملے میںایک دوسرے کو لوٹنے میں مصروف رہتے ہیںاور اب شادی بیاہ کی تقریبات اور عید کی آمد کے آڑ میں اس لوٹ کو بڑھاوا دینے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔لوگوں کے اس طرزِ عمل اور ذہنی دیولیہ پن سے اگرچہ لوٹ کھسوٹ اور دیگر ناجائز طریقوں سے دولت حاصل کرنے والے اُن نو دولتیوں اور استحصالی سرمایہ دار طبقوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا جو شادی بیاہ کی تقریبات پر پیسہ پانی کی طرح بہادیتےہیں،لیکن اس طرزِ عمل سے وادی کشمیر کے عام لوگوں کے مشکلات میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کے حوالے سے بعض تجزیہ کاروں نے جو اشاریے دیئے ہیں ،ان میں مجموعی طور پر اضافے کا رجحان ظاہر کیا جارہا ہے۔رواں سال کے دوران بھی بیشتر چیزوں کی قیمتوں میں زیادہ تر دکانداروں اور تاجروں نے اَز خود اضافے کردیئے ہیں۔قیمتوں کے بارے میں سرکاری اعدادو شمار کے اشاریوں کا تو یہاں کوئی وجود ہی نہیں ،جس سے قیمتوں میں کمی یا اضافے کی نشاندہی ہوسکتی اور قیمتوں کی حقیقی صورت حال عوام کے سامنے واضح ہوجاتی۔مہنگائی کا جو تجربہ عام لوگوں کو ہر روز ہوتا رہتا ہےاُس سے تو سرکاری انتظامیہ بالکل ناواقف ہے۔چاول ،آٹا ،کھانے کے تیل ،کھانڈ ،دودھ ،گوشت اور سبزیوںکے بارے میں عام آدمی کا یہی تجربہ ہے کہ ان کی قیمتیں بڑھنے کے بعد کبھی بھی اعتدال پر نہیں آئیں،جس کے نتیجے میں عام گھرانوں کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول دن بہ دن دشوار بنتا جارہا ہے۔لوگ حیران ہیں کہ آخر ان حقائق پر یہاں کا سرکاری انتظامیہ کب توجہ دینے کی ضرورت محسو س کرے گا؟
�������������������