سر تھامس روجب شہنشاہ سے ملا اور کامیاب تجارتی معاہدہ کیا تو شہنشاہ بہت خوش ہوا۔ اس نے سوچا کہ کہ تجارتی معاہدہ ایک گیم چینجر ہو گا۔ اس تجارتی معاہدے کی رو سے سورت کی بندرگاہ کا مکمل کنٹرول تاج برطانیہ کو دے دیا اور بدلے میں کیا مانگا؟ صرف اپنے محل کیلئے یورپی منڈیوں کی نوادرات۔ شہنشاہ جہانگیر اس تجارتی معاہدے سے اتنا خوش ہوا کہ اس نے شہنشاہ برطانیہ جیمز ون کو خط لکھا کہ اس تجارتی معاہدے سے جو ’لازوال اورابدی دوستی‘ شروع ہوئی ہے وہ ہمیشہ قائم رہے گی۔ شہنشاہ ہند کا خیال تاریخ نے درست ثابت کر دیا یعنی وہ معاہدہ واقعی گیم چینجر ثابت ہوا لیکن ہندوستان نہیں بلکہ انگلستان کیلئے۔ وہ واقعی گیم چینجر ثابت ہوا لیکن ہندوستان کی غلامی کا گیم چینجر۔جب 1612ء میں سر تھامس رو نے ہندوستان میں قدم رکھا تو ہندوستان دنیا کے خوشحال ترین ملکوں میں شامل تھا اور جب ماؤنٹ بیٹن نے 1948 ء میں واپسی کا سفر شروع کیا تو ہندوستان دنیا کے غریب ترین ملکوں میں شمار ہوتا تھا۔
جب سے ہوش سنبھالا ایسٹ انڈیا کمپنی کی داستانِ غم پڑھنے کو ملی، ہمیشہ سوچتا تھا کہ جہانگیر اتنا ہی کم عقل اور غافل تھا کہ اسے پتہ ہی نہ چلا کہ کیا ہو رہا ہے۔ حیران ہوتا کہ ہندوستان کا حکمران طبقہ اتنا نا اہل تھا کہ کسی کو بھنک نہ پڑی کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کیا کرنے جا رہی ہے۔ پریشان ہوتا کہ پورے ہندوستان میں کسی کو بین الاقوامی حالات پر نظر ڈالنے کی توفیق نہیں ہوئی کہ یورپی تاجر منڈیوں پر اجارہ داری کیلئے کیسے پوری دنیا کو قبضے میں لینے کی جنگ لڑ رہے تھے۔ لیکن اب جبکہ اس گیم کا ایکشن ری پلے اپنی گناہ گار آنکھوں کے سامنے ہوتا ہوا دیکھ رہا ہوں تو کیفیت سوز ناقابل بیان ہے۔استعماریت کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسانی تاریخ۔ قدیم تاریخ میں یونان اور فونیشیا نے اپنی برتر طاقت اور سرمائے کو استعماری مقاصد کیلئے استعمال کیا اور ارد گرد کے ملکوں پر قبضہ کر لیا۔ پھر رومی سلطنت کا زمانہ آیا جس نے مغربی یورپ، شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ پر قبضہ کر لیا۔ ایران کی ساسانی سلطنت جس نے یمن اور اومان کو اپنی کالونی بنا لیا، کے بعد عربوں کی باری آئی جنہوں نے مشرق وسطیٰ، جنوبی وسطی ایشیا اور شمالی افریقہ پر قبضہ کر لیا۔ پھر یورپ میں سیکنڈے نیویا ملکوں کے وائکنگز نے شمالی یورپ، آئس لینڈ اور گرین لینڈ پر استعمار قائم کیا۔ پھر سپین، پرتگال، برطانیہ، فرانس اور ہالینڈ پوری دنیا پر ٹوٹ پڑے اور تقریباً ساری دنیا ان کے قبضے میں آ گئی۔ انیسویں صدی میں جاپان نے اپنے ارد گرد کے ملکوں پر قبضہ شروع کر دیا۔ پھر روس کی باری آئی جس نے وسطی ایشیا، مشرقی یورپ پر قبضہ جما لیا۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم نے استعماری قوتوں کو کمزور کیا تو پاکستان سمیت سینکڑوں مقبوضہ ملکوں کو آزادی ملی۔ لیکن اب استعماری افق پر چین کا سورج بتدریج طلوع ہو رہا ہے۔ افریقہ، جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں نئی چینی استعماریت بتدریج قدم جما رہی ہے۔
میں ذاتی طور پر چین اور چینی قوم کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ جب میں نے سفارت کاری کی پیشہ ورانہ تربیت میں پہلی پوزیشن حاصل کی تو میرے پاس نیو یارک، پیرس اور دیگر کئی اہم سٹیشنز میں لینگوئج پوسٹنگ لینے کی چوائس تھی لیکن میری ایک ہی تمنا تھی کہ مجھے کسی طرح چین کو دیکھنے اور سمجھنے کا موقع مل جائے سو بیجنگ کی پوسٹنگ کو ترجیح دی۔ وہاں پہنچا تو سب سے پہلے سائیکل خریدی اور دو سال تک سائیکل، بسوں اور زیر زمین ٹرینوں پر چینی قوم کے مزاج اور ان کی ترقی کی کھوج میں لگا رہا۔ وہاں سے اپنی قوم کو ایک خوددار اور با وقار قوم بنانے کیلئے جو سبق اخذ کئے ان کالموں کے ذریعے قارئین تک حسب ِ توفیق پہنچانے کی کوشش کرتا رہا ہوں۔سی پیک کے حوالے سے جو کچھ چین پاکستان کے ساتھ کر رہا ہے، میں اس کا دوش چین کو نہیں دیتا کہ ہر استعماری قوت یہی کرتی ہے۔ میری نظر میں اصل مجرم ہمارے حکمران ہیں۔ جس طرح شہنشاہ جہانگیر نے اپنے محل کی نوادرات کیلئے ہندوستان کی غلامی کے بیج بوئے، کمیشن اور پانامہ کمپنیوں کیلئے مشہور ہمارے حکمران خفیہ معاہدوں کے ذریعے نئی غلامی کے بیج بو رہے ہیں۔ حال ہی میں سی پیک کے حوالے سے دو خوفناک خبریں سامنے آئیں۔ پہلی یہ کہ خفیہ معاہدوں کے ذریعے ہماری حکومت چین کو مخصوص علاقے صنعتی زون کیلئے دے رہی ہے جہاں صرف چینی شہری فیکٹریاں لگائیں گے اور جن پر پاکستانی ریاست، عدالتوں، پولیس کی عمل داری نہیں ہوگی۔ اور دوسری یہ کہ چینی سرمایہ کاری پر چالیس فیصد کی خوفناک شرح سود پر پاکستان کی اگلے تیس سالوں میں 50؍ ارب ڈالر کے عوض چین کو 90؍ ارب ڈالر واپس کرنے ہوں گے۔ چند سالوں بعد ہمیں ہر سال سالانہ 3 ؍سے 4 ؍ارب ڈالر چینی بینکوں کو واپس کرنے ہوں گے۔ چینی لیبر اور چینی خام مال کے استعمال کی خوفناک شرائط سامنے آرہی ہیں۔ اس سے بھی خوفناک پہلو یہ ہے کہ اس50؍ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں سے صرف 25؍ فیصد زر مبادلہ پاکستان آئے گا اور باقی چین کے اندر ہی چینی کمپنیوں اور بینکوں کے درمیان ہاتھ تبدیل کرتا رہے گا۔ اسی دوران چین کو دھڑا دھڑ پاکستانی تزویراتی اثاثے خریدنے کی اجازت دی جا رہی ہے اور ان کی شرائط بھی خفیہ رکھی جارہی ہیں یا جو سامنے آرہی ہیں ان پر آزاد ماہرین معاشیات کے حواس خطا ہو رہے ہیں۔جب نااہل، کرپٹ اور خود غرض حکمران مسلط ہو جائیں جو قوم کو اس بے دردی سے گروی رکھنا شروع کر دیں تو پھر یہی ہو گا جو پاکستان کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ قوم کو جاگنا ہوگا، جھوٹے اور فریبی قومی بیانیے اور اس کی آڑ میں وطن فروشی کے آگے بند باندھنا ہو گا۔ قوم کو سوالات اٹھانے ہوں گے اور ان حکمرانوں کا احتساب کرنا ہوگا۔